ترا چہرہ دیکھے
جس سے تُو بات کرے جو ترا چہرہ دیکھے
پھر اُسے شہر نظر آئے نہ صحرا دیکھے
روشنی وہ ہے کہ آنکھیں نہیں کُھلنے پاتیں
اب تو شاید ہی کوئی ہو جو اُجالا دیکھے
اس بھرے شہر میں کس کس سے کہوں حال اپنا
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا دیکھے
چھوڑنے میں نہیں جاتا اُسے دروازے تک
لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اُسے جاتا دیکھے
مُنہ چُھپانے کا بھی موقع نہ میسر آئے
اہلِ دُنیا کی وہ ذلت ہو کہ دُنیا دیکھے
سائے کی طرح مرے ساتھ ہے دُنیا شہزاد
کیسے مُمکن ہے کہ کوئی مُجھے تنہا دیکھے
Comment