Assalam-o-Alaikum
Nazer
Ye ek aisa issue hey jis se shayed hum sub hi waqif hai'n khas ker wo khawateen-o-hazrat jo rozana talash-e-maash k silsiley mai'n apney gharoo'n se bahir nikaltey hai'n tu is hawaley se jo kuch mai'n daikhta hoo'n,sunta hoo'n aur mehsos kerta hoo'n usey aap logoo'n tek ponhchaney ki koshish ki hey shayed pasand aaye
نظر
نظر کا براہ راست تعلق آنکھہ کے ساتھہ ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں اتنے بڑے بڑے فنکار بھی پڑے ہیں جو دل و دماغ سے بھی دیکھہ لیتے ہیں نظر کو اچھی اور بری سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہ شفقت کی بھی ہوتی ہے اور محبت کی بھی کبھی کبھی یہ لگ بھی جاتی ہے تو کبھی کھا بھی جاتی ہے مختصر یہ کہ اس قسم کی باتیں نظر کے حوالے سے سننے میں آتی رہتی ہیں اسکا استعمال بھی مختلف طرحہ سے ہوتا کچھ اسے براہ راست استعمال کرتے ہیں تو کچھ ترچھی کچھ جھجک کے ساتھ استعمال کرتے ہیں تو کچھ چوری چوری
لیکن
میں آج یہاں جس نظر کا ذکر کر رہا ہوں وہ ہے بد نظر اسکا تعلق آنکھہ سے نہیں دیکھنے والے سے ہوتا ہے جس کے پیچھے بری سوچ اور نیت کارفرما ہوتی ہے اور خواتین اسکا شکار ہوتی ہیں اور روزانہ ہوتی ہیں اور کسی کو اس کا احساس یا خیال تک نہیں ہوتا کوئی اس کرب، تکلیف اور دکھ کو نہ ہی محسوس کرتا ہے اور نہ ہی کرسکتا ہے جس سے یہ خواتین روزانہ گزرتی ہیں روزانہ جھلتی ہیں ان بری نظروں اور بد نظروں کو خاص کر وہ خواتین جو اپنی مجبوریوں کی بنا پر تلاش معاش کی وجہہ سے گھر سے باہر قدم نکالنے پر مجبور ہوتی ہیں اور شرم کا مقام ہے اسکول کالجز کی بچیاں تک اس بد نظری سے محفوظ نہیں ہر گلی ہر کونے ہر بس اسٹاپ پر بسوں میں سڑک پر گزرتے ہوے یہاں تک کہ آفسز تک میں غرض ہر طرف وہ لوگ موجود ہیں جو اس قبیح جرم میں مشغول ہوتے ہیں اس میں اچھی بری فیملی یا کسی کے تعلم یافتہ ہونے نا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس میں سب ہی شامل ہوتے ہیں میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں کیا جب وہ کسی اور کی بہن بیٹی پر بری نظر ڈالتے ہیں تو اپنی بہن بیٹیاں یاد نہیں آتیں کیوں کسی لڑکی یا خاتون کو دیکھ کر نظر جھک نہیں جاتی کیا اگر ہمارا ان سے کوئی رشتہ یا تعلق نہیں تو وہ احترام کے قابل نہیں ایک شاعر کا شعر نظر سے گزرا لیکن لگتا ہے کہ شاید ہم اتنا گر گئے ہیں کہ اب ہمیں کوئی بھی بات اثر نہیں کرتیی
بد نظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب
اپنی بیٹی کا خیال آیا تو دل کانپ گیا
مگر دل تو جب کانپے گا نا جب اپنی بیٹی کا خیال آے گا جب دوسرے کی بیٹی کو اپنی بیٹی اور دوسرے کی بہن کو اپنی بہن سمجھیں گے اور اس سب کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ناصرف بدنظری کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں باتیں بھی کرتے ہیں جو کوئی اتنی خوش کن اور اچھی نہیں ہوتیں جنکا میں یہاں ذکر کروں نا جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ الله پاک نے فرمایا ہے،
جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذاء دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وہ (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں (۱)٘(سورة الأحزاب . آیت58)
لیکن نہیں.................یہ کبھی نہیں سدھریں گے کہ انکا بلکہ یہ کہنا زیادھ مناسب ہوگا کہ ہمارا احساس ہی مرچکا ہے ہم بے حس ہو چکے ہیں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری بہن بیٹیاں بھی گھر سے باہر نکلتی ہیں ان کے لئے بھی لوگوں کی نظریں ایسی ہی ہوتی ہونگی ان کے بارے میں بھی لوگ باتیں کرتے ہوں گے لیکن ہم..............................یہ سب نہیں سوچتے ہمیں تو صرف اپنی ذہنی عیاشی سے غرض ہے اس سے کسی کی زندگی جہنم بنتی ہے تو بنا کرے..............کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو ہمیں کیا............میرا سوال ہے ہر اس فرد سے جو اس بد نظری کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں کے جو باتیں اور جملے وہ ان خواتین کے لئے بولتے ہیں جو نجانے کتنی بار سوچ کر نا چاہتے ہوے بھی گھر سے باہر قدم نکالنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ قدم قدم پر ہر موڑ پر حوس کے ناگ پھن پھیلاے بیٹھے ہیں مگر............................وہ پھر بھی گھر سے باہر نکلتی ہیں کہ کیوں؟....................کیونکہ کوئی نا کوئی مجبوری ہی انھیں باہر نکلنے پر مجبور کرتی ہے ورنہ شاید ہی کوئی عورت ہو جو اس کرب اور اذیت سے روزانہ گذرنا پسند کرے یہ گھنٹوں اسٹاپ پر کھڑی رہتی ہیں لیکن انہیں گاڑیوں میں سوار ہونے کے لئے اپنے کمپارٹمنٹ میں بیٹھنے کے لئے بھی جگہ میسر نہیں آتی کہ خود کو فخر کے ساتھ مرد کہنے والے بری شان کے ساتھ لیڈیز کمپارٹمنٹ میں براجمان ہوتے ہیں کسی عزت دار کے منہ سے یہ نہیں نکلتا کہ بھی کم از کم لیڈیز سیٹ تو خالی کردو ڈرائیور اور کنڈکٹر حضرات کی تو بات ہی کیا کی جائے،
تو یہ ہیں میری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جن سے قوموں کی عزت ہوتی ہے جو ہماری آن ہوتی ہیں جنکی عزت کی خاطر باپ بھائی جان دے دیا کرتے ہیں اور............... یہ ہے ہمارا سلوک جو ہم ان سے روا رکھتے ہیں سچ اور عزت کے منہ پر ایک طمانچہ ہمارا ایک ایسا رویہ جو ہر انسان کا اصل چہرہ بے نقاب کردیتا ہے مگر ہم اپنے اس اصل سے نظریں چراتے ہیں کہ وو اتنا مکروہ ہو چکا ہے کے ہم خود بھی شناخت نہیں کرپاتے کے یہ ہم ہی ہیں................میرا دل خوں کے آنسو روتا ہے ہم کب سمجھیں گے کب وہ وقت آے گا جب ہمارے گھر کی خواتین بنا کسی خوف کے گھروں سے نکل سکیں گی...........کب وہ وقت آے گا جب ہم نظریں جھکا کر چلنا سیکھیں گے کہ اسکا مجھے حکم ہے.....................ہو سکتا ہے بہت سے لوگ میری اس سوچ اور بات سے اختلاف کریں انھیں اسکا حق بھی ہے لیکن میں کسی دوسرے کو مورد الزام ٹہراوں اس سے یہ بہتر نہیں کہ میں خود کو بہتر بناؤں کہ بلآخر میرے اعمال کا جواب مجھے ہی دینا ہے
الله ہم سب کو ہدایت کی دولت سے نوازے
آمین
Nazer
Ye ek aisa issue hey jis se shayed hum sub hi waqif hai'n khas ker wo khawateen-o-hazrat jo rozana talash-e-maash k silsiley mai'n apney gharoo'n se bahir nikaltey hai'n tu is hawaley se jo kuch mai'n daikhta hoo'n,sunta hoo'n aur mehsos kerta hoo'n usey aap logoo'n tek ponhchaney ki koshish ki hey shayed pasand aaye
نظر
نظر کا براہ راست تعلق آنکھہ کے ساتھہ ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں اتنے بڑے بڑے فنکار بھی پڑے ہیں جو دل و دماغ سے بھی دیکھہ لیتے ہیں نظر کو اچھی اور بری سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہ شفقت کی بھی ہوتی ہے اور محبت کی بھی کبھی کبھی یہ لگ بھی جاتی ہے تو کبھی کھا بھی جاتی ہے مختصر یہ کہ اس قسم کی باتیں نظر کے حوالے سے سننے میں آتی رہتی ہیں اسکا استعمال بھی مختلف طرحہ سے ہوتا کچھ اسے براہ راست استعمال کرتے ہیں تو کچھ ترچھی کچھ جھجک کے ساتھ استعمال کرتے ہیں تو کچھ چوری چوری
لیکن
میں آج یہاں جس نظر کا ذکر کر رہا ہوں وہ ہے بد نظر اسکا تعلق آنکھہ سے نہیں دیکھنے والے سے ہوتا ہے جس کے پیچھے بری سوچ اور نیت کارفرما ہوتی ہے اور خواتین اسکا شکار ہوتی ہیں اور روزانہ ہوتی ہیں اور کسی کو اس کا احساس یا خیال تک نہیں ہوتا کوئی اس کرب، تکلیف اور دکھ کو نہ ہی محسوس کرتا ہے اور نہ ہی کرسکتا ہے جس سے یہ خواتین روزانہ گزرتی ہیں روزانہ جھلتی ہیں ان بری نظروں اور بد نظروں کو خاص کر وہ خواتین جو اپنی مجبوریوں کی بنا پر تلاش معاش کی وجہہ سے گھر سے باہر قدم نکالنے پر مجبور ہوتی ہیں اور شرم کا مقام ہے اسکول کالجز کی بچیاں تک اس بد نظری سے محفوظ نہیں ہر گلی ہر کونے ہر بس اسٹاپ پر بسوں میں سڑک پر گزرتے ہوے یہاں تک کہ آفسز تک میں غرض ہر طرف وہ لوگ موجود ہیں جو اس قبیح جرم میں مشغول ہوتے ہیں اس میں اچھی بری فیملی یا کسی کے تعلم یافتہ ہونے نا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس میں سب ہی شامل ہوتے ہیں میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں کیا جب وہ کسی اور کی بہن بیٹی پر بری نظر ڈالتے ہیں تو اپنی بہن بیٹیاں یاد نہیں آتیں کیوں کسی لڑکی یا خاتون کو دیکھ کر نظر جھک نہیں جاتی کیا اگر ہمارا ان سے کوئی رشتہ یا تعلق نہیں تو وہ احترام کے قابل نہیں ایک شاعر کا شعر نظر سے گزرا لیکن لگتا ہے کہ شاید ہم اتنا گر گئے ہیں کہ اب ہمیں کوئی بھی بات اثر نہیں کرتیی
بد نظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب
اپنی بیٹی کا خیال آیا تو دل کانپ گیا
مگر دل تو جب کانپے گا نا جب اپنی بیٹی کا خیال آے گا جب دوسرے کی بیٹی کو اپنی بیٹی اور دوسرے کی بہن کو اپنی بہن سمجھیں گے اور اس سب کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ناصرف بدنظری کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں باتیں بھی کرتے ہیں جو کوئی اتنی خوش کن اور اچھی نہیں ہوتیں جنکا میں یہاں ذکر کروں نا جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ الله پاک نے فرمایا ہے،
جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذاء دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وہ (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں (۱)٘(سورة الأحزاب . آیت58)
لیکن نہیں.................یہ کبھی نہیں سدھریں گے کہ انکا بلکہ یہ کہنا زیادھ مناسب ہوگا کہ ہمارا احساس ہی مرچکا ہے ہم بے حس ہو چکے ہیں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری بہن بیٹیاں بھی گھر سے باہر نکلتی ہیں ان کے لئے بھی لوگوں کی نظریں ایسی ہی ہوتی ہونگی ان کے بارے میں بھی لوگ باتیں کرتے ہوں گے لیکن ہم..............................یہ سب نہیں سوچتے ہمیں تو صرف اپنی ذہنی عیاشی سے غرض ہے اس سے کسی کی زندگی جہنم بنتی ہے تو بنا کرے..............کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو ہمیں کیا............میرا سوال ہے ہر اس فرد سے جو اس بد نظری کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں کے جو باتیں اور جملے وہ ان خواتین کے لئے بولتے ہیں جو نجانے کتنی بار سوچ کر نا چاہتے ہوے بھی گھر سے باہر قدم نکالنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ قدم قدم پر ہر موڑ پر حوس کے ناگ پھن پھیلاے بیٹھے ہیں مگر............................وہ پھر بھی گھر سے باہر نکلتی ہیں کہ کیوں؟....................کیونکہ کوئی نا کوئی مجبوری ہی انھیں باہر نکلنے پر مجبور کرتی ہے ورنہ شاید ہی کوئی عورت ہو جو اس کرب اور اذیت سے روزانہ گذرنا پسند کرے یہ گھنٹوں اسٹاپ پر کھڑی رہتی ہیں لیکن انہیں گاڑیوں میں سوار ہونے کے لئے اپنے کمپارٹمنٹ میں بیٹھنے کے لئے بھی جگہ میسر نہیں آتی کہ خود کو فخر کے ساتھ مرد کہنے والے بری شان کے ساتھ لیڈیز کمپارٹمنٹ میں براجمان ہوتے ہیں کسی عزت دار کے منہ سے یہ نہیں نکلتا کہ بھی کم از کم لیڈیز سیٹ تو خالی کردو ڈرائیور اور کنڈکٹر حضرات کی تو بات ہی کیا کی جائے،
تو یہ ہیں میری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جن سے قوموں کی عزت ہوتی ہے جو ہماری آن ہوتی ہیں جنکی عزت کی خاطر باپ بھائی جان دے دیا کرتے ہیں اور............... یہ ہے ہمارا سلوک جو ہم ان سے روا رکھتے ہیں سچ اور عزت کے منہ پر ایک طمانچہ ہمارا ایک ایسا رویہ جو ہر انسان کا اصل چہرہ بے نقاب کردیتا ہے مگر ہم اپنے اس اصل سے نظریں چراتے ہیں کہ وو اتنا مکروہ ہو چکا ہے کے ہم خود بھی شناخت نہیں کرپاتے کے یہ ہم ہی ہیں................میرا دل خوں کے آنسو روتا ہے ہم کب سمجھیں گے کب وہ وقت آے گا جب ہمارے گھر کی خواتین بنا کسی خوف کے گھروں سے نکل سکیں گی...........کب وہ وقت آے گا جب ہم نظریں جھکا کر چلنا سیکھیں گے کہ اسکا مجھے حکم ہے.....................ہو سکتا ہے بہت سے لوگ میری اس سوچ اور بات سے اختلاف کریں انھیں اسکا حق بھی ہے لیکن میں کسی دوسرے کو مورد الزام ٹہراوں اس سے یہ بہتر نہیں کہ میں خود کو بہتر بناؤں کہ بلآخر میرے اعمال کا جواب مجھے ہی دینا ہے
الله ہم سب کو ہدایت کی دولت سے نوازے
آمین
Comment