Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Mere Diary se Intikhaab

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Mere Diary se Intikhaab

    Asslam-o-Alycum Friends !

    I will share my favorit poetry here in this thread

  • #2
    Re: Mere Diary se Intikhaab

    جو اپنی عمر سے آگے نکل رہی ہو تم
    تمہیں خبر ہے جوانی میں ڈھل رہی ہو تم
    کبھی تمہیں بھی دعویٰ تھا سرد مہری کا
    کسی کے لمس کو پا کر پگھل رہی ہو تم
    بتاﺅ کیوں نہیں روکا تھا جانے والے کو
    اب ایک عمر سے کیوں ہاتھ مل رہی ہو تم
    جو والدین نے تم سے کہا وہ مان لیا
    اب اپنی آگ سے چُپ چاپ جل رہی ہو تم
    ہمارے دل کا کھلونا تمہی نے توڑا تھا
    اب اِ س کھلونے کی خاطر مچل رہی ہو تم
    تمہیں گماں ہے کہ میں جانتا نہیں کچھ بھی
    مجھے خبر ہے کہ رستہ بدل رہی ہو تم

    وصی شاہ

    Comment


    • #3
      Re: Mere Diary se Intikhaab

      کون کہتا ہے، شرارت سے تمہیں دیکھتے ہیں
      جانِ من ہم تو محبت سے تمہیں دیکھتے ہیں
      تم کو معلوم نہیں تم ہو مقدس کتنے
      دیکھتے ہیں تو عقیدت سے تمہیں دیکھتے ہیں
      دیکھ کے تم کو کسی اور کی یاد آتی ہے
      ہم کسی اور ہی نسبت سے تمہیں دیکھتے ہیں
      ساتھ غیروں کے نظر آﺅ تو جی کُڑھتا ہے
      کیا کہیں کیسی اذیت سے تمہیں دیکھتے ہیں
      جھونکنی پڑتی ہے، یہ جان عذابوں میں ہمیں
      کون کہتا ہے کہ سہولت سے تمہیں دیکھتے ہیں
      جانے کیا لکھتے ہو کیا سوچتے رہتے ہو وصی
      رات کو جب بھی کبھی چھت سے تمہیں دیکھتے ہیں

      وصی شاہ

      Comment


      • #4
        Re: Mere Diary se Intikhaab

        میرے سورج
        تری زمیں ہوں میں
        کوئی موسم ہو تیرے گرد مجھے
        گھومنا ہے
        مرا تو کام ہی تیرا طواف کرنا ہے

        وصی شاہ

        Comment


        • #5
          Re: Mere Diary se Intikhaab

          خواب کی مسافت سے
          وصل کی تمازت سے
          روز و شب ریاضت سے
          کیا ملا محبت سے
          ایک ہجر کا صحرا
          ایک شام یادوں کی
          اِک تھکا ہوا آنسو

          نوشی گیلانی

          Comment


          • #6
            Re: Mere Diary se Intikhaab

            کبھی ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں

            کبھی ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں
            کبھی برسوں نہیں ملتے کسی ہلکی سی رنجش میں

            تمہی میں دیوتاؤں کی کوئی خُو بُو نہ تھی ورنہ
            کمی کوئی نہیں تھی میرے اندازِ پرستش میں

            یہ سوچ لو پھر اور بھی تنہا نہ ہو جانا
            اُسے چھونے کی خواہش میں اُسے پانے کی خواہش میں

            بہت سے زخم ہیں دل میں مگر اِک زخم ایسا ہے
            جو جل اُٹھتا ہے راتوں میں جو لَو دیتا ہے بارش میں


            نوشی گیلانی

            Comment


            • #7
              Re: Mere Diary se Intikhaab

              ہوا کو آوارہ کہنے والو
              کبھی تو سوچو،کبھی تو لکھو
              ہوائیں کیوں اپنی منزلوں سے بھٹک گئی ہیں
              نہ ان کی آنکھوں میں خواب کوئی
              نہ خواب میں انتظار کوئی
              اب ان کے سارے سفر میں صبح ِ یقین کوئی،
              نہ شام ِ صد اعتبار کوئی،
              نہ انکی اپنی زمین کوئی،نہ آسماں پر کوئی ستارہ
              نہ کوئی موسم ،نہ کوئی خوشبو کا استعارہ
              نہ روشنی کی لکیر کوئی،نہ ان کا اپنا سفیر کوئی
              جو انکے دکھ پر کتاب لکھے
              مُسافرت کا عذاب لکھے
              ہوا کو آوارہ کہنے والو
              کبھی تو سوچو


              نوشی گیلانی

              Comment


              • #8
                Re: Mere Diary se Intikhaab

                ہم نے سوچ رکھا ہے
                چاہے دل کی ہر خواہش
                زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے
                بہہ جائے
                چاہے اب مکینوں پر
                گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جائیں
                اور بے مقدر ہم
                اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں
                تم سے کچھ نہیں کہنا
                کیسی نیند تھی اپنی،کیسے خواب تھے اپنے
                اور اب گلابوں پر
                نیند والی آنکھوں پر
                نرم خو سے خوابوں پر
                کیوں عذاب ٹوٹے ہیں
                تم سے کچھ نہیں کہنا
                گھر گئے ہیں راتوں میں
                بے لباس باتوں میں
                اس طرح کی راتوں میں
                کب چراغ جلتے ہیں،کب عذاب ٹلتے ہیں
                اب تو ان عذابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں!
                جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں!
                ہم نے سوچ رکھا ہے
                تم سے کچھ نہیں کہنا

                نوشی گیلانی

                Comment


                • #9
                  Re: Mere Diary se Intikhaab

                  اب کس کا جشن مناتے ہو
                  اس دیس کا جو تقسیم ہوا
                  اب کس کا گیت سناتے ہو
                  اس تن من کا جو دونیم ہوا

                  اس خواب کا جو ریزہ ریزہ
                  ان آنکھوں کی تقدیر ہوا
                  اس نام کا جو ٹکرے ٹکرے
                  گلیوں میں بے توقیر ہوا

                  اس پرچم کا جس کی حرمت
                  بازاروں میں نیلام ہویی
                  اس مٹی کا جس کی حرمت
                  منسوب عدو کے نام ہویی

                  اس جنگ کا جو تم ہارچکے
                  اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
                  اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا
                  اس جان کا جو واری بھی نہیں

                  اس خون کا جو بدقسمت تھا
                  راہوں میں بہایا تن میں رہا
                  اس پھول کا جو بے قیمت تھا
                  آنگھن میں کھلایا بن میں رہا

                  اس مشرق کا جس کا تم نے
                  نیزے کی انی مرہم سمجھا
                  اس مغرب کا جس کو تم نے
                  جتنا بھی لوٹا کم سمجھا

                  ان معصوموں کا جس کی لہو
                  سے تم نے فروزاں راتیں کی
                  یا ان مظلوموں کا جن سے
                  خنجر کی زباں میں باتیں کی

                  اس مریم کا جس کی عفت
                  لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
                  اس عیسا کا جو قاتل ہے
                  اور شامل ہے غم خواروں میں

                  ان نوخہ گروں کا جن نے ہمیں
                  خود قتل کیا خود روتے ہیں
                  ایسے بھی کہی دم ساز ہویے
                  ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں

                  ان بھوکے ننگھے ڈانچوں کا
                  جو رقص سر بازار کریں
                  یا ان ظالم قزاقوں کا
                  جو بھیس بدل کر وار کرے

                  یا ان جھوٹے اقراروں کا
                  جو آج تلک ایفا نہ ہویے
                  یا ان بے بس لاچاورں کا
                  جو اور بھی دکھھ کو نشانہ ہویے

                  اس شاہی کا جو دست بدست
                  آیی ہے تمھارے حصے میں
                  کیوں ننگ وطن کی بات کرو
                  کیا رکھا ہے اس قصے میں

                  آنکھوں میں چپھایے اشکوں کو
                  ہونٹوں پہ وفا کے بول لیے
                  اس جشن میں شامل ہوں میں بھی
                  نوخوں سے بھرا کشکول لیے۔

                  Comment


                  • #10
                    Re: Mere Diary se Intikhaab

                    شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ھوئی
                    لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ھوں میں

                    اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے
                    پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رھا ھوں میں

                    اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا
                    ذروں کو آفتاب بناتا رھا ھوں میں

                    کیا مل گیا ضمیر ھنر بیچ کر مجھے
                    اتنا کہ صرف کام چلاتا رھا ھوں میں

                    کل دوپہر عجیب سی اک بےدلی رھی
                    بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رھا ھوں میں

                    Comment


                    • #11
                      Re: Mere Diary se Intikhaab

                      میر ے ھمسفر،میر ے چارہ گر

                      یہ مسافتیں،یہ کٹھن سفر ۔ ۔

                      یہ ازل سے ھیں میری ھمسفر

                      میر ے ساتھ چلنے کے شوق میں،کھیں تھک نہ جائیں تیر ے قدم

                      میر ے ھمسفر،میر ے چارہ گر

                      کبھی منزلیں میرا خواب تھیں ۔ ۔

                      جو ملیں تو صرف سراب تھیں، رگ جان و دل کا عذاب تھیں

                      میر ے ھمسفر،میر ے چارہ گر

                      تیری سادگی،تیری چاھتیں ۔ ۔

                      میرا مان ھیں،میرا ناز ھیں،مجھے جاں سے بڑھ کے عزیزھیں

                      تیرا سنگ ھوتا جو بخت میں

                      تو یہ راہ باغ و بہار تھی ۔ ۔ ۔

                      مگر اس سفر کی تپشّ میں

                      کوئی سایہ دار شجر نھیں ۔ ۔

                      جہاں رک کے تھوڑی سی دیر ھم،یہ تھکن یہ گرد اتار لیں

                      میر ے ھمسفر،میر ے چارہ گر

                      میر ے اس سفر کی دھوپ میں

                      میرے ساتھ جھلسیں تیرے قدم،یہ کبھی گوارا نھیں مجھے

                      یہ ھجر ھی اپنا نصیب ھے ۔ ۔ ۔

                      مگرمیر ے ھمسفر،میر ے چارہ گر

                      تیری زندگی کی مجھے قسم

                      کہ یہ تشنگی کے سفر میں اب ، تیری یاد ھوگی قدم قدم

                      تیر ے لفظ ھیں میرا حو صلہ ، تیر ے شعر ھیں میر ے راہ بر

                      میر ے ھمسفر،میر ے چارہ گر

                      Comment


                      • #12
                        Re: Mere Diary se Intikhaab

                        Comment


                        • #13
                          Re: Mere Diary se Intikhaab

                          دل پہ اک طرفہ قیامت کرنا
                          مسکراتے ہوئے رخصت کرنا

                          اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اسکو
                          کچھ تو لازم ہوا وحشت کرنا

                          جرم کس کا تھا،سزا کس کو ملی
                          کیا گئی بات پہ حجت کرنا

                          کون چاہے گا تمہیں میری طرح
                          اب کسی سے نہ محبت کرنا

                          گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
                          وقت مل جائے تو زخمت کرنا
                          (پروین شاکر)

                          Comment


                          • #14
                            Re: Mere Diary se Intikhaab

                            ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو
                            کبھی تو رنگ مری ہاتھ کا حنائی ہو

                            کوئی تو ہو جو مرے تن کو روشنی بیھجے
                            کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو

                            گلابی پائوں مرے چمپئی بنانے کو
                            کسی نے صحن میں مہندی کا باڑھ اگائی ہیو

                            کبھی تو ہو مرے کمرے میں ایسا منظر
                            بہار دیکھ کے کھڑکی مسکرائی ہو

                            وہ سوتے جاگتے رہنے کا موسموں کا فسوں
                            یہ نیند میں ہوں مگر نیند بھی نہ آئی ہو

                            Comment


                            • #15
                              Re: Mere Diary se Intikhaab

                              ہجر کی شب کا کسی اسم سے کٹنا مشکل
                              چاند پورا ہے تو پھر درد کا گھٹنا مشکل

                              موجہ خواب ہے وہ ،اس کے ٹھکانے معلوم
                              اب گیا ہے تو یہ سمجھو کہ پلٹنا مشکل

                              جن درختوں کی جڑیں دل میں اتر جاتی ہیں
                              ان کا آندھی کی درانتی سے بھی کٹنا مشکل

                              قوت غم ہے جو اس طرح سنبھالے ہے مجھے
                              ورنہ بکھروں کسی لمحے تو سمٹنا مشکل

                              اس سے ملتے ہوئے چہرے بھی بہت ہونے لگے
                              شہر کے شہر سے اک ساتھ نمٹنا مشکل

                              اب کے بھی خوشوں پہ کچھ نام تھے پہلے سے لکھے
                              اب کے بھی فصل کا دہقانوں میں بٹنا مشکل
                              (پروین شاکر)

                              Comment

                              Working...
                              X