ادریس شرلی
بعض لوگوں کو‘ معاملے کا کچھ پتا نہیں ہوتا‘ اور ان کا معاملے سے‘ دور کا بھی‘ تعلق واسطہ نہیں ہوتا‘ لیکن وہ اس میں ٹانگ اڑانا‘ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ لوہڑا یہ کہ وہ بلاطلب‘ اپنا مشورہ دینا نہیں بھولتے۔ ان کی بلاطلب مشاورت‘ معاملے کو مزید الجھا دیتی ہے۔ سنورنے کی بجائے‘ معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ روکتے رہو‘ ٹوکتے رہو‘ لیکن وہ اپنا لچ تل کر ہی دم لیتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال؛ ہمارے ادریس صاحب ہیں‘ جو بن بلائے چلے آتے ہیں۔ ان سے کچھ دریافت کرو‘ یا نہ کرو‘ لیکن وہ اپنے منحوس مشورے‘ دینے سے باز نہیں آتے۔
کچھ ہی دنوں کی بات ہے‘ کہ رحمت نے اپنی بیوی کو‘ شک کی بنیاد پر‘ گھر سے نکال دیا۔ بات طلاق تک‘ آ پہنچی۔ بدکرداری کے الزام میں‘ طلاق ہو جانے سے‘ مائرہ کا مستقبل‘ تاریکیوں کی نذر ہو جانا تھا۔ اس کا باپ اور بھائی‘ سخت پریشان تھے۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ دو تین بار پنچایت بھی ہوئی‘ لیکن رحمت کسی بات پر ہی نہ آتا تھا۔ آخر معاملہ حاجی معظم کے علم میں لایا گیا‘ اور باور کرا دیا گیا‘ یہ الزام قطعی بے بنیاد ہے۔ اس الزام کا‘ حقیحت سے‘ دور بھی کا واسطہ نہیں۔ حاجی صاحب‘ علاقے کے ممبر تھے۔ انہوں نے‘ تفصیہ کرا دینے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے صلح صفائی کی کوشش کی۔ بات قسم پر آ گئی۔ رحمت نے‘ نبی بخش اور احمد دین‘ کو قسمیا متخب کیا۔ جمعہ کا دن قسم کا ٹھہرا۔
نبی بخش اور احمد دین نے‘ معاملے کی‘ ہر پہلو سے‘ جانچ پڑتال کی۔ پھر وہ‘ قسم دینے پر آمادہ ہو گیے۔ جمعہ کے روز رحمت‘ حاجی صاحب اور قسمیے بھی آ گیے۔ قسم ہونے کو تھی‘ کہ ادریس صاحب آ ٹپکے‘ اٹھتے ہی بولے‘ یار اس میں قسم لینے والی کون سی بات ہے‘ کوئی ناکوئی بات ہوتی ہی ہے‘ تب پبلک میں آتی ہے۔ دوسرا چور‘ یار اور ٹھگ کی قسم دینا‘ کھلی حماقت ہے۔ قسمیے تو اپنی بات پر کھڑے رہے‘ لیکن رحمت تھالی کے بیگن کی طرح‘ تلک گیا۔ اجڑتا گھر بستے بستے رہ گیا۔ سب نے‘ ادریس صاحب پر بڑی لعنتیں بھیجیں۔ بزرگ ہو کر‘ فساد کا دروازہ کھولتے ہو‘ اس سے کیا ہوتا ہے‘ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔
ان کی اس عادت سے‘ ان کے گھر والے بھی‘ نالاں رہتے ہیں۔ غمی‘ خوشی کے موقع پر‘ وہ انہیں گھر پر چھوڑ جانے کی‘ کوشش کرتے ہیں‘ لیکن ادریس صاحب‘ سب سے پہلے تیار ہو کر‘ دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی سگی بہن کی بیٹی کی شادی تھی۔ یہ بھی مدعو تھے۔ انہیں بھانجی کو‘ کچھ ناکچھ تو دینا چاہیے تھا۔ سو روپے کے سکے‘ بھانجی کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ وہ دلہن بنی ہوئی تھی‘ اس لیے چپ رہی۔ یہ بالکل بچوں کی سی حرکت تھی۔ ان کے گھر والے بڑے شرمندہ ہوئے۔
کھانا ڈٹ کر کھایا‘ کھا پی کر شرلی یہ چھوڑی‘ کہ پکائی کچھ بہتر نہ تھی۔ چپ رہا جا سکتا تھا‘ انیس بیس تو ہو ہی جاتی ہے۔ چلتے چلتے‘ زوردار قہقہے میں‘ دلہا سے کہا‘ سواری کے لیے‘ تو ضرور کچھ ملا ہو گا۔ بہن اور بہنوئی رونے والے ہو گیے۔ سیانے تھے‘ پی گیے اور اونچی آواز تک نہ نکالی۔
سگے بیٹے کا سسر مر گیا‘ یہ بھی جنازہ میں شریک ہوئے۔ بھورے پر بھی بیٹھے۔ انہوں نے بڑی عزت دی۔ ٹیک کے لیے‘ تکیہ دیا۔ سامنے‘ ٹھنڈے پانی کا گلاس بھی رکھا۔ انہوں نے بڑے بھرپور انداز اور جعلی دل سوزی سے‘ افسوس بھی کیا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے ان کا سگا بھائی‘ چل بسا ہو۔ ایک دو‘ مگرمچھ کے آنسو بھی گرائے۔ دو چار ان کی خوبیاں بھی بیان کیں‘ حالاں کہ مرنے والے کا‘ ان خوبیوں سے‘ سرے سے تعلق ہی نہ تھا۔ باتوں باتوں میں‘ یہ بھی کہہ دیا‘ کہ یار بڑھاپا عذاب ہوتا ہے۔ بڈھا بچوں کے لیے‘ عذاب بن جاتا ہے۔ اچھا ہوا‘ بےچارا مر گیا‘ اسے کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ بس میرا بیٹا‘ ان کی خبرگیری کرتا تھا۔ ایسے فرماںبردار داماد‘ کہاں ملتے ہیں۔ آخری وقت میں وہ ہی ان کے پاس تھا۔ جھگڑا ہو جانا تھا‘ کہ مرحوم کے بڑے لڑکے نے‘ آ کر کھانا کی خبر سنائی۔ سب صبح سے‘ بھوکے تھے‘ اس لیے افراتفری پڑ گئی۔
ادریس صاحب‘ کھاتے پیتے اور خوش حال لوگوں میں سے تھے۔ ترکہ میں‘ اچھی خاصی جائیداد پائی تھی۔ لینا انہیں خوش آتا تھا‘ لیکن دینے کے معاملہ میں‘ قارونی شریعت کی پیروی کرتے تھے۔ لوگوں کو کچھ دینا‘ تو بڑی دور کی بات‘ انہیں اپنی ذات پر خرچ کرتے‘ حیا آتی تھی۔ ان کی اس کفایت شعاری سے‘ ان کی بیگم اور بچے بھی‘ بڑے الرجک تھے۔ وہ اس حد تک کفایت شعار تھے‘ کہ کھانا بھی‘ کسی ختم وغیرہ میں جا کر تناول فرما لیتے‘ خود تو کھا ہی لیتے‘ گھر والوں کے لیے‘ ساتھ میں لے آتے۔ اس ذیل میں‘ وہ ڈھیروں ثواب کمانے کے‘ حق میں تھے۔
ان کا موقف تھا‘ کہ جب الله مال دے‘ تو الله کی راہ میں‘ خرچ کرتے بخل سے‘ کام نہیں لینا چاہیے۔ الله کی راہ میں خرچ کرنے سے‘ مال میں کمی نہیں آتی‘ بلکہ دس گنا فراخی آتی ہے۔ دینے والا‘ الله کے ہاں معتبر رہتا ہے۔ جہاں کسی محفل میں‘ بیٹھے ہوتے‘ اس نوعیت کی‘ بڑے دھیمے دھیمے‘ لیکچر نما‘ گفتگو فرماتے۔ لوگ ٹوکنے یا ان کی ذات پر حملہ کرنے کی بجائے‘ بڑی سنجیدگی سے‘ ان کے اس بھاشن سے‘ لطف اندوز ہوتے۔ بعض تو‘ بلامسکراہٹ سبحان الله‘ سبحان الله کہتے۔ یہ اس امر کی طرف اشارہ ہوتا‘ کہ وہ گفتگو جاری رکھیں۔ وہ یہ جان ہی نہ پاتے‘ کہ ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ان کی‘ ان حرکتوں کی وجہ سے‘ چھوٹے بڑوں میں‘ وہ ادریس شرلی معروف ہوگیے تھے۔
چار پانچ دن پہلے کی بات ہے‘ بابا سید غلام حضور کے ہاں بیٹھے تھے۔ اتفاق سے ادریس صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ بابا جی‘ کھاتے پیتے لوگوں میں نہیں ہیں۔ بس دال روٹی چل رہی ہے۔ گورنمنٹ کے پنشنر ہیں۔ مائی سردار بی بی‘ پچھلے چالیس پنتالیس سال سے‘ بچے بچیوں کو‘ دینی اور قرانی تعلیم دیتی آ رہی ہیں۔ قبلہ بابا جی‘ بیٹھک میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لوگ ان سے‘ دین اور تصوف کے مسائل‘ دریافت کرنے چلے آتے ہیں۔ بابا صاحب کے والد‘ سید علی احمد اپنے وقت کے عالم فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ‘ صوفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ مائی صاحب اور بابا صاحب‘ گڑھ شنکر‘ امرتسر کی سرکار سے تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ ان کا مزار‘ غالبا‘ آج بھی‘ وہاں موجود ہے۔ گویا دونوں میاں بیوی‘ باشرح صوفی مسلک رکھتے ہیں۔
سوال و جواب اور گفتگو کا سلسلہ‘ جاری تھا‘ کہ ادریس صاحب‘ اپنی بھورنے بیٹھ گیے۔ کہنے لگے‘ بابا جی‘ چوہدھری شمس کتنا عجیب اور بدنصیب شخص ہے۔ الله نے‘ اسے بےشمار دھن دے رکھا ہے۔ نماز روزہ کرتا ہے‘ توفیق کے باوجود‘ قربانی اور حج نہیں کرتا۔ میرے ہم سائے میں رہتا ہے‘ لوگوں کے گھر سے‘ آئے گوشت سے کام چلاتا ہے۔ اپنی عاقبت کے لیے بھی‘ کچھ کرنا چاہیے۔ علاقے میں‘ نام کمانے کے لیے‘ بیماروں کو پیسے دے دیتا ہے۔ گریبوں کے گھر‘ آٹا بھجواتا ہے۔ پچھلے دنوں‘ فجے کمہار کی بیٹی کو‘ جہیز بھی دیا اور روٹی بھی دی۔ اوپر سے لوگوں کو تاکید کرتا ہے‘ کہ اس مدد کا‘ کسی سے‘ ذکر تک نہ کرنا۔ جتنا روکے گا‘ لوگ اتنا ہی اچھالیں گے‘ یہ ہی اس کی منشا ہے۔ کل کو ممبر کھڑا ہوا‘ تو لوگ ووٹ اسی کو دیں گے۔ اس سے عاقبت تو نہیں سنورتی۔ عاقبت کے لیے‘ نماز روزے کے ساتھ ساتھ‘ قربانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بےکار کے کاموں میں‘ دولت ضائع کرتا رہتا ہے۔آپ اسے کچھ سمجھائیں۔
بابا جی کو ادریس صاحب کی بات‘ ناگوار گزری‘ فرمانے لگے
:
ادریس صاحب‘ آپ جانتے ہیں‘ کہ آپ چغلی کھا رہے ہیں۔ یہ بات آپ کو چوہدھری صاحب کے منہ پر کرنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کیا پتا تھا‘ کہ آپ‘ چوہدھری صاحب کے بندے ہیں۔ ادریس صاحب نے بابا جی کی بات کاٹتے ہوئے کہا
بابا جی نے بڑے تحمل سے فرمایا: ادریس صاحب‘ کسی کی بات کاٹنا‘ اخلاقیات اور آداب کے منافی ہے۔ سچی بات‘ تو سچی ہی ہوتی ہے۔ ذہن میں بٹھا لیں‘ میں کسی کا بندہ نہیں‘ میں صرف اور صرف الله کا بندہ ہوں۔
چھوڑیں شاہ صاحب‘ تگڑے کا ہر کوئی ہوتا ہے۔ یہاں ماڑے کی‘ کوئی نہیں سنتا اور ناہی‘ اس کا ساتھ دیتا ہے۔
بابا جی‘ خفیف سے‘ جلال میں آ گیے۔ فرمانے لگے
:
میں سید زادہ ہوں‘ میرے نزدیک تگڑا ماڑا‘ سب برابر ہیں۔ بات‘ تگڑی یا ماڑی ہوتی ہے۔
کسی کی نیت میں کیا ہے‘ ہم نہیں جانتے۔ دلوں کا حال‘ الله ہی جانتا ہے۔ چوہدری صاحب کس نیت سے‘ لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘ ہمیں کیا معلوم‘ یہ تو الله ہی جانتا ہے‘ یا انہیں معلوم ہوگا۔ ہم کسی کی نیکی کو‘ منفی پیمانوں پر‘ رکھنے والے‘ کون ہوتے ہیں۔ وہ جانیں یا الله جانے۔
ادریس صاحب‘ قربانی سنت ابراہیمی ہے۔ حضور کریم نے بھی‘ اسے جاری رکھا‘ ہمیں بھی جاری رکھنا چاہیے۔
ہم وہ قوم ہیں‘ جو قربانی کی چھری تلے ہے۔ اس بےچاری نے کیا قربانی دینی ہے۔ قربانی تو‘ صاحب حیثیث قوموں کے لیے ہے۔ یہ تو فرائض پورے کرنے سے قاصر وعاجز ہے‘ سنتیں کیا پوری کرنی ہیں۔
لڑکی اپنی ہو‘ کسی عزیز کی ہو‘ یا ہم سائے کی‘ اس کی شادی کرنا فرض ہے۔
بھوکا کوئی بھی ہو‘ اس کی بھوک مٹانا فرض ہے۔
مقروض کا قرض اترنا‘ فرض ہے۔
بیمار کو‘ مفلسی کے سبب‘ مرنے سے بچانا فرض ہے۔
اس طرح کے‘ بیسیوں فرض ہیں۔ کیا ہم‘ ان سب کو پورا کر چکے ہیں۔ مفلسی‘ بیماری قرض‘ بھوک وغیرہ‘ ختم ہو چکے ہیں۔ اپنے حصہ سے‘ بچا کر‘ دوسرے کی حاجت پوری کرنا بھی قربانی ہے۔
سب ٹھیک ہو گیا ہے‘ تو ایک نہیں چار بکروں کی قربانی کرو۔
باجماعت نماز کی فضیلت کیوں ہے‘ تاکہ تم ایک دوسرے سے ملتے رہو‘ حال احوال دریافت کرتے رہو۔ عیدین اور حج کا بھی‘ یہ ہی مقصد ہے‘ تا کہ تم ایک دوسرے سے آگاہ رہو‘ اور بھائی چارہ بڑھے‘ محبتیں پروان چڑھیں۔ الله بے نیاز ہے‘ اسے سجدہ کرو گے‘ تو بھی‘ وہ اپنی حالت پر رہے گا۔ الله انسان کی بہتری چاہتا ہے۔ حج فرض ہے‘ لیکن تب‘ جب تم استطاعت رکھو۔ جب ہر طرف‘ خوش حالی آسودگی ہو گی‘ کوئی بیٹی‘ بنا جہیز باپ کے گھر بیٹھی نہ ہو گی‘ قربانی کرنا‘ حچ کے لیے جانا‘ تا کہ دیگراسلامی بھائیوں سے مل کر‘ بین الاسلامی بھائی چارے کو‘ فروغ دے سکو۔
بابا جی کی باتوں کو‘ سب نے سنا اور پسند کیا۔ ادریس صاحب کی سوئی‘ قربانی کے گوشت پر‘ اٹکی ہوئی تھی۔ اتنی دیر میں‘ پانچ لوگوں کا کھانا‘ اندر سے آ گیا۔ چار لوگوں کے لیے چٹنی ملی لسی‘ جب کہ ایک کے لیے‘ گوشت سے بھری پلیٹ آئی۔ سب نے‘ باطور تبرک چٹنی ملی لسی سے روٹی‘ جو اماں جی کے ہاتھوں کی پکی ہوئی تھی‘ کھائی اور کھانے کو پرذائقہ قرار دیا۔ ادریس صاحب کا‘ موڈ اب بھی خراب تھا۔ انہیں پکائی کے‘ ناقص ہونے کا‘ گلہ تھا۔ وہ کیا جانیں‘ گھر میں تو گوشت پکا ہی نہ تھا۔ گوشت کی پلیٹ اور روٹیاں‘ چوہدھری صاحب نے‘ بجھوائی تھیں۔ وہ ہی سفید آٹے کی روٹیاں‘ ادریس صاحب کے پیٹ میں گئی تھیں۔
Comment