فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ
از پروفیسر یونس حسن
ڈاکٹر مقصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور غالب شناس ہیں۔ غالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ جناب لطیف اشعر ان پر اس حوالہ سے ایم فل سطح کا تحقیقی مقالہ بھی رقم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود حسنی نے لفظیات غالب کے تہذیبی‘ تمدنی‘ اصطلاحی‘ ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر نہایت جامع اور وقع کام کیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔ ابھی تک غالب کی لسانیات پر تحقیقی کام دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کے کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے کہ آج تک غالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا ہے جبکہ غالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں کیا۔
لسانیات غالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ غالب۔۔۔۔ بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لغات غالب ہے۔ اس مخطوطے کے حوالہ سے لفظات غالب کی تفہیم میں شارح کو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور وہ تفہیم میں زیادہ آسانی محسوس کر سکتا ہے۔ غالب کے ہاں الفظ کا استعمال روایت سے قطعی ہٹ کر ہوا ہے۔ روایتی اور مستعمل مفاہیم میں اشعار غالب کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ لغات بھی عجب ڈھنگ سے ترتیب دی ہے۔ لفظ کو عہد غالب سے پہلے‘ عہد غالب اور عہد غالب کے بعد تک دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک غالب شاعر فردا ہے۔ لفظ کے مفاہیم اردو اصناف شعر میں بھی تلاش کیے گیے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید صنف شعر ہائیکو اور فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ امکانی معنی بھی درج کر دیے گیے ہیں۔
اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقصود حسنی کی لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تلاش کا پتا جلتا ہے۔ اس تلاش کے سفر میں ان کی ریاضت‘ مغز ماری‘ لگن اور سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے لفظ کی تفہیم کے لیے‘ اردو کی تمام شعری اصناف کو کھنگال ڈالا ہے۔ ایک ایک لفظ کے درجنوں اسناد کے ساتھ معنی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ماضی سے تادم تحریر شعرا کے کلام سے استفادہ کیا گیا ہے۔ گویا لفظ کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب توجہ مبذول کراتا ہے کہ غالب کو محض سطعی انداز سے نہ دیکھیں۔ اس کے کلام کی تفہیم سرسری مطالعے سے ہاتھ آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی کی یہ کاوش فکر و تلاش اسی امر کی عملی دلیل ہے۔ انہوں غالب کے قاری کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں وہ بلاشبہ لایق تحسین ہیں۔
ماضی میں غالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ آج بھی ادبی حلقوں میں تشریح طلب مصرعے کا درجہ رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ غالب مستقبل قریب و بعید میں اپنی ضرورت اور اہمیت نہیں کھوئے گا یا اس پر ہونے والے کام کو حتمی قرار نہیں دے دیا جائے گا۔ جہاں تفہیم غالب کی ضرورت باقی رہے گی وہاں ڈاکٹر مقصود حسنی کی فرہنگ غالب کو بنیادی ماخذ کا درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم غالب کی ذیل میں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا جاتا رہے گا۔
اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا غالب فہمی کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب تک یہ مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا غالب شناسی تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک اس میں موجود گوشوں کا پہنچنا غالب شناسی کا تقاضا ہے کیونکہ جب تک یہ نادر مخطوطہ چھپ کر سامنے نہیں آ جاتا اس کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ غالب کے حوالہ سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات غالب پر کام کرنے والوں میں نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لغت آ سے شروع ہو کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔
از پروفیسر یونس حسن
ڈاکٹر مقصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور غالب شناس ہیں۔ غالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ جناب لطیف اشعر ان پر اس حوالہ سے ایم فل سطح کا تحقیقی مقالہ بھی رقم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود حسنی نے لفظیات غالب کے تہذیبی‘ تمدنی‘ اصطلاحی‘ ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر نہایت جامع اور وقع کام کیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔ ابھی تک غالب کی لسانیات پر تحقیقی کام دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کے کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے کہ آج تک غالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا ہے جبکہ غالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں کیا۔
لسانیات غالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ غالب۔۔۔۔ بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لغات غالب ہے۔ اس مخطوطے کے حوالہ سے لفظات غالب کی تفہیم میں شارح کو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور وہ تفہیم میں زیادہ آسانی محسوس کر سکتا ہے۔ غالب کے ہاں الفظ کا استعمال روایت سے قطعی ہٹ کر ہوا ہے۔ روایتی اور مستعمل مفاہیم میں اشعار غالب کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ لغات بھی عجب ڈھنگ سے ترتیب دی ہے۔ لفظ کو عہد غالب سے پہلے‘ عہد غالب اور عہد غالب کے بعد تک دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک غالب شاعر فردا ہے۔ لفظ کے مفاہیم اردو اصناف شعر میں بھی تلاش کیے گیے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید صنف شعر ہائیکو اور فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ امکانی معنی بھی درج کر دیے گیے ہیں۔
اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقصود حسنی کی لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تلاش کا پتا جلتا ہے۔ اس تلاش کے سفر میں ان کی ریاضت‘ مغز ماری‘ لگن اور سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے لفظ کی تفہیم کے لیے‘ اردو کی تمام شعری اصناف کو کھنگال ڈالا ہے۔ ایک ایک لفظ کے درجنوں اسناد کے ساتھ معنی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ماضی سے تادم تحریر شعرا کے کلام سے استفادہ کیا گیا ہے۔ گویا لفظ کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب توجہ مبذول کراتا ہے کہ غالب کو محض سطعی انداز سے نہ دیکھیں۔ اس کے کلام کی تفہیم سرسری مطالعے سے ہاتھ آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی کی یہ کاوش فکر و تلاش اسی امر کی عملی دلیل ہے۔ انہوں غالب کے قاری کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں وہ بلاشبہ لایق تحسین ہیں۔
ماضی میں غالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ آج بھی ادبی حلقوں میں تشریح طلب مصرعے کا درجہ رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ غالب مستقبل قریب و بعید میں اپنی ضرورت اور اہمیت نہیں کھوئے گا یا اس پر ہونے والے کام کو حتمی قرار نہیں دے دیا جائے گا۔ جہاں تفہیم غالب کی ضرورت باقی رہے گی وہاں ڈاکٹر مقصود حسنی کی فرہنگ غالب کو بنیادی ماخذ کا درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم غالب کی ذیل میں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا جاتا رہے گا۔
اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا غالب فہمی کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب تک یہ مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا غالب شناسی تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک اس میں موجود گوشوں کا پہنچنا غالب شناسی کا تقاضا ہے کیونکہ جب تک یہ نادر مخطوطہ چھپ کر سامنے نہیں آ جاتا اس کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ غالب کے حوالہ سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات غالب پر کام کرنے والوں میں نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لغت آ سے شروع ہو کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔