سلگ رہا ہوں میں دھیرے دھیرے، مگر کسی پر عیاں نہیں ہے
وہ آگ دل میں لگی ہے جس میں، تپش ہے لیکن دھواں نہیں ہے
تمہارے غم نے سکھا دیا ہے مجھے ہر اِک غم سے پیار کرنا
غمِ جہاں بھی ، یقین جانو، مزاجِ دل پر گراں نہیں ہے
خدا کی بستی میں ہر قدم پر، کوئی ہے گریاں کسی کے غم پر
یہ درد تو درد مشترک ہے، یہ آنکھ پرنم کہاں نہیں ہے
متاع عمر عزیز ساری، گنوا چکے پر سفر ہے جاری
عجیب سودا ہے عاشقی کا کہ فکر سود و زیاں نہیں ہے
مری خموشی پہ ہنسنے والو، یہ بھول کر بھی نہ سوچ لینا
کہ میرے پہلو میں دل نہیں ہے کہ میرے مُنہ میں زباں نہیں ہے
غزل کہو اعتبار ساجد اسی تڑپتی ہوئی نوا میں
یہ طرز، یہ دلگداز لہجہ، سماعتوں پر گراں نہیں ہے
Comment