اپنے اکرام صاحب ڈاکٹر مس کال کی گرہ میں
پروفیسر محمد اکرام ہوشیارپوری گورنمنٹ اسلامیہ کالج‘ قصور میں صدر شعبہءاردو تھے‘ اس حوالہ سے‘ میرا ان سے تعلق واسطہ تھا۔ یہ تعلق ملازمت کا تھا۔ اس تعلق کے علاوہ‘ ایک ذاتی تعلق بھی تھا۔ وہ سنجیدہ طبعیت کے مالک تھے اور غیرسنجیدہ گفتگو‘ پسند نہیں کرتے تھے۔ ہم دونوں میں‘ ایک بڑی اہم سانجھ تھی۔ کتاب سے‘ ان کا رشتہ کبھی کمزور نہیں پڑا۔ میرا خیال ہے‘ وہ قبر میں بھی کتاب بینی کر رہے ہوں گے‘ کیوں کہ منہ سے لگی چھٹتی نہیں‘ گویا یہ فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔
میں آج بھی‘ دوسرے تیسرے دن‘ ان کی قبر پر حاضر ہوتا رہتا ہوں اور پوچھتا ہوں‘ کیوں صاحب‘ کون سی کتاب مطالعہ میں جا رہی ہے۔ واپسی جواب تو خیر ملتا نہیں‘ ہاں مجھے اندزہ ہے‘ کہ میر و غالب اور اقبال پر ہی مغز ماری ہو رہی ہو گی۔ ہاں تو عرض کر رہا تھا کہ ہم دونوں میں‘ کتاب ہی سانجھ کا ذریعہ تھی۔ میں بھی کتاب کا رہا ہوں‘ اس لیے‘ ہماری الله کے فضل سے‘ خوب‘ بلکہ بہت خوب نبھی۔
وہ مر گیے ہیں‘ خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ مرحوم سچے کھرے اسلام دوست اور پاکستان سے بےتحاشا محبت کرنے والے تھے۔ پرخلوص‘ مفید اور سودمند مشوروں سے‘ نوازے تھے۔ جس چیز کا مطالعہ کرتے‘ اس کی زبر زیر تک سے آگاہ کرکے‘ اپنی رائے دیتے اور اپنے مخاطب کی‘ رائے طلب کرتے۔ کسی مقام پر سنجیدہ اختلاف‘ ان کی طبع پر ناگوار نہیں گزرتا تھا۔ وہ اختلاف کو‘ پوری طرح چبا اور ہضم کرکے ہی‘ اپنے خیال کا اظہار کرتے۔ بہت کم لوگ‘ انہیں بطور شخص جانتے ہوں گے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے‘ ساتھیوں میں سے‘ ایک آدھ نے‘ ان کے کثیر مطالعہ اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا ہو گا۔ وہ دیکھنے میں بڑے سخت‘ لیکن داخلی سطع پر‘ ریشم سے زیادہ ملائم اور محبت کرنے والے تھے۔
مرحوم صرف پڑھنے کے ہی شوقین نہیں تھے‘ بلکہ لکھتے بھی تھے۔ ہمارے ایک مرحوم کالج ساتھی‘ ہمیں ایک دوسرے کے پاس دیکھ کر‘ طنزا اور مزاحا کہا کرتے تھے‘ پڑھے لکھے بیٹھے ہیں۔ پڑھا اکرام صاحب کے لیے‘ اور میرے لیے لکھا استعمال کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں‘ مجھے ان کی۔۔۔۔۔۔۔ کتاب پاکستان اور پاکستانیت۔۔۔۔۔۔۔ پر بھی لکھنے کا موقع ملا۔ اب مجھے یاد نہیں‘ میری یہ تحریر کس رسالے یا اخبار میں چھپی‘ تاہم میری کتاب اصول اور جائزے میں شامل ہے۔
اس حوالہ سے‘ وہ صرف پڑھے ہوئے ہی نہ تھے‘ بلکہ لکھے ہوئے بھی تھے۔ ان کے ہر لفظ سے‘ پکا مسلمان اور سچا پاکستانی دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ‘ پاکستانیت ان کی روح میں شامل تھی۔
وہ کسی کے منہ سے‘ ایک لفظ بھی‘ پاکستان کے خلاف برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ پاکستان کے حوالہ سے‘ کوئی اچھی خبر سنتے تو‘ مسرور ہو جاتے تھے۔ کسی نئی ایجاد یا دریافت پر‘ سارا سارا دن خوش ہوتے اور اسی کے حوالہ سے‘ بات کرنے کا جواز نکال لیتے۔ موجد کے فرشتوں کو کبھی خبر نہ ہوتی‘ کہ لائبریری میں بیٹھا ایک شخص‘ اس کے کارنامے سے‘ کس قدر خوش ہو رہا ہے۔
مغرب کا مجھے کچھ پتہ نہیں‘ لیکن ہمارے ہاں کا رواج ہے‘ کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد‘ اس کے بچھلے کفن دفن کے بعد‘ اس کے چھوڑے کو تقسیم کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ تقسیم پر جھگڑ پڑتے ہیں۔ یہ جھگڑنا‘ پانی پت کے نقشے سامنے لے آتا ہے۔ ادیب شاعر یا مطالعہ خور کے پاس‘ منوں کے حساب سے ردی جمع ہوئی ہوتی ہے‘ جسے وہ ساری عمر‘ سینے سے لگائے رکھتا ہے۔ اس کے پچھلے اس ردی کے دام کھرے کرکے‘ کمرے یا گیلری کا بہتر اور بامعنی استعمال نکال لیتے ہیں۔ اسی میں‘ انکی مسروری پنہاں ہوتی ہے۔
پروفیسر صاحب کی خوش قسمتی تھی‘ کہ ان کی اولاد پڑھی لکھی ہے۔ ان میں ایک بیٹا‘ اردو سے متعلق ہے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ ان کا ذخیرہء علم‘ ردی میں‘ ردی کے بھاؤ نہیں گیا بلکہ محفوظ کر لیا گیا۔ اس حوالہ سے وہ شاباش کے مستحق ہیں۔
سننے میں آ رہا ہے کہ سردست ادب ادیب اور پاکستانیت کمپوز کروایا جا رہا ہے۔ کمپوزنگ پر اٹھنے والا خرچہ بچے اٹھا رہے ہیں۔ بڑی بات ہے۔ ہاں البتہ یہ کام‘ چور اور بددیانت ڈاکٹر مس کال‘ کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے‘ دیکھیے کیا بنتا ہے۔ یہ ہاتھ مجھے بھی لگ چکے‘ جو مال ہٹرپ اور میری عمر بھر کی جمع پونجی اڑا چکے ہیں۔ موقف معقول اختیار کیا گیا ہے‘ بابے کا دور ختم ہو گیا ہے‘ اس نے یہ ردی کیا کرنی ہے۔ اب ہمارا دور ہے‘ اب ہم نے عمر گزارنی ہے۔
بابوں کی چیزیں‘ ان کے بچوں کی ہوتی ہیں۔ اہل قلم سب کے ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں‘ ان کی اولاد فائدہ اٹھائے‘ یا اپنے نام سے چھاپے۔ سقراط سب کا تھا‘ افلاطون نے اس کا کہا جمع کیا‘ بڑی بات ہے‘ اب یہ قاری کا کام ہے‘ کہ کون سا سقراط کا ہے اور کون سا افلاطون کا‘ خود پہچاننے کی کوشش کرئے۔ اس کے لیے نظریہ اور اسلوب کو پیمانہ بنانا قاری کی ذمہ داری ہے۔