جب ہر سُو رنگ سے پھیل گئے
امیدوں کا کشکول اُٹھائے من اپنا بھی پھر چل نکلا
پھر آتے گئے ہمدرد مرے اور بھرتا گیا کشکول میرا
ہر لفظ دُعا کا تھا اس لمحے اور ہر بول میرا
لوٹ آیا دل اپنا من کی چوکھٹ پہ
بے چین بہت تھا دل میرا کہ نہ جانے اب کیا راز کھلے
دل خوش تھا کہ آج تو خوشیاں جیت گئیں اور آج تو غم ہار گئے
لیکن جب کشکول میں جھانکا تو دیکھا
وہاں آہیں تھیں وہاں آنسو تھے
کچھ ٹوٹے دل بے قابو تھے
وہاں خوشیوں اک کا نام نہ تھا
بس اشکوں کی برسات ملی
یاروں سے ہے یہ کیسی سوغات ملی
پھر ٹوٹا جام اور چھلکی آنکھیں
تھیں قسمت میں اب لمبی راتیں
جب یاروں نے دل توڑ دیا
پھر کیسے قصے کیسی باتیں
آخر بے بس ہو کر دل نے یہ جان لیا
یہاں خوشیوں کے سب ساتھی ہیں
یہ غم کو بٹانا کیا جانیں
Comment