اک غزل ہے درد بھری اور اس کی غزال ہوں میں
کب دلدل زیست سے نکلوں سراپا سوال ہوں میں
نہ زیر زبر پیش ہے نہ قافیہ نہ مصرع کا تکلف کہیں
جو پڑھاجا سکے بہت سادہ سا خیال ہوں میں
عمر بھر پڑ تا رھا سابقہ رنج و الم،درد و کرب کے ادوار سے
جو گذرگیا تھا مختصر،جو ٹہر گئے وہ ماہ و سال ہوں میں
وہ کون خوش نصیب لوگ تھے جو عروج زمانوں کا ناز تھے
فنائے وقت کی گردش ،ڈوبتا سورج ,وقت زوال ہوں میں
میری روح ہے معصوم سی، دل فنکاری میں ہے بادشاہ
میں آپ میں باوصف ہوں، ہر ہنر میں با کمال ہوںمیں
Comment