چاہا تو بہت تھا یہاں، پر نہیں بدلا
تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا
خوف آتا ہے امید ہی راستہ نہ بدل لے
جب اتنی تباہی پہ بھی گھر نہیں بدلا
ممکن ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہو
اب تک تو میری راہ کا پتھر نہیں بدلا
تاریخ تمہاری بھی گواہی کبھی دیتی
نیزہ ہی بدل جاتا، اگر سَر نہیں بدلا
کیسے تیرے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تک
دریاؤں کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلا
Comment