بھلے دنوں کی بات ہے
بھلی سی اک شکل تھی
نہ یہ کہ حسن طام ہو
نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو
کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر
بھلا بھلا سا سفر لگے
کوئی بھی رت ہو، اس کی چھب
فضا کا رنگ روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے
نہ ساتھ صبح و شام ہو
نہ رشہء وفا پہ ضد
نہ یہ کہ ازن عام ہو
نہ ایسی خوش لباسیاں
کہ سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی
کہ آئینہ حیا کرے
نہ اختلاط میں وہ رنگ
کہ بدمزہ ہوں خواہشیں
نہ اس قدر سپردگی
کہ زچ کریں نوازشیں
نہ عاشقی جنون کی
کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن
کہ دوستی خراب ہو
کبھی تو بات بھی کافی
کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشت زعفران
کبھی اداسیوں کا بن
سنا ہے ایک عمر ہے
معاملات دل کی بھی
وصال جاں فزا تو کیا
فراق جاں گسل کی بھی
سو اک روز کیا ہوا
وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں
وہ میری ضد سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا
وہ عشق کو قفس کہے
کہ تمام عمر کے ساتھ کو
بد تر از ہوس کہے
ہجر شجر نہیں ہے کہ
ہمیشہ پاء بہ گل رہے
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں
گلے میں مستقل رہیں
محبتوں کی وسعتیں
ہمارے دست و پا میں ہیں
بس ایک در سے نسبتیں
ساجن بے وفا میں ہیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں
کہ اک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہے
اسی کے پریم میں رہوں
تمہاری سوچ جو بھی ہو
میں اس مزاج کی نہیں
مجھے وفا سے بیر ہے
یہ بات آج کی نہیں
نہ اس کو مجھ پہ مان تھا
نہ مجھ کو اس پہ زعم تھا
جو عہد ہی کوئی نہ ہو
تو کیا غم شکستگی
سو، اپنا اپنا راستہ
ہنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی
میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی
بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد رات دن
نہیں, مگر کبھی کبھی
نہ یہ کہ حسن طام ہو
نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو
کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر
بھلا بھلا سا سفر لگے
کوئی بھی رت ہو، اس کی چھب
فضا کا رنگ روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے
نہ ساتھ صبح و شام ہو
نہ رشہء وفا پہ ضد
نہ یہ کہ ازن عام ہو
نہ ایسی خوش لباسیاں
کہ سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی
کہ آئینہ حیا کرے
نہ اختلاط میں وہ رنگ
کہ بدمزہ ہوں خواہشیں
نہ اس قدر سپردگی
کہ زچ کریں نوازشیں
نہ عاشقی جنون کی
کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن
کہ دوستی خراب ہو
کبھی تو بات بھی کافی
کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشت زعفران
کبھی اداسیوں کا بن
سنا ہے ایک عمر ہے
معاملات دل کی بھی
وصال جاں فزا تو کیا
فراق جاں گسل کی بھی
سو اک روز کیا ہوا
وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں
وہ میری ضد سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا
وہ عشق کو قفس کہے
کہ تمام عمر کے ساتھ کو
بد تر از ہوس کہے
ہجر شجر نہیں ہے کہ
ہمیشہ پاء بہ گل رہے
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں
گلے میں مستقل رہیں
محبتوں کی وسعتیں
ہمارے دست و پا میں ہیں
بس ایک در سے نسبتیں
ساجن بے وفا میں ہیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں
کہ اک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہے
اسی کے پریم میں رہوں
تمہاری سوچ جو بھی ہو
میں اس مزاج کی نہیں
مجھے وفا سے بیر ہے
یہ بات آج کی نہیں
نہ اس کو مجھ پہ مان تھا
نہ مجھ کو اس پہ زعم تھا
جو عہد ہی کوئی نہ ہو
تو کیا غم شکستگی
سو، اپنا اپنا راستہ
ہنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی
میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی
بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد رات دن
نہیں, مگر کبھی کبھی
Comment