یہ کوئی نئی بات نہ تھی
حامد صاحب اور شکیل صاحب‘ گہرے دوست ہی نہیں‘ کلاس فیلو بھی تھے۔ دونوں نے پہلی جماعت سے بی اے تک‘ اکٹھی تعلیم حاصل کی۔ حامد صاحب نے‘ لاء کالج میں داخلہ لے لیا‘ جب کہ شکیل صاحب ایم اے نفسیات کرنے کے لیے‘ لاہور چلے گیے۔ حامد صاحب وکیل بن کر ضلع کچہری میں وکالت کا پھٹا لگا کر بیٹھ گیے۔ شکیل صاحب نے بھی‘ ایم اے نففسیات کر لیا۔ پھر وہ لیکچرر منتخب ہو کر‘ کسی کالج میں خدمت انجام دینے لگے۔ جمعرات کو آتے‘ اور جمعہ کی چھٹی گزار کر‘ واپس چلے جاتے۔ درمیان میں کوئی اور چھٹی آ جاتی‘ تو بھی گھر آ جاتے۔
جب آتے‘ حامد صاحب سے ضرور ملاقات کرتے۔ شاید ہی‘ کوئی چھٹی‘ ملاقات کے بغیر‘ گزری ہو گی۔ وہ گھر میں بیٹھنے کی بجائے‘ راج ٹی ہاؤس میں‘ آ بیٹھتے۔ دو دو گھنٹے‘ وہاں بیٹھے رہتے۔اتنی دیر میں‘ تین چار کپ چائے‘ ڈکار جاتے۔ ان کی باتیں‘ عمومی دل چسپی سے‘ قطعی ہٹ کر ہوتیں۔۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ بہت کم لوگ‘ ان کی ٹیبل پر آ کر بیٹھتے تھے۔ بس دور سے‘ سلام کرکے‘ کسی دوسری ٹیبل پر‘ بیٹھ جاتے۔ ان کی بحث میں‘ گرمی کی شدت بڑھ جاتی۔ بعض اوقات‘ یوں لگتا‘ جیسے لڑ رہے ہوں۔ غور کرنے پر‘ معلوم ہوتا‘ وہ لڑ نہیں رہے‘ ان کا انداز بس لڑنے کا سا ہے۔ حامد صاحب یوں بات کر رہے ہوتے‘ جیسے کورٹ میں کھڑے‘ اپنے کسی سائل کی بھرپور انداز میں‘ وکالت کر رہے ہوں۔ شکیل صاحب بھی کچھ کم نہ بولتے تھے۔ ان کی گففت گو پر‘ کلاس میں دیے جانے والے لیکچر کا گمان گزرتا۔۔ ہر بات‘ حوالے کے ساتھ کرتے۔
باتیں‘ اگرچہ عصری و شخصی مسائل کے متعلق ہوتیں‘ لیکن ان کا انداز گفت گو‘ عوامی نہ ہوتا۔ کچر مچر مارتے رہتے۔ غیر سنجیدہ باتوں کے لیے بھی‘ سنجیدہ طرز اظہار اختیار کرتے۔ دوران گفت گو‘ اگر کوئی لطیفہ بازی کرتے‘ تو وہ بھی جمہوریت کی طرح‘ ذو معنی اور طرح دار ہوتی۔ وہ خود ہنس پڑتے‘ لیکن وہاں بیٹھا کوئی شخص‘ رونی صورت بنانے کی زحمت تک نہ اٹھاتا۔
اس دن‘ لالے دلاور کی بیٹی‘ جو اپنے آشنا کے ساتھ‘ رات گھر سے‘ زیور اور نقدی لے کر نکل گئی تھی‘ ان کی گفت گو کا موضوع تھی۔ پہلے مرکب ۔۔۔۔۔ نکل جانا ۔۔۔۔۔ زیر بحث رہا۔
پروفیسر صاحب کا موقف تھا‘ لفظ نکل جانا‘ باپ کی انا کو‘ مزید گرزند پنچانے کے مترادف ہے۔ اس سے‘ باپ کا مورال‘ مزید ڈاون ہو گا۔ وکیل صاحب کا موقف یہ تھا‘ کہ دغا دے گئی‘ فریب دے گئی‘ کہہ لو یا نکل گئی کہہ لو‘ بات ایک ہی ہے۔
بلاکسی نتیجے‘ بات آگے بڑھی۔ وکیل صاحب کے نزدیک‘ ان کے گھر جا کر‘ افسوس کرنا چاہیے۔ قانونی امداد کی پیش کش کرنی چاہیے۔
پروفیسر صاحب کا کہنا تھا‘ سردست ان لوگوں کو‘ ان کے حال پر‘ چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ شاک میں ہیں‘ اس موضوع پر بات کرنے سے‘ تضحیک کے ساتھ ساتھ‘ یہ امر ذہن کو مشتعل کرنے کے مترادف ہوگا۔
اس بحث کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
حامد صاحب نے کہا‘ نکاح شخص کا‘ فطری اور شخصی حق ہے۔ گھر والوں نے‘ لڑکے کا انتخاب کر لیا یا شخص نے‘ خود اپنا جیون ساتھی چن لیا‘ بات ایک ہی ہے۔ اس میں انسرٹ والی‘ کیا بات ہے۔ اگر یہ غلط ہو‘ تو عدالت میں‘ روزانہ ہونے والے‘ سیکڑوں نکاح نہ ہوں۔ عدالت‘ انہیں اجازت نامہ جاری کرتی ہے۔ قانون اجازت دیتا ہے‘ تب ہی تو عدالت‘ اجازت نامہ جاری کرتی ہے۔
پروفیسر صاحب‘ عدالت کے جاری کردہ پروانوں کو‘ درست تسلیم کر رہے تھے۔ وہ یہ بھی مان رہے تھے‘ کہ عدالت ریاستی قانون کے تحت ہی‘ پروانے جاری کرتی ہے۔ انہیں‘ بچوں کے اس طریقہ کار سے اختلاف تھا۔ بہت سے‘ ایسے واقعے ہوتے ہیں‘ جس میں والدین کو خبر تک نہیں ہوتی۔ بعض واقعات میں صرف والد بےخبر ہوتا ہے۔
وکیل صاحب کا موقف تھا‘ کہ بچے یہ قدم اس وقت ہی اٹھاتے ہیں‘ جب انہیں یقین ہوتا ہے‘ کہ والدین راضی نہیں ہوں گے۔ دوسری صورت میں‘ مائیں اور بچے‘ ابا حضور کی ہٹ دھرمی سے‘ آگاہ ہوتے ہیں۔ دنیا کہاں سے‘ کہاں تک پہچ گئی ہے‘ اور ہم ان لایعنی مسائل میں‘ الجھے ہوئے ہیں۔
پروفیسر صاحب‘ ان کے اس موقف سے‘ متفق نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ کہ اس ذیل میں‘ ہم دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ ہم دوسروں کے لیے‘ اس پہلو سے سوچتے ہیں‘ لیکن اپنے لیے‘ سوچ کا یہ انداز نہیں رکھتے۔ پروفیسر صاحب نے کہا‘ اگر تمہاری بیٹی‘ اس قسم کی بےوفائی کرئے‘ یا تمہاری ماں کسی سے عشق پیچہ ڈال لے‘ اور پھر خلع کا مقدمہ دائر کر دے‘ تو تمہارا کیا ردعمل ہو گا۔
وکیل صاحب اچھل پڑے‘ اور کہنے لگے‘ یہ تم کیا بات کر رہے ہو۔ بات سوسائٹی کی ہو رہی
ہے‘ اور تم پرسنل ہو گیے ہو۔ میری ماں بیٹی شریف ہیں‘ وہ اس قسم کی‘ کیوں حرکت کریں گی۔
پروفیسر صاحب نے‘ فلک بوس قہقہ داغا اور کہا سوچ کا دوہرا معیار‘ سامنےآ گیا نا۔ دوسرا تم خود ہی‘ اسے غیر شریفانہ حرکت‘ قرار دے رہے ہو۔ تمہاری بیٹی اور ماں کے لیے‘ یہ حرکت غیر شریفانہ ہے۔ سوسائٹی کی دوسری عورتوں کے لیے شریفانہ‘ اور ریاستی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔
قہقہے کے ساتھ ہی‘ انہوں نے چائے کآ آرڈر جاری کر دیا۔ یہ ان کا‘ تیسرا کپ تھا۔ وکیل صاحب نے کیک لانے کے لیے بھی کہہ دیا۔
وکیل صاحب‘ تھوڑے دھیمے پڑے‘ لیکن وہ اپنی بات پر‘ اڑے ہوئے تھے‘ وہ معاملے کو‘ ذاتیات سے بالاتر ہو کر‘ اور سوسائٹی کے تناظر میں‘ دیکھنے پر زور دے رہے تھے۔
پروفیسر صاحب‘ فقط ایک قہقے کے بعد ہی‘ سنجیدہ ہو گیے۔ فرمانے لگے‘ یار ہم مشرقی لوگ ہیں‘ ہماری سوسائٹی پدری ہے۔ اسے مغربی سوسائٹی پر‘ محمول نہ کرو۔ شخص جہاں ریاستی قانون کا پابند ہے‘ وہاں سوسائٹی کےاصولوں کو بھی‘ کسی سطح پر نظرانداز نہیں کر سکتا۔ نظرانداز کرئے گا‘ تو سکھ چین سے‘ جی نہ سکے گا۔ ہماری سوسائٹی‘ ماں بہن اور بیٹی کی‘ اس نوعیت کی‘ بےوفائی کی اجازت نہیں دیتی۔ اس سوساٹی میں‘ باپ ہوتا ہے‘ اور وہ ہی امور انجام دیتا ہے۔ وہ اندر باہر کا‘ جواب دہ ہوتا ہے۔ اچھا برا‘ اسی کے سر پر آتا ہے۔ وہاں‘ باپ ثانوی درجہ بھی نہیں رکھتا۔ آج امریکا کا طوطی نہیں‘ بھونپو بولتا ہے۔ جاؤ‘ جا کر‘ تاریخ کا مطالعہ کرو‘ پھر تمہیں پتا چل جائے گا‘ کہ وہ برطانیہ سے فرار‘ لٹیروں کی نسل ہیں۔ وہ کیا سوسائٹی بنائیں گے‘ جن کی پیروی میں‘ تم یہ سب کہہ رہے ہو۔
اس بات پر‘ حامد صاحب چمکے‘ اور بولے‘ یار کیا بکواس کر رہے ہو‘ میں چھے سال‘ مغرب میں رہا ہوں۔ تمہاری بھابی بھی‘ ادھر سے کی ہے۔
دیکھو‘ وکیل ہو کر‘ پوائنٹ دے رہے ہو۔
نہیں‘ بالکل نہیں۔
گویا موصوفہ کو‘ ہمارے معاشرتی لباس اور اصول اپنانا پڑے ہیں نا۔ یہ معاشرتی ضابطے ہیں‘ جو اپنانا پڑتے ہیں۔ ان کو اپنائے بغیر‘ گاڑی نہیں چل سکتی۔
یہ راونڈ‘ بلاشبہ پروفیسر صاحب کے ہاتھ لگا تھا۔
نکاح کیا ہے
دو فریقین کی مرضی دریافت کرنا۔ دو فریق‘ بھاگ کر‘ یا کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ کیا یہ فریقین کی مرضی کی صورت نہیں ہے۔ دکھاؤ‘ کہاں گئی تمہاری پروفیسری۔ اسلام جب نکاح کو‘ مرضی قرار دیتا ہے‘ تو ہم یا ہماری سوسائٹی‘ اس کی راہ میں کیسےآ سکتی ہے۔ اسلام نے بولتی بند کر دی ناں۔
حامد بھائی‘ اسلام ہر عہد کا مذہب ہے‘ اور یہ ہر عہد کے لیے‘ جدید ترین مذہب ہے۔ اسلام‘ شخص کو خرافات سے نجات دلاتا ہے۔ یہ ہی نہیں‘ یہ انسانی فطرت کا ساتھ دیتا ہے۔ انسان کی خیر خواہی اور ظفر مندی کا خواہاں رہتا ہے۔
بلاشبہ‘ نکاح‘ طرفین کی ایما دریافت کرنے کا نام ہے‘ اور اس ضمن میں‘ ہر قسم کے‘ جبر کی‘ اسلام مخالفت کرتا ہے۔
اسلام‘ حجاب اور محرم نامحرم کے بارے میں بھی‘ کچھ کہتا ہے۔ حجاب کی تاکید کیوں کرتا ہے‘ تاکہ بےحیائی کا رستہ نہ کھل جائے۔ حجاب نہ ہونے کی صورت میں‘ مرد اور عورت مسکراہٹ سے‘ معاملے کا‘ آغاز کریں گے۔ پھر قریب قریب بیٹھیں گے۔ یہ بیٹھنا‘ عمومی چھونے کا سبب بنے گا۔ عموم خصوص کی طرف‘ مراجعت کرئے گا۔ نازک اعضا سے‘ مخصوص اعضا کو چھونے‘ اور تصرف میں لانے کا کام شروع ہو جائے گا۔ موصوفہ کا پیٹ پھولے گا۔ نوبت ابارشن تک پہنچے گی۔ پیٹ نہ بھی پھولے‘ ویرج کا تو ضیاع ہو گا۔ انسانی ویرج‘ کس پائے کی چیز ہے‘ کسی سائنس دان سے‘ جا کر پوچھو۔ وکیل صاحب‘ نکاح سے پہلے‘ یہ سب‘ کیا اسلام درست اور جائز قرار دیتا ہے۔ اسلام نے‘ خرابی روکنے کے لیے ہی تو‘ حجاب کو‘ ازبس ضروری قرار دیا ہے۔
حامد صاحب نے‘ گھڑی پر ایک نظر ڈالی‘ اور پھر ایک دم بولے‘ او مائی گاڈ‘ چھوٹے کو‘ ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اٹھتے ہوئے‘ پروفیسر صاحب بولے‘ اب سمجھ میں‘ یہ بات آ گئی ہو گی‘ کہ مادری اور پدری سوسائٹی میں‘ کیا فرق ہوتا ہے۔ باپ ایک ذمہ دار رشتہ ہے۔ دکھ سکھ‘ اچھا برا اس کے دامن میں جاتا ہے۔ بیٹی کے دغا دینے پر‘ اسے شاک تو ہو گا۔
وکیل صاحب نے‘ جواب میں‘ کیا کہا ہو گا‘ یہ تو معلوم نہ ہو سکا‘ کیوں کہ اس وقت تک‘ وہ ہوٹل سے‘ باہر نکل گیے تھے۔ ہاں اتنا ضرور ہے‘ کہ چار چاہیں ڈکارنے‘ اور ڈھائی گھنٹے گفت کرنے کے باوجود‘ وہ کسی حتمی نتیجے کا منہ‘ نہ دیکھ سکے تھے۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی‘ ہر بار‘ یہ ہی کچھ ہوتا تھا۔