مری سنگت میں مت بیٹھو
میں تنہائی پہنتا ہوں
اداسی کے اجاڑ آنگن میں چُنتا ہوں, کٹھن محرومیوں کے زرد پتوں کو
مری آنکھوں میں جگراتے بھرے ایک مدت سے
مرے ہونٹوں پہ چسپاں ہیں چٹختی ہچکیاں
چہرے پہ کھلتی کھیلتی دکھتی خراشیں ہیں
میں اپنی ذات میں اجڑے ہوئے گاوں کا میلہ ہوں
مرے یارو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
تمہارے ساتھ رہ کر بھی اکیلا ہوں
مری سنگت میں مت بیٹھو
تمہیں تو خود سنورنا ہے
تمہاری خواہشوں کے بام و در پہ روشنی کے پھول کھلنا ہیں
تمہیں لکھنا ہے اپنی سانس کی گرمی سے نیندوں کا سفر نامہ
مری سنگت میں مت بیٹھو
کہ میں پتھر کا مجس ہوں
کہ میں محرومیوں کے شہر کا باسی
مری قسمت اُداسی کم لباسی، ناشناسی ہے
مری سنگت میں مت بیٹھو
مجھے ملنے سے کتراوٴ
خود اپنے دل کو سمجھاوٴ
مرے نزدیک مت آوٴ
مرے دل میں اندھیرا ہے
اندھیرا صرف میرا ہے۔۔۔!!
Comment