وہ شخص کتنا سدھر گیا ہے
کہ دل سے میرے اتر گیا ہے
تھا اک تعلق عذاب سا جو
وہ ٹوٹ کر اب سنور گیا ہے
کہ دل سے میرے اتر گیا ہے
تھا اک تعلق عذاب سا جو
وہ ٹوٹ کر اب سنور گیا ہے
جو ساتھ رہ کر بجھا بجھا تھا
بچھڑ کے کتنا نکھر گیا ہے
بچھڑ کے کتنا نکھر گیا ہے
سکوں ہے اب جو نہ یہ خبر ہے
اِدھر گیا یا اُدھر گیا ہے
اِدھر گیا یا اُدھر گیا ہے
جو کوچہ کوچہ بھٹک رہا تھا
وہ آج اپنے ہی گھر گیا ہے
وہ آج اپنے ہی گھر گیا ہے
سرہانے رکھ کے تھا میں تو سویا
یہ ڈر نہ جانے کدھر گیا ہے
یہ ڈر نہ جانے کدھر گیا ہے
وہ وہم جس پہ میں مر مٹا تھا
میں جی اٹھا تو وہ مر گیا ہے
میں جی اٹھا تو وہ مر گیا ہے
نہ ڈھونڈ اُس کو تو اِس کنارے
جو پار کب کا اتر گیا ہے
جو پار کب کا اتر گیا ہے
میں راہ سے وقت پہ ہٹا ہوں
سو وقت گزرا، گزر گیا ہے
سو وقت گزرا، گزر گیا ہے
ہے خوش نصیبی کمال ابرک
کہ رائیگاں یہ سفر گیا ہے
کہ رائیگاں یہ سفر گیا ہے
Comment