وقتِ سفر قریب ہے
وقتِ سفر قریب ہے بِستر سمیٹ لُوں
بِکھرا ہُوا حیات کا دفتر سمیٹ لُوں
پھر جانے ہم ملیں نہ ملیں اک ذرا رُکو
میں دل کے آئینے میں یہ منظر سمیٹ لُوں
غیروں نے جو سُلوک کئے اُن کا کیا گِلہ
پھینکے ہیں دوستوں نے جو پتھر سمیٹ لُوں
کل جانے کیسے ہونگے کہاں ہونگے گھر کے لوگ
آنکھوں میں ایک بار بھرا گھر سمیٹ لُوں
سیلِ نظر بھی غم کی تمازت سے خُشک ہو
وہ پیاس ہے ملے جو سمندر سمیٹ لُوں
اجمل بھڑک رہی ہے زمانے میں جتنی آگ
جی چاہتا ہے سینے کے اندر سمیٹ لُوں
Comment