مجھے بھیک میں میرا یار دے
مرے ہرکاب ہیں وحشتیں، میری و حشتوں کو قرار دے
مجھے مہر وماہ سے غرض کیا، مجھے بھیک میں میرا یار دے
کئی دن سے دل یہ دکھا نہیں، کوئی شعر میں نے کہا نہیں
مرے حال پہ بھی نگاہ کر، کسی کیفیت سے گزار دے
میں ہزار بجھتا دیا رہوں، سر دشت میں بھی جلا رہوں
مری شاخ غم کو نہال کر، نئی کونپلوں کو بہار دے
کئی دن سے کوچہ ذات میں کسی دشت غم کا پڑاؤ نہیں
کوئی شام مجھ میں قیام کر مرے رنگ روپ کو نکھار دے
میں شکست ذات کی حد میں ہوں، کسی سرد رات کی ذد میں ہوں
مجھے امتحاں سے گزار دے، کوئی مہر مجھ میں اتار دے
تیری راہ گزر میں ہوں خیمہ ذن، ہے بدن پہ ہجر کا پیر ہن
جو گزر گئی سو گزر گئی میری باقی عمر سنوار دے
جہاں عرش و فرش ہیں باادب، اسی در پہ جا کہ سوال کر
وہی نور بخشے ہے خاک کو، وہی آئینے کو غبار دے
Comment