حق بات کیا نکل گئی میری زبان سے
مجھ سے تمام لوگ ہوئے بدگمان سے
پہنائیوں میں اس کی بلندی چھپی ملی
بہتر لگی زمین مجھے آسمان سے
سائےمیںمحوِ خواب مسافر کو کیا خبر
پوچھو تمازتوں کا اثر سائبان سے
بچے کبھی نہ میری کتابوں سے کھیلتے
گر میں خرید سکتا کھلونے دکان سے
وندھا پڑا ملا ہے چراغوں کا قافلہا
چھوڑے ہیں کس نےتیرہوا کی کمان سے
بے نام پانیوں کی طرف تیرتے ہوئے
ٹکرا گیا ہوں تیرے بدن کی چٹان سے
اپنی زمین چھوڑ کے جانے لگا تھا میں
لڑنے لگیں ہوائیں مگر بادبان سے
سڑکوں پہ پھر رہی ہے اجل ڈھونڈتی ہوئی
زیدی میں پھر نکلنے لگا ہوں مکان سے
Comment