کچھ مفلسی میں چل دیئے
کچھ مفلسی میں چل دیئے، کردار بیچنے
آئے ہیں ہم بھی درد کے مینار بیچنے
کل تک جو اُن کا"مان"تھا، غربت نگل گئی
بازارِ شب میں آئے وُہ ، دستار بیچنے
کل برسرِ پیکار تھے جو قوم کےلئے
منڈی میں آگئے ہیں وہ تلوار بیچنے
غاصب نے جال روٹی کا پھیلایا اس طرح
عِصمت کو لے کے چل دیا خوددار بیچنے
ناصر تھے میرے دین کےکل تک جو شہر میں
بیٹھے ہیں وہ بازار میں ، اوتار بیچنے
__________________
Comment