وہ دل آور جو سیاہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے
سب کے ہونٹوں پہ میرے بعد ہیں باتیں میری
میرے دشمن میرے لفظوں کے بھکاری نکلے
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کے کسی فاتح کی سواری نکلے
بہتے اشکوں سے شعاؤں کی سبیلیں نکلیں
چبھتے زخموں سے فن نقش و نگاری نکلے
ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے
عکس کوئی ہو خد و خال تمھارے دیکھوں
بزم کوئی ہو پر بات تمھاری نکلے
اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسن
میرے قاتل تو میرے اپنے حواری نکلے
Comment