نہ دل سے آہ، نہ لب سے صدا نکلتی ہے
مگر یہ بات، بڑی دُور جا نکلتی ہے
سِتم تو یہ ہے کہ عہدِ سِتم کے جاتے ہی
تمام خلق مری ہمنوا نکلتی ہے
وصالِ بحر کی حسرت میں جُوئے کم مایہ
کبھی کبھی کسی صحرا میں جا نکلتی ہے
میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
ترے لئے مرے دل سے دعا نکلتی ہے
وہ زندگی ہو کہ دنیا فراز کیا کیجے
کہ جس سے عشق کرو بے وفا نکلتی ہے
Comment