Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Jahanzaad***Samina Raja

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Jahanzaad***Samina Raja


    جہاں زاد




    '' جہاں زاد

    نیچے گلی میں ترے در کے آگے

    یہ میں سوختہ سَر

    حَسن کوزہ گر ہوں ''



    جہاں زاد

    الفت کی ماری، محل سے اتر، پا پیادہ

    عَقب میں حسن کوزہ گر کے چلی

    ''واہموں کے گِل و لا کی جانب

    کہ خوابوں کے سّیال کوزوں کی جانب''

    کہ جن کی چمک سے وہ نیندوں میں بھی مضطرب تھی



    حَسن کوزہ گر اُس کو لایا تو بولا:

    جہاں زاد! اب تجھ کو رہنا ہے یاں

    میری خدمت میں ہر وقت حاضر

    کہ گویا تو ہے اب '' گِل و رنگ و روغن کی مخلوق ِبے جاں''



    حَسن کوزہ گر میرے پیارے! کہاں ہے ترا چاک

    اور تیرے سارے ''گل و لا کے خوابوں کے سیّال کوزے

    وہ کوزے ترے دست ِچابک کے پُتلے ''

    کہ میں جن کی رنگت سے، خوشبو سے

    نیندوں میں بھی مضطرب تھی؟



    حَسن کوزہ گر نے ہٹایا نقاب اور اتارا لبادہ حَسن کوزہ گر کا

    جہاں زاد دہشت سے چیخی

    وہ جب ہوش میں آئی، اپنے تئیں اُس نے زنداں میں پایا

    جہاں زاد اب ''پا بہ گِل، خاک بر سر، پریشان، ژولیدہ مو، سربہ زانو''

    تو بارہ برس پھر جہاں زاد خدمت میں حاضر رہی تھی

    جہاں زاد انساں تھی لیکن وہ بارہ برس

    'غم کے قالب ' میں گزرے تھے

    اور ''قاف کی سی افق تاب آنکھوں میں '' اشکوں کا سیل* ِرواں تھا

    وہ آہیں، وہ نالے، وہ زنداں سے باہر نکلنے کی خواہش

    ''گِل و لا کے سّیال کوزوں کی حسرت،



    حَسن کوزہ گر تنگ آیا:

    اٹھا اپنی آہیں، اٹھا اپنے نالے، تمنّا کی وسعت، نکل جا چلی جا:


    حَسن کوزہ گر! اے حَسن کوزہ گر! اے مری جاں!

    یہ بارہ برس مجھ پہ اِس طرح گزرے

    ''کہ جیسے کسی شہر ِمدفون پر وقت گزرے ''

    میں بارہ برس اور خدمت میں حاضر رہوں گی

    اگر صرف اک بار مجھ کو دِکھا دے

    "صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں

    وہ اظہار ِفن کے سہارے '' کہ میں جن کی چاہت میں

    محلوں سے اتری تھی اور تیرے پیچھے چلی پا پیادہ،



    نکل بے وفا! تجھ کو مجھ سے ہیں پیارے

    وہ مہجور کوزے، وہ سوکھے تغار اور پیالے؟

    وہ جن سے مرا دور کا بھی تعلق نہیں ہے

    فضول اور بیکار لوگوں کا فن،



    تب جہاں زاد چونکی

    اتارے سلاسل اور اسباب باندھا

    اٹھایا نقاب اورلبادہ حسن کوزہ گر کا

    اسے چوم کر سر پہ رکھا


    حَسن کوزہ گر دُزد کے بھیس میں اب بڑھا

    اور چُرائے یقین اور بھروسا اور انگشتری

    سارے اسباب میں بس یہی قیمتی تھا، جو چوری ہوا!


    تو بولا حسن کوزہ گر اب:

    اٹھا اپنی خدمت، محبت، وفا، ساری بیکار چیزیں

    مگر چھوڑ جا میرا اسباب، میرے ظروف اور صندوق

    میرے زرو سیم اور پارچہ جات اور کفش ِرنگیں

    چلی جا مگر چھوڑ جا میری چیزیں،


    سو رخصت ہوئی

    اور جہاں زاد اب جس محلے میں جا کر بسی

    واں چھپا کر رکھے

    اپنا نام و نسب، اپنی ناموس اور دل کے ٹکڑے،

    حسن کوزہ گر ایک دن

    حاکم ِشہر کے بھیس میں اس محلے میں آیا:

    کہاں ہیں ترے دل کے ٹکڑے، ادھر پیش کر

    یا ادھر لے کر آ اپنا نام و نسب اور ناموس

    اور تیسرا راستہ بس یہی ہے

    کہ چل اور کر پھر سے بارہ برس میری خدمت،


    جہاں زاد روئی: حَسن کوزہ گر! دیکھ یہ میں ہوں، تیری جہاں زاد!

    میں تیری خاطر محل سےاتر پا پیادہ چلی آئی

    بارہ برس تیری خدمت میں حاضر رہی

    میں شب و روز، ہر پَل، ترے سامنے آئنہ تھی

    مرے پاس محفوظ ہے اب تلک

    وہ حسن کوزہ گر کا نقاب اور لبادہ

    تو دونوں لبادے ( یہی دزد اور حاکم ِشہر کے

    گر تلف کر دے تو میں تجھے دوں لبادہ حسن کوزہ گر کا

    کہ تو لَوٹ کر جا سکے'' اپنے مہجور کوزوں

    گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب

    معیشت کے، اظہار ِ فن کے وسیلوں کی جانب،



    مگر شہر والوں کو اب کے حَسن کوزہ گر نے پکارا:

    اسے دیکھو، یہ فاحشہ ہے

    میں اب اِس سے چھینوں گا

    نام و نسب اور ناموس اور دل کے ٹکڑے،

    یہ محلوں سے اتری، مرے پیچھے آئی، مگر اس سے پہلے

    ہزاروں کو اس نے دریچے سے تاکا

    مگر مجھ سا سادہ کوئی اور کب تھا

    مجھے بوڑھے عطار یوسف کی دکاّن پر آخر ِکار پھانسا!

    بھلا کون ہے یہ لبیب،

    کہ جو ہاتھ میں پھول، آنکھوں میں آنسو لیے راستے میں کھڑا ہے؟

    تو کیا اب مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس کو برباد کر دوں؟



    تو پھر جوق در جوق بازار میں لوگ آئے

    سبھی ہاں میں ہاں پھر حسن کوزہ گر کی ملانے لگے،

    تب جہاں زاد اٹھی، سبھی دل کے ٹکڑے کیے جمع

    قدموں میں رکھے حسن کوزہ گر کے

    وہیں ساتھ رکھا نقاب اور لبادہ حسن کوزہ گر کا

    فقط اپنا نام و نسب اور ناموس بقچی میں ڈالے

    بغل میں* دبائے، اندھیرے میں دزدانہ نکلی

    وہ بچ کر لبیب اور حسن کوزہ گر سے

    ''تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے ''

    مگر ۔۔۔۔
    Last edited by Hadijo; 11 July 2010, 16:23.

  • #2
    Re: Jahanzaad***Samina Raja

    buhat umdah............

    Comment

    Working...
    X