گُل و سمن سے بھی رشتے قرار جاں کے ہیں
بہت فریب یہاں عمر رائیگاں کے ہیں
نہیں ہے کوئی بھی منزل اگر مری منزل
تو پھر یہ پاوں تلے راستے کہاں کے ہیں
قمر سے دیکھ طلوع زمیں کا نظارہ
نگاہ پر تو بہت قرض آسماں کے ہیں
نظر نظر میں یہاں پھر رہی ہیں تعبیریں
کچھ اور خواب مگر چشم پاسباں کے ہیں
یہ کس نے پھر مری تحریر سے خطاب کیا
کہ حرف حرف میں انداز رازداں کے ہیں
اُداس جس نے رکھا ہے تمہاری آنکھوں کو
اسیر ہم بھی اسی خواب رائیگاں کے ہیں
سحر ، نصیب وفا قتل گاہ شب ہی سہی
مرے لہو میں ستارے تو کہکشاں کے ہیں
Comment