کردہ ناکردہ
انسان کو‘ الله نے احسن تخلیق کیا اور اس کی جگہ جگہ بڑائی بیان کی ہے۔ فرشتے کیا‘ مجھے بھی‘ جو ان کا سردار تھا‘ اس مٹی سے بنے انسان کو‘ سجدہ کرنے کو کہا گیا۔ کمال ہے‘ کل تک میں سرداری کر رہا تھا‘ آج داری کے لیے کہا جا رہا تھا۔ اب بھلا میں‘ زحل کی گھڑی میں تخلیق کی گئی مخلوق کو‘ سجدہ کیوں کرتا۔ الله اسے مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق قرار دیتا ہے۔ اس کے کارنامے‘ مشتری کی بہترین ساعت والے نہیں ہیں۔ اپنا کیا‘ اپنے سر پر نہیں لیتا اوروں کے سر پر رکھ دیتا ہے‘ یا پھر میرے نام کر دیتا ہے حالاں کہ اس بات یا معاملے کا میری ذات سے‘ کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔
مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تو دیکھو‘ قتل کرتا ہے‘ منصف کے سامنے اپنے کارنامے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔ وکیل یہ جانتے ہوئے‘ کہ اس کا موکل قاتل ہے‘ وکالت کر رہا ہوتا ہے‘ ٹھوس دلائل پیش کر رہا ہوتا ہے۔ قاتل کی طرف داری کرتے ہوئے‘ عجیب محسوس نہیں کرتا‘ ضمیر پر رائی بھر بوجھ نہیں لیتا۔ مقدمہ جیت جانے کی صورت میں‘ خوشیاں مناتا ہے۔ چند سکوں کے لیے‘ کسی کا قتل اپنے سر پر لینے میں‘ عار نہیں سمجھتا۔ ایسے وکیل کو کامیاب وکیل قرار دیا جاتا ہے۔ جرم پیشہ لوگ اپنی جگہ‘ سماج بھی اسے‘ عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
رشوت‘ ملاوٹ‘ ہیرا پھیری‘ ناپ تول میں کمی اور دو نمبری کمائی سے‘ کوٹھیاں کاریں بنا لینے والے‘ اسی کمائی سے حج پر جانے ہیں۔ وہاں جا کر مجھے کنکر مارنے والے باعزت اور معزز ہیں۔ آخر کس منہ سے وہ یہ کرتے ہیں۔ میں ملعون ہوں‘ شاید اسی لیے وہ آلودہ ہاتھوں سے‘ مجھے کنکریاں مارتے ہیں۔ جتنی دیر اور جس حساب سے‘مجھے کنکریاں ماری جا رہی ہیں‘ میرا تو کچومر ہی نکل گیا ہوتا۔ حرام کی کمائی سے آلودہ ہاتھوں کی کنکریاں‘ مجھے لطف سے ہم کنار کرتی ہیں۔ ان کے سبب مجھے استحقام میسرآیا ہے‘ گویا یہ مجھے مزید شکتی دان کرتی آئی ہیں۔
بلال‘ بورذر سلمان وغیرہ سے لوگوں کا وجود‘ مجھے ازیت دیتا تھا۔ اب ان سے لوگ نہیں رہے۔ یہ الله کو یاد ہی نہیں کرتے اور ناہی اپنے الله سے‘ آگہی رکھتے ہیں۔ چوری‘ ہیرا پھیری اور دونمبری پر جانے سے پہلے اپنے الله کو یاد کرتے ہیں۔ الله کو یاد کرنے کا بھی یہ خوب موقع ہوتا ہے‘ کہتے ہیں‘ یاالله تیرا ہی آسرا اور سہارا ہے۔ کسی نیک کے ساتھ واسط ہڑے اور سلامتی سے‘ کھیسہ بھر کر واپس آئیں۔ وہ سلامتی سے کھیسہ بھر کر‘ واپس آتے بھی ہیں۔
پکڑے جانے یا ناکامی کی صورت میں‘ مجھے کوستے ہیں۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ میں کب چاہوں گا‘ کہ دونمبری کرنے والے کو‘ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کی کامیابی‘ میری کامیابی ہے‘ اس کی ناکامی‘ میری ناکامی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے‘ مجھے منفی کردار سمجھتے ہیں۔ منفی پر اکسانے والا بھی‘ مجھے قرار دیتے ہیں۔ منفی پر ناکامی پر بھی‘ مجھے کوسنے دیتے ہیں۔ میں فرعون کی‘ موسی سے ٹھنی پر خوش تھا۔ دریا میں اترنے کے لیے‘ میں نے اسے کب کہا تھا‘ وہ خود ہی‘ اپنی مرضی سے‘ دریا میں اترا تھا۔ اس کی موت‘ میرے وارے میں نہ تھی۔ اس کا یہ کیا بھی میرے کھاتے میں ڈال دیں‘ کیوں کہ ہر خرابی کا میں ہی ذمہ دار ہوں۔ یہ میرے کھاتے میں کیوں ڈالا نہیں جاتا۔
کل ہی کی بات ہے‘ کہ ایک دکان دار دودھ ابال رہا تھا‘ ساتھ میں‘ دوسرے دکان دار سے‘ باتیں بھی کر رہا تھا۔ بےخیالی میں‘ کھرپا مارتے‘ دودھ کے کچھ چھیٹے‘ سامنے دیوار پر جا پڑے۔ مجھے دیوار پر انگلی سے دودھ لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ ہم سائے کے دکان دار سے بھی‘ وہ اپنی مرضی سے‘ اپنی مرضی کی باتیں کر رہا تھا۔ دیوار پر دودھ کے چھینٹے‘ اس کی بےخیالی‘ بےتوجہگی اور غفلت کے باعث پڑے۔ دودھ پر مکھیاں آ ہی جاتی ہیں‘ یہ فطری سی بات ہے۔ مکھیاں جہاں ہوں گی‘ وہاں کرلیاں آئیں گی ہی۔ چھپکلی دیکھ کر‘ بلا یا بلی کیسے چپکے رہیں گے۔
ہوا کیا‘ دکان دار کا بلا‘ چھپکلیوں پر پل پڑا۔ اتفاق دیکھیے‘ عین اسی وقت‘ سیٹھ نثار اپنے ٹومی جی کے ساتھ‘ سٹرک پر مٹر گشت کرتے گزر رہے تھے۔ ٹومی جی نے‘ جوں ہی بلے کو دیکھا‘ وہ پوری رفتار سے‘ بلے پر جھپٹا۔ چھپکلی کے منہ میں مکھی اور بلے کے منہ میں چھپکلی تھی۔ تینوں ٹومی جی کی بروقت مثبت کاروائی پر‘ دودھ میں جا گرے۔ دکان دار نے غصے میں آ کر‘ کھرپا ٹومی جی کے سر پر جڑ دیا اور وہ موقع پر ہی‘ ٹکی ہو گیا۔۔ یہ کتیت کی ہی نہیں‘ سیٹھیت کی بھی‘ کھلی اور برملا‘ توہین تھی۔ سیٹھ صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ دکان دار کے سر کو گولی سے اڑا دیا۔ بلاشبہ وہ اسی لائق تھا‘ آدمی میں برداشت کا مادہ ہونا چاہیے۔ برداشت کی کمی کے سبب‘ وہ موت کے منہ میں گیا‘ اس میں میرا کوئی عمل دخل نہ تھا۔
اس سارے معاملے میں‘ میرا کیا قصور تھا۔ دوکان دار‘ ہم سایہ دوکان دار‘ دودھ‘ مکھی‘ بلا‘ ٹومی جی‘ سیٹھ صاحب سے میرا کیا لینا دینا۔ یہاں بھی‘ مجھے ہی دشنام کیا گیا۔ کہا گیا غصہ حرام ہوتا ہے‘ دوکان دار پر شیطان غالب آ گیا‘ تب ہی تو اس نے‘ ٹومی جی کے سر پر کھرپا دے مارا۔ ٹومی جی بےلگامے کیوں ہوئے‘ سیٹھ کو گرفت مضبوط رکھنی چاہیے تھی‘ یہ کوئی کہنے کوتی تیار نہیں۔ دکان دار کی غفلت کسی کو نظر ہی نہیں آتی۔ مچھر اور مکھیاں مارنےکی‘ ذمہ داری کس ہے۔ مکھیاں تھیں ہی کیوں۔ سب کو معلوم ہے‘ کسی کا نام لیا تو ناسیں سلامت نہیں رہیں گی۔ کردہ ناکردہ مجھ پر ڈالتے ہیں۔ یہ انصاف ہے اس اشرف مخلوق کا‘ اپنا کیا اپنے سر لے اور قبولنے میں عار محسوس نہ کرے‘ تب پتا چلے کہ یہ عظیم مخلوق ہے۔
چوری خود کرے‘ ڈالے کسی اور پر‘ یہ کس قسم کی انسانیت‘ دلیری اور جواں مردی ہے۔ میں کچھ کروں تب بھی مجرم‘ ناکروں تب بھی مجرم۔ واہ کیا عجب رنگ ہیں‘ اس عظیم مخلوق کے۔ وہ کچھ کر گزرتی ہے‘ جو میرے بھی وہ گمان نہیں ہوتا۔ میری ہدایت کے لیے‘ کوئی موسی کوئی عیسی نہیں آیا‘ ۔سب اسی کی ہدایت کے لیے آتے رہے ہیں۔
Comment