انسانی تاریخ کی بگ گنز
بہت سے لوگ‘ جیتے جی مردہ زندگی گزراتے ہیں۔ مرنے کے بعد تو خیر مرنا ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ آٹے میں نمک رہے ہیں جن کا جینا اور مرنا‘ ہمیشہ ز ندہ اور فخریہ رہتا ہے۔ زندگی اور زندگی کے بعد‘ مثبت یادیں لوگوں کے دلوں میں محبت اور احترام کے جذبے پیدا کیے رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس منفی یادوں سے متعلق لوگ آتے وقتوں میں بھی‘ نفرت کی تیز دھار پر رہتے ہیں۔ معاملات حیات میں ان کی پیروی گناہ کبیرہ سمجھی جاتی ہے جب کہ مثبت قدروں کے حامل لوگ‘ زندگی کے معاملات میں حوالہ بنے رہتے ہیں اوران کی پیروی کو درست سمجھا جاتا ہے۔ گویا وہ درستی کا معیار بن جاتے ہیں۔
اپنی حقیقت میں یہ ہی بڑے لوگ اور یہ ہی درستی کا پیمانہ ہوتے ہیں۔ ان کے بڑے ہونے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلا انسانی کردار کے دو عناصر بڑے اہم ہیں‘ پہلا سچ کہنا اور سچ کرنا‘ اس کے سوا کچھ نہ کرنا۔ دوسرا عنصر امانت کی حفاظت کرنا ہے‘ یعنی جو اور جیسا واپس لوٹا دینا۔ ہر دو معاملات میں‘ آدمی سے نادانستہ سہی‘ کمی کوتاہی ہو ہی جاتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ زیادہ سے زیادہ کو‘ انسانیت احترام دیتی آئی ہے۔ اپنے تو محبت کرتے ہی ہیں‘ غیر بلا کسی خاص کے‘ احترام نہیں کرتے۔ آپ کریم کی رسالت اور نبوت کو ایک طرف رکھیے‘ آپ کریم کے کہے کو‘ دشمن بھی مانتے تھے۔ گویا آپ کریم سچ کہتے اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے۔ دشمن‘ آپ کو صادق اورامین کے لقب سے ملقوب کرتے تھے۔ ہر دو لقب‘ انسانی تاریخ کا آج بھی حصہ ہیں۔آپ کریم کے ان شخصی عناصر سے‘ غیرمسلم‘ آج بھی متفق ہیں۔
دھن بڑی خوب صورت اور پیاری چیز ہوتی ہے۔ آدمی اسے لٹتا یا ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ مثل معروف ہے: چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔ اسے اپنے ہاتھوں‘ کسی دوسرے کے‘ بڑے اور مثبت مقصد کے لیے تیاگنا‘ ایسی معمولی بات نہیں۔ حضرت خدیجہ علاقہ کی صاحب حیثیت خاتون تھیں۔ آپ نے حضور کریم‘ جو آپ کے خاوند بھی تھے‘ کےمقصد پر سب کچھ لٹا دیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے‘ کہ خواتین اپنے مردوں کے ہر اچھے برے‘ چھوٹے بڑے کاز کےساتھ ویر کماتی آئی ہیں۔ اسے انسانی تاریخ کی‘ انمول مثال سمجھا جاتا ہے۔
ضرورت مندوں کی حاجات پوری کرنا‘ دروازے پر آئےسوالی کو خالی ہاتھ نہ لوٹانا‘ بلاشبہ قابل تحسین ہی نہیں‘ دلوں کو مسخر کر لینے والا عمل ہے۔ معاشرے میں‘ بہت سےاہل ثروت موجود ہوتے ہیں‘ لیکن بانٹ دینا‘ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے لیے‘ بہت بڑا حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ قارون کے پاس رزق کی کمی نہ تھی‘ لیکن وہ بانٹ کھانے کا حوصلہ نہ رکھتا تھا۔ حاتم طائی کے پاس رزق تھا‘ وہ بانٹ دیتا تھا ‘ اسی لیے آج بھی اسے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ وہ یقینا‘ انسانی تاریخ کا روشن مینار ہے۔
عدل زندگی کے توازن کا‘ لازمہ اور لوازمہ ہے۔ جہاں عدل ہو گا‘ وہاں آسودگی اور سکون ہو گا۔ عدل شخصی ہو یا ریاستی‘ انسان اور معاشرے کو زندہ رکھتا ہے۔ اس کا قتل‘ انسان اور معاشرے کو زندہ در گور کر دیتا ۔ عادل زندہ رہتے ہیں۔ آتے وقت کےانسان‘ ان کی مثالیں دیتے ہیں۔ قاضی کو اس لیے معزول کر دیا گیا‘ کہ وہ حاکم کے احترام میں کیوں کھڑا ہوا‘ کیوں کہ حاکم باطور ملزم قاضی کے سامنے پیش ہوا تھا۔ عدل کے حوالہ سے‘ عمر بن عبدالعزیز کو آج بھی‘ قدم قدم پر حوالہ بنایا جاتا ہے۔
حسین ابن علی کربلا سے نہ گزرتے تو بھی اپنے علم‘ تقوی‘ سخاوت اور عبادت گزاری کے حوالہ سےانسان کے لیے معتبر رہتے یہ ہی نہیں‘ پسر علی اور نواسہءرسول ہونا کوئی معمولی اعزاز نہ تھا۔ تاہم کربلا سے گزر کر‘ جو انہوں نے عزت و اعزاز پایا وہ تاابد باقی رہے گا۔ میرا یہاں بنیادی مقصد یہ تھا‘ کہ بڑوں کی اولاد ہونا بھی‘ انسان کو باقی رکھتا ہے۔ آج بھی سادات کو عزت دی جاتی ہے۔ کیوں‘ وہ فاطمی اور نسل حسن وحسین ہیں۔ اگر وہ حسن و حسین کے رستے پر چل کر آقا کریم کے مشن کو آگے بڑھاتے ہیں‘ تو علی ہجویری اور معین الدین چشتی کی طرح آتے وقتوں میں بھی یاد رکھے جاتے ہیں ورنہ ان کی عزت لمحاتی رہتی ہے۔
ادب انسانی مزاج‘ رویے‘ ترجیحات اور احساسات کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ اپنے عہد کا مورخ بھی ہوتا ہے۔ مورکھ کا لکھا شاہوں کا قصیدہ ہوتا ہے جب کہ یہ لوگ حقائق کو اپنے ہی رنگ قلم بند کر دیتے ہیں۔ سچ کہنے کی سزا انہیں بھی ملتی رہی ہے۔ تاریخ انسانی بھلا ان بےلوث خدمت گاروں کو کیسے بھول جائے گی۔ شاہی گماشتوں کی یہاں بھی کمی نہیں رہی۔ قاری ان کے چہر وں سے واقف رہیں گے۔ رومی‘ حافظ‘ جامی‘ سعدی‘ خسرو‘ رحمان بابا‘ سچل سرمست‘ نانک‘ کبیر‘ شاہ حسین لاہوری‘ بلھے شاہ قصوری‘ غالب‘ فیض‘ حسرت‘ گوئٹے‘ ٹیگور‘ شارل بودلیئر‘ ایملی ڈکنسن‘ سڈنی ‘ شیلے‘ فینگ سیو فینگ وغیرہ کبھی بھلائے نہیں جا سکیں گے۔۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ بھول جانے کے لوگ نہیں ہیں۔
علم کا تعلق آگہی سے ہے اور آگہی سے بڑھ کر‘ کوئی نعمت نہیں۔ ہاں اس کا منفی استعمال‘ نعمت کو لعنت میں بدل دیتا ہے۔ عزازئیل کو جہاں تکبر نے ڈبویا وہاں علم کا غلط اطلاق بھی‘ اسے لے ڈوبا۔ اس کا علم آدم کو زحل کی تخلیق سمجھ رہا تھا۔ نتیجہءکار حکم عدولی کے سبب‘ مغضوب ہوا۔ علم کی مثبت تفہیم کی صورت میں‘ نہج البلاغہ‘ فتوح الغیب اور کشف المعجوب وجود میں آ کر‘ قیامت تک کے انسانوں کے لیے نشان راہ بن گئیں۔ علم کا مثبت استعمال‘ رحمت اور نعمت ٹھہرا۔ غلط استعمال‘ غلط تفہیم یا غلط اطلاق انسانیت کے لیے زحمت اور لعنت بن گیا۔ علم کے ہر دو کردار‘ تاروز حشر صفحہءانسانیت پر‘ ان ہی حوالوں سے‘ اپنا وجود باقی رکھیں گے۔
الله سے عشق کے غازی مرد‘ منصور کو بھلا تاریخ کیسے فراموش کر سکے گی‘ جس نے سچ کہنے کے جرم میں‘ دس سال قید تنہائی کی سزا کاٹی۔ اس کی پیشانی پرشکن تک نہ آئی۔ پھر قتل ہوا‘ جلایا گیا‘ راکھ اڑائی گئی۔ سقراط کا بھی یہ ہی جرم تھا۔ اس جرم کی پاداش میں قید ہوا‘ پھر زہر پلایا گیا۔ سچ کےعلم برداروں کے ساتھ یہی ہوتا آ رہا ہے۔
والدین کی اطاعت گزاری‘ بڑے اعلی درجے کی چیز ہے۔ جہاں والدین کو رسوا کرنے کی‘ ہمیشہ سے روایت چلی آتی ہے‘ وہاں ان کی خدمت گزاری اور فرماںبرداری کی مثالیں‘ بھی مل جاتی ہیں۔ یہ مثالیں آتی نسلوں کے لیے نمونہ بنی رہتی ہیں۔اس ذیل میں‘ کاسا بیانکا کی مثال آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔
عظیم کار نامے‘ وہ کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوں‘ انسانی تاریخ میں‘ اپنے پورے پہار کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ آتی نسلیں ان کے کیے سےاستفادہ کرتی ہیں۔ حکیم جالینوس کی جوارش جالینوس آج بھی اسی وقار سے باقی ہے۔ ہومیوپیتھک‘ حضور کریم کی عطائے خاص ہے اور آج شرق و غرب میں باطور طریقہءعلاج شہرہ رکھتی ہے۔ مارکونی نے ریڈیو دیا‘ اس دریافت نے مزید کے حیرت ناک دروازے کھول دیے۔ ان کارناموں کو کیسے فراموش کیا جا سکے گا۔
عشاق خواتین و حضرات کو‘ اس مرض کے مریض‘ یاد رکھیں گے۔ انہیں اور ان کے کیے کو‘ باطور سند استعمال میں رکھیں گے۔ ان کی قبریں‘ منت گاہ بنی رہیں گی۔ اس کے برعکس‘ باغیرت اور ذمے دار والدین‘ الله کے حضور دست بہ دعا رہیں گے کہ وہ کسی کو‘ ایسی گندی‘ ناہنجار‘ نکمی اور کام چور اولاد عطا نہ کرے‘ جو قیات تک ان کی رسوائی کا سبب بنی رہے۔ وہ یہ بھی دعا کریں گے‘ کہ الله ہر کسی کو نیک‘ باکردار اور انسانیت کے لیے کوئی بڑا کام کرنے والی اولاد عطا کرے۔
فرماں برداری کی زندگی‘ بڑی جان دار حقیقت ہے۔ یہ فرماں برداری مثبت ہو کہ منفی‘ زندہ رہتی ہے۔ طارق ابن زیاد نے کشتیاں جلا دینے کا حکم دیا۔ یہ حکم‘ انتہا پسندی پر مبنی تھا۔ اسلام میانہ روی کا دین ہے اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے‘ یہ حکم اسلامی ضباطے سے متصادم ہے۔ جنگی حکمت عملی کے بھی خلاف ہے۔ چاروں رستوں کا بند ہونا‘ درست نہیں۔ دشمن پر بھی چاروں رستے بند کر دینا‘ کوئی دانش مندی کی بات نہیں۔ یہ تو اپنی ہی موت کو‘ دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس کےاس غیر منطقی‘ جنونی اور تشدد آمیز حکم کو‘ مانا گیا‘ کسی نے چوں تک نہ کی۔ جو بھی سہی‘ فرماں برداری کی اس مثال کو بھلایا نہیں گیا۔
میدان مارنے والے بھی‘ انسانی تاریخ میں یاد رکھے گیے ہیں۔ مشتعل ذہن ان کے کارناموں کو پرتحسین نظروں سے دیکھتے آئے ہیں۔ تحفظ اور محض وسائل اور علاقوں پر قبضہ کے لیے‘ لڑی گئی جنگوں میں‘ زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اسکندر وسائل اور علاقوں پر قبضہ کے لیے‘ گھر سے نکلا تھا۔ وہ پوری دنیا فتح کر لینے کا‘ ریکارڈ قائم کرنا چاہتا تھا۔ اسے اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے‘ تو اسے محض ایک جنون اور وحشت ناکی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے اور غیر لوگ مرے‘ کتنا علاقہ تباہی سے دوچار ہوا۔ یہ کوئی انسانی فلاح کے متعلق کام نہ تھا۔ محمود ہو کہ بابر‘ وہ بھی اسی کے قبیلہ کے لوگ تھے۔ جو بھی سہی‘ تاریخ میں باطور فاتح‘ زندہ ہیں۔ مشتعل اور قبضہ گروپ انہیں ہمشہ یاد رکھیں گےاور ان کو داد دیتے رہیں گے۔
اقربا پروری‘ قبیلہ پالنی اور گماشتہ نوازی میں بڑے بڑے حسینوں کے نام آتے ہیں۔ قبیلہ گالنی میں بھی بڑے اعلی درجہ کے لوگ آتے ہیں۔ بابر نے بیٹے پر جان قربان کر دی۔ ہمایوں نے‘ خون کے پیاسے بھائیوں کو بار بار معاف کیا۔ شاہ جہاں نے بھائیوں اور ان کی اولادوں کو بڑی بےدردی اور سنگ دلی سے مارا۔ اورنگ زیب اس سے کم نہ رہا اور اس ذیل میں‘ باپ کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گیا۔ اس نے ناصرف بھائیوں کو قتل کیا‘ باپ کو قید میں سات سال تک قید رکھ کر اس سے بھی بازی لے گیا۔
جبر وستم اور قتل وغارت کے شائق حضرات کے کیے پر‘ مورکھ نے کتنے ہی پردے کیوں نہ ڈال دیے ہوں‘ آتے وقتوں میں‘ پردے سرکانے والے‘ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی لہو‘ ان پردوں کے رنگ سرخی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ حساس دلوں کو بنی اسرائیل کے دودھ پیتے‘ مقتول معصوم بچوں کی سسکیاں‘ قیامت تک سنائی دیتی رہیں گی اور وہ‘ بےساختہ فرعون پر لعنت بھجیں گے۔ حجاج‘ زیاد‘ مقتدر‘ ہلاکو‘ چرچل‘ مسڑ جھاڑی وغیرہ کی سفاکی اور بےدردی‘ ازہان سے کبھی محو نہ ہو پائے گی۔ لعنتیں ان کا مقدر رہیں گی۔
میں نے چند ایک کردار‘ درج بالاسطور میں درج کیے ہیں‘ ورنہ ایسے بیسیوں کردار ہیں‘ جنہیں انسانی تاریخ کی‘ بگ گنز کا‘ بلاتردد نام دیا جا سکتا ہے۔ ان کے کیے کے حوالہ سے‘ عزت اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ خیر اور شر کی راہیں متعین ہوتی ہیں۔
بہت سے لوگ‘ جیتے جی مردہ زندگی گزراتے ہیں۔ مرنے کے بعد تو خیر مرنا ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ آٹے میں نمک رہے ہیں جن کا جینا اور مرنا‘ ہمیشہ ز ندہ اور فخریہ رہتا ہے۔ زندگی اور زندگی کے بعد‘ مثبت یادیں لوگوں کے دلوں میں محبت اور احترام کے جذبے پیدا کیے رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس منفی یادوں سے متعلق لوگ آتے وقتوں میں بھی‘ نفرت کی تیز دھار پر رہتے ہیں۔ معاملات حیات میں ان کی پیروی گناہ کبیرہ سمجھی جاتی ہے جب کہ مثبت قدروں کے حامل لوگ‘ زندگی کے معاملات میں حوالہ بنے رہتے ہیں اوران کی پیروی کو درست سمجھا جاتا ہے۔ گویا وہ درستی کا معیار بن جاتے ہیں۔
اپنی حقیقت میں یہ ہی بڑے لوگ اور یہ ہی درستی کا پیمانہ ہوتے ہیں۔ ان کے بڑے ہونے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلا انسانی کردار کے دو عناصر بڑے اہم ہیں‘ پہلا سچ کہنا اور سچ کرنا‘ اس کے سوا کچھ نہ کرنا۔ دوسرا عنصر امانت کی حفاظت کرنا ہے‘ یعنی جو اور جیسا واپس لوٹا دینا۔ ہر دو معاملات میں‘ آدمی سے نادانستہ سہی‘ کمی کوتاہی ہو ہی جاتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ زیادہ سے زیادہ کو‘ انسانیت احترام دیتی آئی ہے۔ اپنے تو محبت کرتے ہی ہیں‘ غیر بلا کسی خاص کے‘ احترام نہیں کرتے۔ آپ کریم کی رسالت اور نبوت کو ایک طرف رکھیے‘ آپ کریم کے کہے کو‘ دشمن بھی مانتے تھے۔ گویا آپ کریم سچ کہتے اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے۔ دشمن‘ آپ کو صادق اورامین کے لقب سے ملقوب کرتے تھے۔ ہر دو لقب‘ انسانی تاریخ کا آج بھی حصہ ہیں۔آپ کریم کے ان شخصی عناصر سے‘ غیرمسلم‘ آج بھی متفق ہیں۔
دھن بڑی خوب صورت اور پیاری چیز ہوتی ہے۔ آدمی اسے لٹتا یا ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ مثل معروف ہے: چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔ اسے اپنے ہاتھوں‘ کسی دوسرے کے‘ بڑے اور مثبت مقصد کے لیے تیاگنا‘ ایسی معمولی بات نہیں۔ حضرت خدیجہ علاقہ کی صاحب حیثیت خاتون تھیں۔ آپ نے حضور کریم‘ جو آپ کے خاوند بھی تھے‘ کےمقصد پر سب کچھ لٹا دیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے‘ کہ خواتین اپنے مردوں کے ہر اچھے برے‘ چھوٹے بڑے کاز کےساتھ ویر کماتی آئی ہیں۔ اسے انسانی تاریخ کی‘ انمول مثال سمجھا جاتا ہے۔
ضرورت مندوں کی حاجات پوری کرنا‘ دروازے پر آئےسوالی کو خالی ہاتھ نہ لوٹانا‘ بلاشبہ قابل تحسین ہی نہیں‘ دلوں کو مسخر کر لینے والا عمل ہے۔ معاشرے میں‘ بہت سےاہل ثروت موجود ہوتے ہیں‘ لیکن بانٹ دینا‘ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے لیے‘ بہت بڑا حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ قارون کے پاس رزق کی کمی نہ تھی‘ لیکن وہ بانٹ کھانے کا حوصلہ نہ رکھتا تھا۔ حاتم طائی کے پاس رزق تھا‘ وہ بانٹ دیتا تھا ‘ اسی لیے آج بھی اسے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ وہ یقینا‘ انسانی تاریخ کا روشن مینار ہے۔
عدل زندگی کے توازن کا‘ لازمہ اور لوازمہ ہے۔ جہاں عدل ہو گا‘ وہاں آسودگی اور سکون ہو گا۔ عدل شخصی ہو یا ریاستی‘ انسان اور معاشرے کو زندہ رکھتا ہے۔ اس کا قتل‘ انسان اور معاشرے کو زندہ در گور کر دیتا ۔ عادل زندہ رہتے ہیں۔ آتے وقت کےانسان‘ ان کی مثالیں دیتے ہیں۔ قاضی کو اس لیے معزول کر دیا گیا‘ کہ وہ حاکم کے احترام میں کیوں کھڑا ہوا‘ کیوں کہ حاکم باطور ملزم قاضی کے سامنے پیش ہوا تھا۔ عدل کے حوالہ سے‘ عمر بن عبدالعزیز کو آج بھی‘ قدم قدم پر حوالہ بنایا جاتا ہے۔
حسین ابن علی کربلا سے نہ گزرتے تو بھی اپنے علم‘ تقوی‘ سخاوت اور عبادت گزاری کے حوالہ سےانسان کے لیے معتبر رہتے یہ ہی نہیں‘ پسر علی اور نواسہءرسول ہونا کوئی معمولی اعزاز نہ تھا۔ تاہم کربلا سے گزر کر‘ جو انہوں نے عزت و اعزاز پایا وہ تاابد باقی رہے گا۔ میرا یہاں بنیادی مقصد یہ تھا‘ کہ بڑوں کی اولاد ہونا بھی‘ انسان کو باقی رکھتا ہے۔ آج بھی سادات کو عزت دی جاتی ہے۔ کیوں‘ وہ فاطمی اور نسل حسن وحسین ہیں۔ اگر وہ حسن و حسین کے رستے پر چل کر آقا کریم کے مشن کو آگے بڑھاتے ہیں‘ تو علی ہجویری اور معین الدین چشتی کی طرح آتے وقتوں میں بھی یاد رکھے جاتے ہیں ورنہ ان کی عزت لمحاتی رہتی ہے۔
ادب انسانی مزاج‘ رویے‘ ترجیحات اور احساسات کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ اپنے عہد کا مورخ بھی ہوتا ہے۔ مورکھ کا لکھا شاہوں کا قصیدہ ہوتا ہے جب کہ یہ لوگ حقائق کو اپنے ہی رنگ قلم بند کر دیتے ہیں۔ سچ کہنے کی سزا انہیں بھی ملتی رہی ہے۔ تاریخ انسانی بھلا ان بےلوث خدمت گاروں کو کیسے بھول جائے گی۔ شاہی گماشتوں کی یہاں بھی کمی نہیں رہی۔ قاری ان کے چہر وں سے واقف رہیں گے۔ رومی‘ حافظ‘ جامی‘ سعدی‘ خسرو‘ رحمان بابا‘ سچل سرمست‘ نانک‘ کبیر‘ شاہ حسین لاہوری‘ بلھے شاہ قصوری‘ غالب‘ فیض‘ حسرت‘ گوئٹے‘ ٹیگور‘ شارل بودلیئر‘ ایملی ڈکنسن‘ سڈنی ‘ شیلے‘ فینگ سیو فینگ وغیرہ کبھی بھلائے نہیں جا سکیں گے۔۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ بھول جانے کے لوگ نہیں ہیں۔
علم کا تعلق آگہی سے ہے اور آگہی سے بڑھ کر‘ کوئی نعمت نہیں۔ ہاں اس کا منفی استعمال‘ نعمت کو لعنت میں بدل دیتا ہے۔ عزازئیل کو جہاں تکبر نے ڈبویا وہاں علم کا غلط اطلاق بھی‘ اسے لے ڈوبا۔ اس کا علم آدم کو زحل کی تخلیق سمجھ رہا تھا۔ نتیجہءکار حکم عدولی کے سبب‘ مغضوب ہوا۔ علم کی مثبت تفہیم کی صورت میں‘ نہج البلاغہ‘ فتوح الغیب اور کشف المعجوب وجود میں آ کر‘ قیامت تک کے انسانوں کے لیے نشان راہ بن گئیں۔ علم کا مثبت استعمال‘ رحمت اور نعمت ٹھہرا۔ غلط استعمال‘ غلط تفہیم یا غلط اطلاق انسانیت کے لیے زحمت اور لعنت بن گیا۔ علم کے ہر دو کردار‘ تاروز حشر صفحہءانسانیت پر‘ ان ہی حوالوں سے‘ اپنا وجود باقی رکھیں گے۔
الله سے عشق کے غازی مرد‘ منصور کو بھلا تاریخ کیسے فراموش کر سکے گی‘ جس نے سچ کہنے کے جرم میں‘ دس سال قید تنہائی کی سزا کاٹی۔ اس کی پیشانی پرشکن تک نہ آئی۔ پھر قتل ہوا‘ جلایا گیا‘ راکھ اڑائی گئی۔ سقراط کا بھی یہ ہی جرم تھا۔ اس جرم کی پاداش میں قید ہوا‘ پھر زہر پلایا گیا۔ سچ کےعلم برداروں کے ساتھ یہی ہوتا آ رہا ہے۔
والدین کی اطاعت گزاری‘ بڑے اعلی درجے کی چیز ہے۔ جہاں والدین کو رسوا کرنے کی‘ ہمیشہ سے روایت چلی آتی ہے‘ وہاں ان کی خدمت گزاری اور فرماںبرداری کی مثالیں‘ بھی مل جاتی ہیں۔ یہ مثالیں آتی نسلوں کے لیے نمونہ بنی رہتی ہیں۔اس ذیل میں‘ کاسا بیانکا کی مثال آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔
عظیم کار نامے‘ وہ کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوں‘ انسانی تاریخ میں‘ اپنے پورے پہار کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ آتی نسلیں ان کے کیے سےاستفادہ کرتی ہیں۔ حکیم جالینوس کی جوارش جالینوس آج بھی اسی وقار سے باقی ہے۔ ہومیوپیتھک‘ حضور کریم کی عطائے خاص ہے اور آج شرق و غرب میں باطور طریقہءعلاج شہرہ رکھتی ہے۔ مارکونی نے ریڈیو دیا‘ اس دریافت نے مزید کے حیرت ناک دروازے کھول دیے۔ ان کارناموں کو کیسے فراموش کیا جا سکے گا۔
عشاق خواتین و حضرات کو‘ اس مرض کے مریض‘ یاد رکھیں گے۔ انہیں اور ان کے کیے کو‘ باطور سند استعمال میں رکھیں گے۔ ان کی قبریں‘ منت گاہ بنی رہیں گی۔ اس کے برعکس‘ باغیرت اور ذمے دار والدین‘ الله کے حضور دست بہ دعا رہیں گے کہ وہ کسی کو‘ ایسی گندی‘ ناہنجار‘ نکمی اور کام چور اولاد عطا نہ کرے‘ جو قیات تک ان کی رسوائی کا سبب بنی رہے۔ وہ یہ بھی دعا کریں گے‘ کہ الله ہر کسی کو نیک‘ باکردار اور انسانیت کے لیے کوئی بڑا کام کرنے والی اولاد عطا کرے۔
فرماں برداری کی زندگی‘ بڑی جان دار حقیقت ہے۔ یہ فرماں برداری مثبت ہو کہ منفی‘ زندہ رہتی ہے۔ طارق ابن زیاد نے کشتیاں جلا دینے کا حکم دیا۔ یہ حکم‘ انتہا پسندی پر مبنی تھا۔ اسلام میانہ روی کا دین ہے اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے‘ یہ حکم اسلامی ضباطے سے متصادم ہے۔ جنگی حکمت عملی کے بھی خلاف ہے۔ چاروں رستوں کا بند ہونا‘ درست نہیں۔ دشمن پر بھی چاروں رستے بند کر دینا‘ کوئی دانش مندی کی بات نہیں۔ یہ تو اپنی ہی موت کو‘ دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس کےاس غیر منطقی‘ جنونی اور تشدد آمیز حکم کو‘ مانا گیا‘ کسی نے چوں تک نہ کی۔ جو بھی سہی‘ فرماں برداری کی اس مثال کو بھلایا نہیں گیا۔
میدان مارنے والے بھی‘ انسانی تاریخ میں یاد رکھے گیے ہیں۔ مشتعل ذہن ان کے کارناموں کو پرتحسین نظروں سے دیکھتے آئے ہیں۔ تحفظ اور محض وسائل اور علاقوں پر قبضہ کے لیے‘ لڑی گئی جنگوں میں‘ زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اسکندر وسائل اور علاقوں پر قبضہ کے لیے‘ گھر سے نکلا تھا۔ وہ پوری دنیا فتح کر لینے کا‘ ریکارڈ قائم کرنا چاہتا تھا۔ اسے اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے‘ تو اسے محض ایک جنون اور وحشت ناکی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے اور غیر لوگ مرے‘ کتنا علاقہ تباہی سے دوچار ہوا۔ یہ کوئی انسانی فلاح کے متعلق کام نہ تھا۔ محمود ہو کہ بابر‘ وہ بھی اسی کے قبیلہ کے لوگ تھے۔ جو بھی سہی‘ تاریخ میں باطور فاتح‘ زندہ ہیں۔ مشتعل اور قبضہ گروپ انہیں ہمشہ یاد رکھیں گےاور ان کو داد دیتے رہیں گے۔
اقربا پروری‘ قبیلہ پالنی اور گماشتہ نوازی میں بڑے بڑے حسینوں کے نام آتے ہیں۔ قبیلہ گالنی میں بھی بڑے اعلی درجہ کے لوگ آتے ہیں۔ بابر نے بیٹے پر جان قربان کر دی۔ ہمایوں نے‘ خون کے پیاسے بھائیوں کو بار بار معاف کیا۔ شاہ جہاں نے بھائیوں اور ان کی اولادوں کو بڑی بےدردی اور سنگ دلی سے مارا۔ اورنگ زیب اس سے کم نہ رہا اور اس ذیل میں‘ باپ کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گیا۔ اس نے ناصرف بھائیوں کو قتل کیا‘ باپ کو قید میں سات سال تک قید رکھ کر اس سے بھی بازی لے گیا۔
جبر وستم اور قتل وغارت کے شائق حضرات کے کیے پر‘ مورکھ نے کتنے ہی پردے کیوں نہ ڈال دیے ہوں‘ آتے وقتوں میں‘ پردے سرکانے والے‘ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی لہو‘ ان پردوں کے رنگ سرخی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ حساس دلوں کو بنی اسرائیل کے دودھ پیتے‘ مقتول معصوم بچوں کی سسکیاں‘ قیامت تک سنائی دیتی رہیں گی اور وہ‘ بےساختہ فرعون پر لعنت بھجیں گے۔ حجاج‘ زیاد‘ مقتدر‘ ہلاکو‘ چرچل‘ مسڑ جھاڑی وغیرہ کی سفاکی اور بےدردی‘ ازہان سے کبھی محو نہ ہو پائے گی۔ لعنتیں ان کا مقدر رہیں گی۔
میں نے چند ایک کردار‘ درج بالاسطور میں درج کیے ہیں‘ ورنہ ایسے بیسیوں کردار ہیں‘ جنہیں انسانی تاریخ کی‘ بگ گنز کا‘ بلاتردد نام دیا جا سکتا ہے۔ ان کے کیے کے حوالہ سے‘ عزت اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ خیر اور شر کی راہیں متعین ہوتی ہیں۔