Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

یہ عشق نہیں آساں۔۔

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • یہ عشق نہیں آساں۔۔

    یہ عشق نہیں آساں۔۔

    ہم کہاں اور ہمارا عشق کا دعویٰ کہاں۔ شاید محترم مہر علی شاہ گولڑوی نے اپنے نام کو شامل کرتے ہوئے میرے بارے میں ہی کہا تھا کہ :۔
    کتھے مہر علی، کھتے تیری ثنا

    گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
    کیونکہ ہم عشق عشق کرنے والے ہر و ہ کام کرتے ہیں جو ہمارے نبی پاک، محبوبِ خدا ، احمد مجتبیٰ، حضرت محمد ﷺ کی سنتوں کے خلاف ہوتا ہے۔ ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے جب ہم کسی کا دل توڑتے ہیں، کسی کو کسی قسم کی تکلیف پہنچاتے ہیں۔جب ہم کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرتے ہیں یعنی غیبت کا پنڈورا بکس کھول لیتےہیں۔ اور جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے کہ ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ پرکوئی انگلی بھی اٹھانے کی جرات کرتا ہے تو ہم کفن باندھ کر نکل پڑتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں: گستاخِ رسول کی ایک ہی سزا، سر تن سے جدا سر تن سے جدا۔ عشقِ رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
    لیکن کیا یہ نعرے لگانے سے پہلے، اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کرنے سے پہلے کوئی تیاری بھی کی ہوتی ہے، اپنے آپ کو ان گناہوں سے ، ان منافقتوں سے پاک کیا ہوتا ہے جس اسی رسول ﷺ کی ہر سنت کی خلاف ورزی کر کے کمائی ہوتی ہیں۔ ہم نعرے تو لگاتے ہیں لیکن کیا یہ سوچا ہوتا ہے کہ وہ نبی ﷺ ہماری اس ادا کوآسانی سے قبول کر پائیں گے؟ بے شک دلوں کے حال اللہ جانتا ہے لیکن ظاہری پاکی بھی تو ضروری ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اگر اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تو اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اللہ کے احکامات کو جتنا آسانی سے ممکن ہو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہوئے اسکے محبوب نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش تو کریں۔ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں، باقی توفیق دینے والی اللہ کی پاک ذات ہے۔ و ما توفیقی الا بااللہ۔
    ویسے تو نبی کریم ﷺ کی ذات بابرکات پر منحوس انگلی اٹھانے کا کام انکی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اس وقت وہ خود اس عمل کے خلاف اپنے عاشقین صحابہ کو حکم دے دیتے تھے۔ اور پھر انکے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی یہ لعنتی کام کم نہیں ہوا، بلکہ بڑھتا چلا گیا۔ موجودہ گستاخانہ کام کا سلسلہ ڈنمارک کے ایک ملعون اخبار جیلنڈ پوسٹن میں 30 سمتبر 2005 کو گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے آغاز سے ہوا۔ تب سے اب تک ہر سال، ہر ماہ یہ گستاخانِ نبی ﷺ ایسی اوچھی حرکتوں پر اتر آئے ہیں۔ ڈنمارک کی پیروی میں اور بہت سے کفار ملکوں میں یہ کفریہ حرکت دہرائی گئی۔
    یہ کام کبھی بھی مزید ترقی نہ کرتا اگر ہم مسلمان ایک ہو کر اس ملعون و گستاخ فعل کے خلاف آواز اٹھاتے ، انکے خلاف مضبوط محاذ قائم کرتے ، اپنے الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنے دل کی صدا، اپنے عشق کو تمام دنیا پر ظاہر کرتے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم اگر مؤثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرتی اور ان کفار ممالک پر واضح کر دیتی کہ اگر دوبارہ یہ غلطی، صریح غلطی دہرائی گئی تو پھر کسی قسم کی محاذ آرائی کا ذمہ داروہ کافر ملک ہو گا نہ کہ کوئی مسلمان ملک، جس نے اللہ اور اسکے رسول کے حکم پر عمل کرتے ہوئے انکے خلاف جارحانہ قدم اٹھایا ہو گا۔ لیکن صدافسوس، یہ تنظیم کچھ بھی نہ کر سکی۔ بس قراردادیں پاس کرنے پر قائم رہی، اور زیادہ سے زیادہ ان ممالک کو بتا دیا کہ یہ کام غلط ہے۔ اس تنظیم سے اگر اور کچھ نہیں تو یہ تو ہو سکتا تھا کہ اپنے ممبر ممالک پر قانون نافذ کرتی کہ ان غیرممالک (کافر ممالک) سے ہر قسم کی تجارت بند کر دیں۔ نہ ان کو کوئی چیز برآمد کریں نہ ان سے درآمد کریں۔ انکا معاشی بائیکاٹ کریں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان کفار ممالک کو سمجھ آجاتی۔ کیونکہ وہ ممالک جانتے ہیں کہ انکے ہاں بنی ہوئی اشیاء کی زیادہ مانگ مسلمان ممالک میں ہی ہے۔ لیکن کچھ بھی نہ ہو سکا۔ نہ او۔آئی۔سی کچھ کر سکی نہ مسلمان کچھ کر سکے۔
    جب کچھ بھی نہ ہوتا تو ان کافروں کا حوصلہ مزید بڑھا۔ مزید ممالک میں گستاخانہ خاکے شائع ہوئے۔ فیس بک پر مقابلے کرانےکے بارے میں سوچنے لگے۔ پھر مختلف عیسائی پوپ بلکہ پاپ سے بھرپور عیسائی مذہبی لیڈر وں نے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ اور کچھ نہ کچھ کرنے کی سوچتے ہی رہے۔ ہم مسلمان تب بھی خاموش رہے۔ اور خاموش تماشائی کی طرح احتجاج کرتے رہے۔ ان احتجاجوں سے کیا ہوتا ہے، اپنے ملک میں جلسے جلوس نکالنے سے کیا حل نکلتا ہے، اپنے وطن کی اشیاء توڑنے سے ، چیزیں جلانے دشمنان ِ اسلام کو کیا نقصان پہنچتا ہے؟ کچھ نہیں، سب کچھ اپنا ہوتا ہے، تو نقصان بھی اپنے کو ہی ہوتا ہے۔
    اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی جب ہم چپ رہے تو ان بت پرستوں نےاب حد ہی کر دی۔ یعنی ہمارے پیارے ، اللہ کے راج دلارے نبی ﷺ پر ایک عدد گستاخانہ فلم تک بنا ڈالی۔ میں تو اس حق میں بھی نہیں ہوں کہ کسی بھی نبی کے بارے میں کوئی فلم نما چیز تخلیق کی جائے چہ جائیکہ کہ ہمار ے پیارے نبی کی شان میں یہ گستاخی کی جائے۔نتیجہ تو صاف ظاہر ہے مسلمان ملکوں میں جو اشتعال پھیلا اور اسکے نتیجے میں جو کچھ ہوا وہ بہت کم ہے۔ لیبیا میں امریکہ کا سفیر مارا گیا، یمن میں امریکی سفارتخانے کو نقصان پہنچا، دوسرے ممالک میں کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ پاکستان میں جناب غلام احمد بلور نے اس گستاخ فلم پروڈیوسر کا سر قلم کرنے والے کے لیے ایک لاکھ ڈالر کا انعام بھی رکھ دیا۔ خدا کی شان۔ میں ذاتی طور پر انکو اور انکی پارٹی کو جو کچھ بھی سمجھتا تھا، لیکن یہ بات درست ہے اور شاید بہت سے مسلمان لوگ میری بات کی تائید بھی کریں گے کہ محترم غلام احمد بلور نے زندگی میں جتنے بھی گناہ اگر کیے ہوں گے وہ اس ایک اعلان پر بخش دیے گئے ہوں گے۔
    ہم نے اس دن جلسے کیے، جلوس نکالے، اپنے ہی وطن کی اشیاء کو نقصان پہنچایا، املاک جلائیں، گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ سوال یہ ہے کہ جنکی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، جن کی گاڑیا ں تباہ کی گئیں، کیا وہ اس فلم پروڈیوسر کے ساتھ تھے؟ نہیں، انھیں تو علم بھی نہیں تھا کہ ان کےساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ وہ تو خود مہنگائی، بدامنی کے ہاتھوں ڈسے ہوئے تھے۔ اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نقصان پہنچانے والے محب وطن پاکستانی تھے، یا عاشقِ رسول ﷺ تھے؟ نہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ نہ تو یہ محب وطن پاکستانی تھے، نہ عاشقِ رسول تھے۔ بلکہ یہ لوگ وطن دشمن کے ہاتھوں کھلونا تھے۔ جن کو پیسے دے کر اس بات پر راضی کیا گیا تھا کہ وہ اپنے ہم وطنوں کا ، اپنے ملک کی املاک کا نقصان کریں۔ کیونکہ عاشق رسول ﷺ تو اپنی پوری زندگی کو انکی سنتوں پر عمل کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اور انکے حکم کے مطابق تووہ ایک کانٹا تک کسی کو نہیں چبھنے دیتا تو کہاں وہ اپنے وطن کو نقصان پہنچانے کا سوچے گا۔
    یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجئے
    اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے
    کہنا صرف یہ ہے کہ عشق عشق کا نعرہ لگانے والو، پہلے اپنے گریبان میں جھانکو۔ کیا اپنے محب کی کسی بات پر عمل بھی کرتے ہو،یا مدینہ کے منافقوں کی طرح بظاہر اسلام ہی لائے ہوئے ہو۔کیونکہ بقول اقبال۔۔
    ہو زباں پہ کلمہ لا الہ تو کیا حاصل
    دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ نہیں



  • #2
    Re: یہ عشق نہیں آساں۔۔

    khobsurat sharing

    Comment

    Working...
    X