عربی کے اردو پر لسانیاتی اثرات ایک جائزہ
حاکم زبانیں' محکوم علاقوں کی زبانوں اور بولیوں پر' اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہاں البتہ' انہیں محکوم زبانوں اور بولیوں کے نحوی سیٹ اپ کو' ابنانا پڑتا ہے۔ ان کے بولنے والوں کا لہجہ' اندازتکلم' اظہاری اطوار اور کلام کی نوعیت اور فطری ضرورتوں کو بھی' اختیار کرنا پڑٹا ہے۔ یہ ہی نہیں' معنویت کے پیمانے بھی بدلنا پڑتے ہیں۔ اس کے سماجی' معاشی اور سیاسی حالات کے زیر اثر ہونا پڑتا ہے۔ شخصی اور علاقائی موسموں کے تحت' تشکیل پائے' آلات نطق اور معاون آلات نطق کو بہرصورت' مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ قدرتی ' شخصی یا خود سے' ترکیب شدہ ماحول کی حدود میں رہنا پڑتا ہے۔ نظریاتی' فکری اور مذہبی حالات و ضرورت کے زیراثر رہنا پڑتا ہے۔ اسی طرح' بدلتے حالات' نظرانداز نہیں ہو پاتے۔ یہ بات پتھر پر لکیر سمجھی جانی چاہیے' کہ لفظ چاہے حاکم زبان ہی کا کیوں نہ ہو' اسے استعمال کرنے والے کی ہر سطع پر' انگلی پکڑنا پڑتی ہے' باصورت دیگر' وہ لفظ اپنی موت آپ مر جائے گا۔
عربی بڑا بعد میں' برصغیر کی حاکم زبان بنی۔ مسمانوں کی برصغیر میں آمد سے بہت پہلے' برصغیر والوں کے' عربوں سے مختلف نوعیت کے تعلقات استوار تھے۔ یہ تعلقات عوامی اور سرکاری سطح پر تھے۔ عربوں کو برصغیر میں' عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ عربوں نے' یہاں گھر بسائے۔ ان کی اولادیں ہوئیں۔ دور امیہ میں سادات اوران کے حامی یہاں آ کر آباد ہوئے۔ 44ھ میں زبردست لشکرکشی ہوئی۔ ناکامی کے بعد' بچ رہنے والے بھی' یہاں کے ہو کر رہ گیے۔ محمد بن قاسم اوراس کے بعد' برصغیر عربوں کا ہو گیا۔ اس سارے عمل میں' جہاں سماجی اطوار درآمد ہوئے' وہاں عربی زبان نے بھی' یہاں کی زبانوں اور بولیوں پر' اپنے اثرات مرتب کیے۔ یہ سب' لاشعوری سطح پر ہوا اور کہیں شعوری سطح پر بھی ہوا۔ دوسری سطح' لسانی عصبیت سے تعلق رکھتی ہے۔
مخدومی و مرشدی حضرت سید غلام حضور المعروف باباجی شکرالله کی باقیات میں سے' تفسیرالقران بالقران کی تین جلدیں دستیاب ہوئیں۔ اس کے مولف ڈاکٹر عبدالحکیم خاں ایم بی ہیں۔ اسے مطبح عزیزی مقام تراوڑی ضلع کرنال نے' بااہتمام فتح محمد خاں منیجر 1901ء میں شائع کیا۔ اسے دیکھ کر' ازحد مسرت ہوئی۔ یک دم خیال کوندا' کیوں نہ اس کی زبان کے' کسی حصہ کو' عصری زبان کے حوالہ سے دیکھا جائے۔ اس کے لیے میں نے' سورت فاتحہ کا انتخاب کیا۔ تفسیر کی زبان کے دیگر امور پر' بعد ازاں گفتگو کرنے کی جسارت کروں گا' سردست عربی کے اردو پر لسایاتی اثرات کا جائزہ لینا مقصود ہے۔
تسمیہ کے الفاظ میں سے' اسم' الله' رحمن اور رحیم رواج عام میں داخل ہیں اور ان کا' باکثرت استعمال ہوتا رہتا ہے۔
سورت فاتحہ میں: حمد' لله' رب' عالمین' رحمن' رحیم' ملک' یوم' دین' عبد' صراط' مستقیم' نعمت' مغضوب' ' ضالین.... غیر' و' لا' علیہ ایسے الفاظ ہیں' جو اردو والوں کے لیے غیر مانوس نہیں ہیں۔ علما نے ان کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ترجمہ کے الفاظ' اردو مترفات کی حیثت رکھتے ہیں۔
اسم' کسی جگہ' چیز' شخص یا جنس کے نام کو کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی نام کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی الله کے نام سے.
تکیہءکلام بھی ہے' کوئی گر جائے یا گرنے لگے' تو بےساختہ منہ سے بسم الله نکل جاتا ہے۔
حمد' اردو میں باقاعدہ شعری صنف ادب ہے اور الله کی ذات گرامی کے لیے مخصوص ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکیم خان' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی فرمان علی' مولوی محمد جونا گڑھی' شاہ عبدالقادر محدث دہلوی' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف علی تھانوی اور سعودی ترجمہ تعریف کیا گیا ہے۔
کے لیے بھی مخصوص ہے اور رواج عام میں ہے۔ definition تعریف
کہا جاتا ہے' درج ذیل اصناف کی تعریف کریں اور دو دو مثالیں بھی دیں۔
شاہ ولی الله دہلوی نے' اپنے فارسی ترجمہ میں' حمد کے لیے' لفظ ستائش استعمال کیا ہے۔ لفظ ستائش ردو میں مستعمل ہے۔
مولوی فیروزالدین ڈسکوی نے' خوبیاں ترجمہ کیا ہے۔
گویا حمد کو برصغیر میں تعریف ستائش اور خوبیاں کے معنوں میں لیا گیا ہے۔
سعودی عرب کے ترجمے میں بھی حمد کے لیے تعریف مترادف لیا گیا ہے۔
قمر نقوی کے ہاں اس کے استعمال کی صورت دیکھیں:
میں تیری حمد لکھنا چاہتا ہوں
جو نامکن ہے کرنا چاہتا ہوں
تری توصیف۔۔۔۔اک گہرا سمندر
سمنر میں اترنا چاہتا ہوں
قمر نقوی نے اس کے لیے مترادف لفظ توصیف دیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے ص 23 پر' ایک شعر میں لفظ حمد کا استعمال کچھ یوں کیا ہے:
حمد الہی پر ہیں مبنی سب ترقیات روح
اس سے ہی پیدا ہوتی ہیں ساری تجلیات روح
لله کو' الله کے لیے' کے معنوں میں سب نے لیا ہے۔ فارسی میں شاہ ولی الله دہلوی نے برائے الله' ترجمہ کیا۔ یہ بھی الله کے لیے' کے مترادف ہے۔
لله' باطورتکیہءکلام رائج ہے۔
الله کے لیے' باطورتکیہءکلام بھی رواج میں ہے۔
خدا کے لیے' خفگی یا غصے کی حالت میں اکثر بولا جاتا ہے۔ مثلا
خدا کے لیے چپ ہو جاؤ۔
خدا کے لیے' استدعا کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ مثلا
خدا کے لیے اب مان بھی جاؤ۔
رب:
ڈاکٹرعبدالحکیم خان نے ترجمہ رب ہی ترجمہ کیا ہے۔
مولوی محمد فیروزالدین ڈسکوی نے بھی رب کے ترجمہ میں رب ہی لکھا ہے۔
یہ لفظ عام استعمال میں آتا۔ مثلا
وہ تو رب ہی بنا بیٹھا ہے۔
بندہ کیا دے گا' رب سے مانگو
توں رب ایں۔۔۔۔۔۔ باطور سوالیہ
شاہ عبدالقادر محدث دہلوی' مولوی محمد جوناگڑھی' مولوی فرمان علی نے پالنے والا ترجمہ کیا ہے
سعودی ترجمہ بھی پالنے والا ہے۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے مربی مترادف درج کیا ہے۔ مربی پالنے والے ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مہربان' خیال رکھنے والے' توجہ دینے والے' کسی قریبی کے لیے بولنے اور لکھنے میں مربی آتا ہے۔
شاہ ولی الله دہلوی اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے رب کا ترجمہ پروردگار کیا ہے۔
پروردگار' ذرا کم' لیکن بول چال میں شامل ہے۔
گویا اردو میں یہ لفظ غیر مانوس نہیں۔
علمین' عالم کی جمع ہے۔ ہر دو صورتیں' اردو میں مستعمل ہیں۔ پنجاب کی سٹریٹ لنگوئج میں زبر کے ساتھ بول کر' مولوی صاحب یا علم دین جاننے والا مراد لیا جاتا ہے۔
جہان بھی مراد لیتے ہیں۔
قرآن مجید کو دو جہانوں کا بادشاہ بولا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکیم خاں نے' علمین کا جہانوں ترجمہ کیا ہے۔
مولوی محمد جوناگڑھی کے ہاں اور سعودی ترجمہ بھی جہانوں ہوا ہے۔
شاہ عبدالقادر' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی فرمان علی نےسارے جہانوں ترجمہ کیا ہے۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے ہر عالم ترجمہ کیا ہے۔
مولوی بشیر احمد لاہوری نے کل دنیا' مولوی مودودی نے کائنات' جب کہ شاہ ولی الله کے ہاں فارسی میں عالم ہا ترجمہ ہوا
ترجمے سے متعلق تمام الفاظ' اردو میں مستعل ہیں۔ ہا رواج میں نہیں رہا' ہاں البتہ ہائے رواج میں ہے۔ جیسے انجمن ہائے امداد باہمی
اردو بول چال میں عالموں' عالماں بھی پڑھنے سننے میں آتے ہیں۔
نام بھی رکھے جاتے ہیں۔ جیسے عالم شاہ' نور عالم
باطور ٹائیٹل بھی رواج میں ہے۔ جیسے فخر عالم' فخر دو عالم
لفظ رحمن' عمومی استعمال میں ہے۔ نام بھی رکھے جاتے ہیں۔ مثلا
عبد الرحمن' عتیق الرحمن فیض الرحمن' فضل الرحمن وغیرہ.
ڈاکٹر عبدالحکیم خاں نے رحمن کا ترجمہ' لفظ کے عمومی بول چال میں مستعمل ہونے کے سبب' رحمن ہی کیا ہے۔
مولوی سید مودودی نے بھی' رحمن کا ترجمہ رحمان ہی کیا ہے۔
مولوی محمد فیروزالدین نے' رحمن کا ترجمہ مہربان کیا ہے۔
مولوی محمد جونا گڑھی کے ہاں' رحمن کا ترجمہ' بخشش کرنے والا ہوا ہے۔
شاہ ولی الله نے' فارسی ترجمہ بخشایندہ کیا ہے' جو بخشش کرنے والا ہی کا مترادف ہے۔ بخشایندہ اردو میں مستعمل نہیں تاہم بخشنے والا' بخش دینے والا' بخشش کرنے والا' بخشن ہار وغیرہ غیر مانوس نہیں ہیں۔
بخشیش خیرات کے لیے بھی' بولا جاتا ہے۔
شاہ عبدالقادر' مولوی اشرف علی تھانوی' مولوی احمد رضا خاں بریلوی' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی فرمان علی نے رحمن کا ترجمہ مہربان کیا ہے۔
سعودی ترجمہ بھی مہربان ہے۔
لفظ رحیم' اردو میں غیر مانوس نہیں۔ اشخاص کے نام بھی رکھے جاتے ہیں. جیسے عبدالرحیم۔
اسی تناظر میں ڈاکٹر عبدالحکیم خاں نے رحیم کا ترجمہ رحیم ہی کیا ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی' اس کا ترجمہ رحیم ہی کیا ہے۔
شاہ عبدالقادر' مولوی اشرف علی تھانوی' مولوی احمد رضا خاں بریلوی' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی فرمان علی' مولوی محمد فیروزالدین نے رحم والا ترجمہ کیا ہے۔
شاہ ولی الله دہلوی اور مولوی محمد جونا گڑھی نے رحیم کا ترجمہ مہربان کیا ہے۔
لفظ مالک' ملکیت والے کے لیے' عام بول چال میں ہے. جیسے مالک مکان یا وہ پانچ ایکڑ زمین کا مالک ہے۔ بیشتر ترجمہ کنندگان نے' اس کا ترجمہ مالک ہی کیا ہے۔ ہاں مولوی فرمان علی نے اس کا ترجمہ حاکم کیا ہے۔اشخاص کے نام بھی' سننے کو ملتے ہیں. مثلا عبدالمالک' محمد مالک
ڈاکٹر عبدالحکیم خاں' مولوی محمد جونا گڑھی' مولوی فیروز الدین' مولوی اشرف علی تھانوی' شاہ عبدالقادر' مولوی احمد رضا خاں بریلوی' مولوی سید مودودی نے اس کا ترجمہ مالک ہی کیا ہے۔ سعودی ترجمہ بھی مالک ہی ہے۔ اس سے باخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لفظ مالک کس قدر عرف عام میں ہے۔
لفظ یوم' عام استعمال کا ہے۔ مرکب استعمال بھی سننے کو ملتے ہیں۔ مثلا یوم آزادی' یوم شہدا' یوم عاشورہ' یوم حج وغیرہ
ڈاکٹر عبدالحکیم خاں نے' یوم کا ترجمہ یوم ہی کیا ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی یوم کا ترجمہ یوم ہی کیا ہے۔
مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جونا گڑھی' مولوی بشیر احمد لاہوری نے اس کا ترجمہ دن کیا ہے.
سعودی ترجمہ بھی دن ہی ہوا ہے۔
شاہ ولی الله' شاہ عبدالقادر' مولوی اشرف علی تھانوی' مولوی احمد رضا خاں بریلوی' مولوی فرمان علی نے یوم کا ترجمہ روز کیا ہے۔
لفظ دین' مذہب کے معنوں میں عام استعمال کا ہے۔
مرکب بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلا دین محمدی' دین اسلام' دین دار' دین دنیا وغیرہ
ناموں میں بھی مستعمل ہے۔ مثلا احمد دین' دین محمد' چراغ دین امام دین وغیرہ
دین دار ایک ذات اور قوم کے لیے بھی مخصوص ہے۔
دین کے معنی رستہ بھی لیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عدالحکیم خاں نے' اس لفظ کو' جزا کے معنوں میں لیا ہے۔
شاہ ولی الله دہلوی' شاہ عبدالقادر' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف علی تھانوی' مولوی احمد رضا خاں بریلوی' مولوی فرمان علی نے لفظ دین کو جزا کے معنوں میں لیا ہے۔
مولوی محمد جونا گڑھی نے' لفظ دین کا ترجمہ قیامت کیا ہے۔
مولوی محمد قیروز الدین اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے' لفظ دین کو انصاف کے معنوں میں لیا ہے۔
سعودی ترجمے میں' اس کا ترجمہ بدلے کا' جب کہ قوسین میں قیامت درج ہے' معنی لیے گیے ہیں۔
لفظ عبد' اردو میں عمومی استعمال کا نہیں' تاہم اشخاص کے ناموں میں باکثرت استعمال ہوتا ہے۔ مثلا عبدالله' عبدالقادر' عبداعزیز' عبدالکریم' عبدالرحمان' عبدالقوی وغیرہ
نعبد کا ڈاکٹر عبدالحکیم' مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جونا گڑھی' مولوی سید مودودی' مولوی فرمان علی' مولوی اشرف علی تھانوی نے ترجمہ عبادت کیا ہے۔
سعودی ترجمے میں بھی معنی عبادت لیے گیے ہیں۔
مولوی احمد رضا خان نے پوجھیں ترجمہ کیا ہے۔
شاہ عبدالقادر اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے بندگی معنی دیے ہیں۔
شاہ ولی الله دہلوی نے' اپنے فارسی ترجمہ میں می پرستیم معنی دیے ہیں۔ لفظ پرست' پرستی' پرستش اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں' بلکہ بول چال میں موجود ہیں۔
لفظ صراط' اردو میں عام استعمال کا نہیں' لیکن غیر مانوس بھی نہیں۔ مرکب پل صراط عام بولنےاور سننے میں آتا ہے۔ لوگ اس امر سے آگاہ نہیں' یہ دو الگ چیزیں ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحکیم خان' مولوی اشرف علی تھانوی' مولوی احمد رضا خاں بریلوی اور مولوی سید مودودی نے' اسے رستہ کےمعنی دیے ہیں۔
شاہ ولی الله دہلوی' شاہ عبدالقادر' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی محمد جونا گڑھی' مولوی بشیر احمد لاہوری اور مولوی فرمان علی نے صراط کا ترجمہ راہ کیا ہے۔
سعودی ترجمہ بھی راہ ہی ہوا ہے۔
لفظ مستقیم' عمومی استعمال میں نہیں۔ نام کے لیے استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ جیسے محمد مستقیم
اسی طرح' خط مستقیم جیویٹری کی اصطلاح سننے میں آتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکیم خان' مولوی اشرف علی تھانوی' مولوی احمد رضا خاں بریلوی' اور مولوی سید مودودی نے' سیدھا ترجمہ کیا ہے۔
صراط مستقیم بمعنی سیدھا رستہ
مولوی محمد جونا گڑھی' مولوی بشیر احمد لاہوری اور مولوی فرمان علی نے سیدھی ترجمہ کیا ہے۔ سعودی ترجمہ بھی سیدھی ہوا ہے لیکن قوسین میں سچی درج کیا گیا ہے۔
صراط مستقیم یعنی سیدھی راہ
شاہ ولی الله دہلوی نے' اس کے لیے لفظ راست استعمال کیا ہے۔
صراط مستقیم یعنی راہ راست
انعمت' نعمت سے ہے۔ لفظ نعمت' بولنے اور لکھنے پڑھنے میں استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ پنجابی میں اسے نیامت روپ مل گیا ہے۔
نام بھی رکھے جاتے ہیں جیسے نعمت علی' نعمت الله
ڈاکٹر عبدالحکیم خان' مولوی اشرف علی تھانوی' مولوی محمد جونا گڑھی اور مولوی سید مودودی نے' اس کا انعام ترجمہ کیا ہے۔
سعودی ترجمہ میں بھی انعام استعمال میں آیا ہے۔
شاہ عبدالقادر' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے اس کا ترجمہ فضل کیا ہے۔
مولوی فرمان علی نے نعمت' احمد رضا خاں بریلوی نے احسان' جب کہ شاہ ولی الله دہلوی نے اسے اکرام معنی دیے ہیں۔
انعام و اکرام عمومی استعال کا مرکب ہے۔
مغضوب' اردو میں استعمال نہیں ہوتا' تاہم اس کا روپ غضب' اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی محمد جونا گڑھی' مولوی احمد رضا خاں بریلوی اور مولوی فرمان علی نے غضب کے معنی لیے ہیں۔
سعودی ترجمہ میں بھی غضب مراد لیا گیا ہے۔
شاہ عبدالقادر نے غصہ' جب کہ مولوی سید مودودی نے عتاب معنی لیے ہیں۔
شاہ ولی الله دہلوی نے' اپنے فارسی ترجمہ میں خشم معنی لیے ہیں۔
ضالین' ضلالت سے ہے۔ اردو میں یہ لفظ' عام بول چال میں نہیں۔ ہاں البتہ ذلالت عمومی استعمال میں ہے۔ ضلالت لکھنے میں آتا رہا ہے۔
شاہ عبدالقادر اور ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے گمراہ' مولوی محمد جونا گڑھی ' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد لاہوری اور مولوی فرمان علی نے گمراہوں ترجمہ کیا ہے۔
مولوی احمد رضا خاں بریلوی نے بہکنا معنی مراد لیے ہیں۔
مولوی سید مودودی نے' بھٹکے ہوئے ترجمہ کیا ہے۔
سعودی ترجمہ گمراہی ہوا ہے۔
شاہ ولی الله دہلوی نے گمراہان ترجمہ کیا ہے۔
ان کے علاوہ' چار لفظ اردو میں باکثرت استعمال ہوتے ہیں
علیہ: کلمہء احترام کے دوران' جیسے حضرت داؤد علیہ اسلام........مدعا علیہ' مکتوب علیہ وغیرہ
غیر: نہی کا سابقہ ہے' جیسے غیر محرم' غیر ارادی' غیر ضروری' غیر منطقی وغیرہ
لا: نہی کا سابقہ ہے' جیسے لاحاصل' لاعلم' لا یعنی' لاتعلق وغیرہ
و: و اور کے معنی میں مستعمل چلا آتا ہے۔ مثلا
شب و روز' رنگ ونمو' شعر وسخن' قلب ونظر وغیرہ
کمشنر و سپرنٹنڈنٹ' منیجر و پرنٹر وغیرہ
درج بالا ناچیز سے جائزے کے بعد' یہ اندازہ کرنا دشوار نہیں رہتا' کہ عربی نے اردو پر کس قدر گہرے اثرات مر تب کیے ہیں۔ مسلمانوں کا حج اور کئی دوسرے حوالوں سے' اہل عرب سے واسظہ رہتا ہے۔ اس لیے مختلف نوعیت کی اصطلاحات کا' اردو میں چلے آنا' ہر گز حیرت کی بات نہیں۔ روزمرہ کی گفت گو کا' تجزیہ کر دیکھیں' کسی ناکسی شکل میں' کئی ایک لقظ نادانسہ اور اظہاری روانی کے تحت' بولے چلے جاتے ہیں۔ مکتوبی صورتیں بھی' اس سے مختلف نہیں ہیں۔