ایک علامت
سعادت حسن منٹو کی وفات پر
گھاس سے بچ کے چلو ریت گو گلزار کہو
نرم کلیوں پہ چڑھا دو غم دوراں کے غلاف
خود کو دل تھام کے مرغان گرفتار کہو
رات کو اس کے تبسم سے لپٹ کے سو جائو
صبح اٹھو تو اسے شاہد بازار کہو
ذہن کیا چیز ہے جذبے کی حقیقت کیا ہے
فرش پہ بیٹھ کے تبلیغ کے اشعار کہو
اسی رفتار سے چلتا ہے جہان گدازں
انہی قدموں پہ زمانے کے قدم اٹھتے ہیں
کوئی عینک سے دکھاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں
کوئی کاندھوں پہ اٹھاتا ہے تو ہم اٹھتے ہیں
کسی ایک گوشہ تاریک کے ویرانے میں
کسی جگنو کے چمکنے پہ فغاں ہوتی ہے
کبھی اس مرحمت خاص کا اندازہ نہیں
کبھی دو بوند چھلکنے پہ فغاں ہوتی ہے
کبھی منزل کے تصور سے جگر جلتے ہیں
کبھی صحرا میں بھٹکنے پہ فغاں ہوتی ہے
ہم نے اس چور کو سینوں میں دبا رکھا ہے
ہم اس چور کے خطرے سے پریشاں بھی ہیں
کون سمجھے گا اس سطع خوش آواز کے بعد
اس ٹھرے ہوئے تالاب میں طوفان بھی ہیں
بھائی کی انکھ کے کانٹے پہ نظر ہے سب کی
دیوتا بھی ہیں اس بزم میں انسان بھی ہیں
خط سرطان سے اتی ہے ملر کی اواز
اور امریکہ کے بازاروں میں کھو جاتی ہے
جائس کی فکر نے تعمیر کیا ہے جس کو
وہ زمیں حسرت معمار میں کھو جاتی ہے
کبھی منٹو کا قلم بن کے دہکتی ہے حیات
کبھی سرمائے کی تلوار میں کھو جاتی ہے
ہر پیغمبر پہ ہنسا یہ زمانہ لیکن
ہر پیمبر نے جھکائی ہے زمانے کی جبیں
اپنے ہمعصر سے خائف نہ ہو اے وقت کی آنچ
اسکی مٹی میں ستاروں کا دھواں ہے کہ نہیں
اسی مٹی سے دمکتی ہے یہ دھرتی ورنہ
دردیک ساغر غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں
جسم کے داغ چھپانا تو کوئی بات نہیں
روح کے زخم سلگتے ہیں پس پردہ دل
سرچھپا لیتے ہو تم ریت میں جس کے آگے
اسی طوفان میں گھر جاتے ہیں لاکھوں ساحل
ایک راہی جسے احساس نہ حسرت نہ طلب
اک سفر جس میں منزل نہ سراغ منزل
اپنی سبک ناک سے رمال ہٹاو
کھاد میں محض تعفن نہیں خیز بھی ہے
ذوق درکار ہے قطے کو گہر کرنے میں
یہ مئے ناب پراسر بھی ہے تیز بھی ہے
کچھ تو ہے وجہ دل آزاری و اہنگ وستیز
ورنہ یہ طبع خوش اخلاق و کم آمیز بھی ہے
شہر کی تیرہ و تاریک گزرگاہوں میں
داستاں ہو گی تو منٹو کا قلم لکھے گا
زیست قانون و فرامین قفس کے اگے
بے زباں ہو گی تو منٹو کا قلم لکھے گا
اس شفاخانہ اخلاق میں نشتر کے قریب
رگ جاں ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا
گوپی ناتھ اور ظفر شاہ کے جیسے کردار
کتنی گمنامی میں جی لیتے ہیں، مر جاتے ہیں
کس نے ان انکھوں میں وہ خواب لہکتے دیکھے
جو اس انسانوں کے جنگل میں بکھر جاتے ہیں
کس کا آئنہ ہے موذیل کی اس روح کا عکس
جس میں مریم کے حسیں نقش نکھر جات ہین
اے نئے عصر کی رگ رگ کو سمجھنے والے
فہم و ادراک بدی ہیں تو بدی تری ہے
چند لمہوں کی خدائی ہے روایات کے ساتھ
فن کے آدرش کی روح ابدی تیری ہے
موت صرف سعادت کی ہے منٹو کی نہیں
یہ شب و روز تیرے ہیں یہ صدی تیری ہے
سعادت حسن منٹو کی وفات پر
گھاس سے بچ کے چلو ریت گو گلزار کہو
نرم کلیوں پہ چڑھا دو غم دوراں کے غلاف
خود کو دل تھام کے مرغان گرفتار کہو
رات کو اس کے تبسم سے لپٹ کے سو جائو
صبح اٹھو تو اسے شاہد بازار کہو
ذہن کیا چیز ہے جذبے کی حقیقت کیا ہے
فرش پہ بیٹھ کے تبلیغ کے اشعار کہو
اسی رفتار سے چلتا ہے جہان گدازں
انہی قدموں پہ زمانے کے قدم اٹھتے ہیں
کوئی عینک سے دکھاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں
کوئی کاندھوں پہ اٹھاتا ہے تو ہم اٹھتے ہیں
کسی ایک گوشہ تاریک کے ویرانے میں
کسی جگنو کے چمکنے پہ فغاں ہوتی ہے
کبھی اس مرحمت خاص کا اندازہ نہیں
کبھی دو بوند چھلکنے پہ فغاں ہوتی ہے
کبھی منزل کے تصور سے جگر جلتے ہیں
کبھی صحرا میں بھٹکنے پہ فغاں ہوتی ہے
ہم نے اس چور کو سینوں میں دبا رکھا ہے
ہم اس چور کے خطرے سے پریشاں بھی ہیں
کون سمجھے گا اس سطع خوش آواز کے بعد
اس ٹھرے ہوئے تالاب میں طوفان بھی ہیں
بھائی کی انکھ کے کانٹے پہ نظر ہے سب کی
دیوتا بھی ہیں اس بزم میں انسان بھی ہیں
خط سرطان سے اتی ہے ملر کی اواز
اور امریکہ کے بازاروں میں کھو جاتی ہے
جائس کی فکر نے تعمیر کیا ہے جس کو
وہ زمیں حسرت معمار میں کھو جاتی ہے
کبھی منٹو کا قلم بن کے دہکتی ہے حیات
کبھی سرمائے کی تلوار میں کھو جاتی ہے
ہر پیغمبر پہ ہنسا یہ زمانہ لیکن
ہر پیمبر نے جھکائی ہے زمانے کی جبیں
اپنے ہمعصر سے خائف نہ ہو اے وقت کی آنچ
اسکی مٹی میں ستاروں کا دھواں ہے کہ نہیں
اسی مٹی سے دمکتی ہے یہ دھرتی ورنہ
دردیک ساغر غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں
جسم کے داغ چھپانا تو کوئی بات نہیں
روح کے زخم سلگتے ہیں پس پردہ دل
سرچھپا لیتے ہو تم ریت میں جس کے آگے
اسی طوفان میں گھر جاتے ہیں لاکھوں ساحل
ایک راہی جسے احساس نہ حسرت نہ طلب
اک سفر جس میں منزل نہ سراغ منزل
اپنی سبک ناک سے رمال ہٹاو
کھاد میں محض تعفن نہیں خیز بھی ہے
ذوق درکار ہے قطے کو گہر کرنے میں
یہ مئے ناب پراسر بھی ہے تیز بھی ہے
کچھ تو ہے وجہ دل آزاری و اہنگ وستیز
ورنہ یہ طبع خوش اخلاق و کم آمیز بھی ہے
شہر کی تیرہ و تاریک گزرگاہوں میں
داستاں ہو گی تو منٹو کا قلم لکھے گا
زیست قانون و فرامین قفس کے اگے
بے زباں ہو گی تو منٹو کا قلم لکھے گا
اس شفاخانہ اخلاق میں نشتر کے قریب
رگ جاں ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا
گوپی ناتھ اور ظفر شاہ کے جیسے کردار
کتنی گمنامی میں جی لیتے ہیں، مر جاتے ہیں
کس نے ان انکھوں میں وہ خواب لہکتے دیکھے
جو اس انسانوں کے جنگل میں بکھر جاتے ہیں
کس کا آئنہ ہے موذیل کی اس روح کا عکس
جس میں مریم کے حسیں نقش نکھر جات ہین
اے نئے عصر کی رگ رگ کو سمجھنے والے
فہم و ادراک بدی ہیں تو بدی تری ہے
چند لمہوں کی خدائی ہے روایات کے ساتھ
فن کے آدرش کی روح ابدی تیری ہے
موت صرف سعادت کی ہے منٹو کی نہیں
یہ شب و روز تیرے ہیں یہ صدی تیری ہے
Comment