اک خط کے جواب میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں لکھا تھا
خزاں مجھ میں چاہو گے تم دیکھنا
یا کہ فصل بہار
کوئی فیصلہ ہو مگر جلد ہو تو اچھا ہے
ذرا سوچو کہ کون چاہتا ہے
خزاں کی ظالم ہوائیں
اس کا دامن زرد پتوں سے بھر جائیں
کون چاہتا ہے کہ اس کے آنگن میں کھلنے والے پھول
خزاں کی عذاب رتوں میں پتی پتی بکھر جائیں
یقینا کوئی نہیں چاہتا
میں تو چاہتا ہوں
کہ تمارے آنگن میں بہاریں سدا بھول کھلائیں۔
بلبلیں چہچہائیں
گلاب کے رنگ برنگے پھول
تمہارے آنچل کو مہکائیں
اگر کبھی
بہاریں اپنی انا کی خاطر
تم سے روٹھ جائیں
اور واپسی کیلئے۔۔۔ کوئی قربانی چاہیں۔
تو میرا سر لے جا کر۔۔۔ ان کے قدموں میں رکھ دینا
اور کہنا
کہ یہ بھی تمھاری طرح بڑا اناء پرست تھا
وہ میرا حال دیکھیں گی تو خود ہی لوٹ آئیں گی
سنو
اگر کبھی تم کو ضرورت ہو
پودوں کو سیراب کرنے کی
تو میرا لہو لےجانا
یہ تمھاری امانت ہے۔۔۔۔۔!
Comment