میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
اسے خبر ھی نہ تھی خاک کیمیا تھی مری
اسے خبر ھی نہ تھی خاک کیمیا تھی مری
میں چپ ھوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ھوئی
پھر اس کے بعد تو آواز جابجا تھی مری
پھر اس کے بعد تو آواز جابجا تھی مری
جو طعنہ زن تھا مری پوشش دریدہ پر
اسی کے دوش رکھی ھوئی قبا تھی مری
اسی کے دوش رکھی ھوئی قبا تھی مری
میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں
میں اس کو بھول گیا ھوں یہی سزا تھی مری
میں اس کو بھول گیا ھوں یہی سزا تھی مری
شکست دے گیا اپنا غرور ھی اس کو
وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی مری
وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی مری
کہیں دماغ کہیں دل کہیں بدن ھی بدن
ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی مری
ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی مری
کوئی بھی کوئے محبت سے پھر نہیں گزرا
تو شہر عشق میں کیا آخری صدا تھی مری
تو شہر عشق میں کیا آخری صدا تھی مری
جو اب گھمنڈ سے سر کو اٹھائے پھرتا ھے
اسی طرح کی تو مخلوق خاک پا تھی مری
اسی طرح کی تو مخلوق خاک پا تھی مری
ہر اک شعر نہ تھا درخور قصیدہ دوست
اور اس سے طبع رواں خوب آشنا تھی مری
اور اس سے طبع رواں خوب آشنا تھی مری
میں اسکو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فراز
یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری
یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری
Comment