رفتہ رفتہ زندگی کے حادثے بڑھتے گئے
قربتوں کی اوٹ سے جب فاصلے بڑھتے گئے
پہلے کب تھا شہر میں پینے پلانے کا رواج
غم زیادہ ہو گئے تو میکدے بڑھتے گئے
ٹھہرے پانی میں یہ پتھر کس طرف سے آ گیا
ہرطرف بے چین سے کچھ دائرے بڑھتے گئے
دردِ دل نے اور ہم کو پرکشش سا کر دیا
اس گلی سے اس گلی تک رابطے بڑھتے گئے
راہ میں بیٹھا تھا میں اہلِ وفا کی دید کو
لوگ کچھ گزرے مگر گھبرائے سے بڑھتے گئے
قربتوں کی اوٹ سے جب فاصلے بڑھتے گئے
پہلے کب تھا شہر میں پینے پلانے کا رواج
غم زیادہ ہو گئے تو میکدے بڑھتے گئے
ٹھہرے پانی میں یہ پتھر کس طرف سے آ گیا
ہرطرف بے چین سے کچھ دائرے بڑھتے گئے
دردِ دل نے اور ہم کو پرکشش سا کر دیا
اس گلی سے اس گلی تک رابطے بڑھتے گئے
راہ میں بیٹھا تھا میں اہلِ وفا کی دید کو
لوگ کچھ گزرے مگر گھبرائے سے بڑھتے گئے
Comment