بکھر کے ٹوٹنے والے صدا نہیں کرتے
کوئی بھی کام خلافِ انا نہیں کرتے
شجر پہ بیٹھے ہوئے پنچھیوں سے بات کرو
فضا میں اڑتے پرندے سنا نہیں کرتے
گہر شناس ہیں طوفاں کے ساتھ رہتے ہیں
سمندروں سے عداوت کیا نہیں کرتے
بڑی خموشی سے آ کر زمیں پہ گرتے ہیں
فلک سے ٹوٹتے تارے صدا نہیں کرتے
بس ایک بار ہی قسمت ہم آزماتے ہیں
پھر اس کے بعد کسی سے گلہ نہیں کرتے
بجھا دیئے ہیں سرِ شام آرزو کے چراغ
ہوا کے رخ پہ دیئے تو جلا نہیں کرتے
کوئی بھی کام خلافِ انا نہیں کرتے
شجر پہ بیٹھے ہوئے پنچھیوں سے بات کرو
فضا میں اڑتے پرندے سنا نہیں کرتے
گہر شناس ہیں طوفاں کے ساتھ رہتے ہیں
سمندروں سے عداوت کیا نہیں کرتے
بڑی خموشی سے آ کر زمیں پہ گرتے ہیں
فلک سے ٹوٹتے تارے صدا نہیں کرتے
بس ایک بار ہی قسمت ہم آزماتے ہیں
پھر اس کے بعد کسی سے گلہ نہیں کرتے
بجھا دیئے ہیں سرِ شام آرزو کے چراغ
ہوا کے رخ پہ دیئے تو جلا نہیں کرتے
Comment