فار یو اونلی
ایک خوبصورت نظم ایک بہت ہی باذوق دوست کے نام اس امید
سے کہ تمہیں پسند آئے گی جیسا کہ تم ہمشہ سے ہی میرے
ادبی ذوق کی گرویدہ رہی سو وہی منفرد اور دلنشین نظم صرف تمہارے
کہ اس میں چھپی ذاتی دکھ کی پرچھائیں اورتنہائی
میں اترتی کرب کی کرنیں بلیغ استعارات،تلمیحات
تم ہی جان پائو گی
؎
برسوں کے بعد آج بھی اے مبدہ حیات
تو میری دوست بھی ہے، مری ہم سخن بھی ہے
تو میرا شعر، میرا فسانہ، مری زبان
تو میرا فن بھی ہے میرا موضوع فن بھی ہے
خوش رہیں بہت زیادہ
تعبیر
:shyy:
مشرق و مغرب
گرم ملکوں کا رہنے والا ہوں
برف زاروں سے کتنے ساگر دور
ایک چھالے کی طرح، صحرا میں
میرا خاکستری گھروندا ہے
جس کے چٹخے ہوئے کواڑوں میں
جس کی دہلیز کے نشیب کے پاس
فن تعمیر کا پرانہ پن
ایک ویرانی بن کے بیٹھا یے
چاندنی رات سرد ملکوں کی
نیلی برفوں میں منعکس ہو کر
اپنی کرنوں کی جھالروں میں چھپی
ایک رومان بن کے اتی ہے
چاندنی رات گرم ملکوں کی
محنتوں کی تھکن کے سناٹے
اپنی ننگی کمر پہ لادے ہوئے
ایک طوفان بن کے اتی ہے
سرد ملکوں کی دوپر کا لباس
ایک ایسی مہین چادر ہے
جس کی پرتوں کا سونا
قمقمے بن کے مسکراتا ہے
۔۔اور اپنا لباس عریانی
جس پہ سورج، شعاعوں کے کوڑے
اس قدر طیش س لگاتا ہے
راکھ کا ڈھیر چھوڑ جاتا ہے
گرم ملکوں میں حسن کی قدریں
کتنی اندھی، قدیم صدیوں سے
آگ بھڑکا کے اپنے پیکر کی
اپنے ہی گیسئوں کا بن کے دھواں
زندگی کے اداس آنگن میں
اک الاو لگائے بیٹھی ہے
اور اس گرد باد آتش میں
جل رہی ہیں گلاب کی کلیاں
گرم ملکوں کے عشق پیشہ جواں
دھوپ کی چلچلاتی نگری میں
ہل چلاتے ہیں بیچ بوتے ہیں
اور پھر عاقبت کو روتے ہیں
ان کی محنت پہ وجد کرتے ہوئے
موتیوں سے لدے ہوئے خوشے
جتنے بھرپور ہوتے جاتے ہیں
اتنے ہی دور ہوتے جاتے ہیں
سرد ملکوں میں حسن و عشق کی رو
زندگی سے قدم ملائے ہوئے
آسماں کی طرح فضا کی طرح
روز و شب پہ محیط رہتی ہے
گھر میں، معبد میں یا سر راہے
ہر طرف، ہر مقام، ہر وقت
جب بھی حسن اور عشق ملتے ہیں
گرم بوسوں کے پھول کھلتے ہیں
سرد ملکوں میں کتنی گرمی ہے
جسم کی ، روح کی، خیالوں کی
گرم ملکوں پہ سرو مردہ سکوت
ایک آسیب بن کے طاری ہے
سرد ملکوں میں زندگی کا شعور
ایک ذرے کو بھی سنوارتا ہے
گرم ملکوں میں موت کا احساس
ٹھوکریں زندگی کو مارتا ہے
سرد ملکوں کا رہنے والے دوست
میں کھنڈر کے ستون کی مانند
سوچتا ہوں۔۔۔کہ اس آباد خرابے میں
میں اگر بس وہی ہوں جو کچھ ہوں
میں اگر ولولوں کا ملبہ ہوں
میں اگر حوصلوں کا مرقد ہوں
میرے جینے کا پھر جواز ہے کیا ؟؟
اخر اس بے بسی کا راز ہے کیا
سوچتا ہوں۔۔۔ ( میں سوچ لیتا ہوں)
چاند جو میرے گھر میں نکلا ہے
تیرے ایوان میں بھی جھانکے گا
جس زمیں پر میں ایستادہ ہوًں
نیلے نیلے سمندروں کے تلے
دبتی اٹھتی لچکتی جاتی ہے
اور بن کر ترے وطن کی زمین
تیرے قدموں کو تھپتپھاتی ہے
سوچتا ہوں۔۔۔ کہ میری حالت زار
کیا فقط رنگ کی شرارت ہے
کیا فقط اس لیے حقیر ہوں میں
کہ یہاں دھوپ چلچلاتی ہے
کیا فقط اس لیے عظیم ہے تو
کہ تری کھڑکیوں کے شیشوں سے
جب کرن آفتاب کی جھانکے
برف اس کی ہنسی اڑاتی ہے؟
رنگ اور رت نہیں مدار حیات
رنگ سورج کا ایک زاویہ ہے
رت فقط ایک رخ ہے دھرتی کا
میرے چہرے کا رنگ میری دھوپ
تیرے چہرے کا رنگ برف تری
تو مری دھوپ کا ترستا ہے
میں تری برف کے لیے بے چین
دو مسافر ہیں۔۔۔۔۔ایک راستہ ہے
ایک خوبصورت نظم ایک بہت ہی باذوق دوست کے نام اس امید
سے کہ تمہیں پسند آئے گی جیسا کہ تم ہمشہ سے ہی میرے
ادبی ذوق کی گرویدہ رہی سو وہی منفرد اور دلنشین نظم صرف تمہارے
کہ اس میں چھپی ذاتی دکھ کی پرچھائیں اورتنہائی
میں اترتی کرب کی کرنیں بلیغ استعارات،تلمیحات
تم ہی جان پائو گی
؎
برسوں کے بعد آج بھی اے مبدہ حیات
تو میری دوست بھی ہے، مری ہم سخن بھی ہے
تو میرا شعر، میرا فسانہ، مری زبان
تو میرا فن بھی ہے میرا موضوع فن بھی ہے
خوش رہیں بہت زیادہ
تعبیر
:shyy:
مشرق و مغرب
گرم ملکوں کا رہنے والا ہوں
برف زاروں سے کتنے ساگر دور
ایک چھالے کی طرح، صحرا میں
میرا خاکستری گھروندا ہے
جس کے چٹخے ہوئے کواڑوں میں
جس کی دہلیز کے نشیب کے پاس
فن تعمیر کا پرانہ پن
ایک ویرانی بن کے بیٹھا یے
چاندنی رات سرد ملکوں کی
نیلی برفوں میں منعکس ہو کر
اپنی کرنوں کی جھالروں میں چھپی
ایک رومان بن کے اتی ہے
چاندنی رات گرم ملکوں کی
محنتوں کی تھکن کے سناٹے
اپنی ننگی کمر پہ لادے ہوئے
ایک طوفان بن کے اتی ہے
سرد ملکوں کی دوپر کا لباس
ایک ایسی مہین چادر ہے
جس کی پرتوں کا سونا
قمقمے بن کے مسکراتا ہے
۔۔اور اپنا لباس عریانی
جس پہ سورج، شعاعوں کے کوڑے
اس قدر طیش س لگاتا ہے
راکھ کا ڈھیر چھوڑ جاتا ہے
گرم ملکوں میں حسن کی قدریں
کتنی اندھی، قدیم صدیوں سے
آگ بھڑکا کے اپنے پیکر کی
اپنے ہی گیسئوں کا بن کے دھواں
زندگی کے اداس آنگن میں
اک الاو لگائے بیٹھی ہے
اور اس گرد باد آتش میں
جل رہی ہیں گلاب کی کلیاں
گرم ملکوں کے عشق پیشہ جواں
دھوپ کی چلچلاتی نگری میں
ہل چلاتے ہیں بیچ بوتے ہیں
اور پھر عاقبت کو روتے ہیں
ان کی محنت پہ وجد کرتے ہوئے
موتیوں سے لدے ہوئے خوشے
جتنے بھرپور ہوتے جاتے ہیں
اتنے ہی دور ہوتے جاتے ہیں
سرد ملکوں میں حسن و عشق کی رو
زندگی سے قدم ملائے ہوئے
آسماں کی طرح فضا کی طرح
روز و شب پہ محیط رہتی ہے
گھر میں، معبد میں یا سر راہے
ہر طرف، ہر مقام، ہر وقت
جب بھی حسن اور عشق ملتے ہیں
گرم بوسوں کے پھول کھلتے ہیں
سرد ملکوں میں کتنی گرمی ہے
جسم کی ، روح کی، خیالوں کی
گرم ملکوں پہ سرو مردہ سکوت
ایک آسیب بن کے طاری ہے
سرد ملکوں میں زندگی کا شعور
ایک ذرے کو بھی سنوارتا ہے
گرم ملکوں میں موت کا احساس
ٹھوکریں زندگی کو مارتا ہے
سرد ملکوں کا رہنے والے دوست
میں کھنڈر کے ستون کی مانند
سوچتا ہوں۔۔۔کہ اس آباد خرابے میں
میں اگر بس وہی ہوں جو کچھ ہوں
میں اگر ولولوں کا ملبہ ہوں
میں اگر حوصلوں کا مرقد ہوں
میرے جینے کا پھر جواز ہے کیا ؟؟
اخر اس بے بسی کا راز ہے کیا
سوچتا ہوں۔۔۔ ( میں سوچ لیتا ہوں)
چاند جو میرے گھر میں نکلا ہے
تیرے ایوان میں بھی جھانکے گا
جس زمیں پر میں ایستادہ ہوًں
نیلے نیلے سمندروں کے تلے
دبتی اٹھتی لچکتی جاتی ہے
اور بن کر ترے وطن کی زمین
تیرے قدموں کو تھپتپھاتی ہے
سوچتا ہوں۔۔۔ کہ میری حالت زار
کیا فقط رنگ کی شرارت ہے
کیا فقط اس لیے حقیر ہوں میں
کہ یہاں دھوپ چلچلاتی ہے
کیا فقط اس لیے عظیم ہے تو
کہ تری کھڑکیوں کے شیشوں سے
جب کرن آفتاب کی جھانکے
برف اس کی ہنسی اڑاتی ہے؟
رنگ اور رت نہیں مدار حیات
رنگ سورج کا ایک زاویہ ہے
رت فقط ایک رخ ہے دھرتی کا
میرے چہرے کا رنگ میری دھوپ
تیرے چہرے کا رنگ برف تری
تو مری دھوپ کا ترستا ہے
میں تری برف کے لیے بے چین
دو مسافر ہیں۔۔۔۔۔ایک راستہ ہے
Comment