یہ کیسی رات ہے آنکھوں میں آنسو آئے جاتے ہیں
فلک پہ جتنے تارے ہیں سبھی کجلائے جاتے ہیں
فلک پہ جتنے تارے ہیں سبھی کجلائے جاتے ہیں
ہمارے دل میں پہلے تشنگی بھڑکائی جاتی ہے
پھر اسکے بعد اک اک بوند کو ترسائے جاتے ہیں
بہت لوگوں کو شکوہ ہے کہ تنہائی نہیں ملتی
ہمیں دیکھو ہم اپنے آپ سے اکتائے جاتے ہیں
یہ بازار تمنا ہے انوکھی وضع ہے اس کی
یہاں چہرے نہیں بس آئینے چمکائے جاتے ہیں
تم اہل دل نہیں ہو زہر کی لذت کو کیا جانو
محبت سے گلے میں سانپ بھی لٹکائے جاتے ہیں
یہ تونے کیا کیا اے دل کہ چپ سادھ لی تونے
یہ عالم ہو تو دیواروں سے سر ٹکرائے جاتے ہیں
Comment