ان پڑھ
کمال اے‘ اکرم کو میں نہیں جانتا‘
ہم ایک ہی محلہ میں‘ رہتے ہیں۔ ہمارا بچپن‘ ایک ساتھ گزرا ہے۔ ہمارا شروع سے‘ دن میں‘ ایک دو بار‘ ٹاکرا ہوتا رہتا ہے۔ وہ دوسری جماعت سے‘ آگے نہ بڑھ سکا۔ کند ذہن کا مالک تھا۔ مسجد میں بھی‘ نہ چل سکا۔ وہ تو خیر‘ امام مسجد صاحب کی‘ روز اول کی‘ پھینٹی برداشت نہ کر سکا۔ امام مسجد صاحب نے‘ تین چار مرتبہ‘ سبق بتایا‘ لیکن وہ یاد نہ کر سکا۔ انہیں تاؤ آ گیا‘ کان پکڑا کر‘ ایسا وجایا‘ کہ آج بھی‘ یاد کرتا ہو گا۔
اس نے نان چنے کی ریڑھی لگا لی۔ میں نے تعلیم جاری رکھی۔ میں نے درجہ دوئم میں‘ بی اے پاس کیا اور اچھی پوسٹ پر تعینات ہو گیا۔ صرف دو سال ہوم اسٹیشن نہ ملا۔ یہ ہی میرے اوراس کے‘ جدائی کے دن تھے۔ میں جب بھی چھٹی پر آتا‘ اسے ضرور ملتا۔ مجھے ہر بار‘ نیا اکرم ملتا۔ اب جب کہ میں ہوم اسٹیشن پر ہوں‘ اس لیے میری اور اس کی‘ ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ سچی اور خدا لگتی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ اکرم‘ وہ اکرم نہیںتھا ۔ مزاج میں حد درجہ کی سنجیدگی اور متانت آگئی تھی۔۔ میں نے بات بات پر‘ اسے قہقہے لگاتے نہیں دیکھا۔ مسکراہٹ میں بھی‘ سنجیدگی کا عنصر نمایاں ہوتا۔ اس سے بڑھ کر‘ بات تو یہ تھی‘ کہ جب کوئی بات کرتا‘ تو یوں لگتا‘ جیسے آکسفورڈ یونی ورسٹی سے‘ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر‘ واپس پلٹا ہو۔ اس کی ہر بات میں معقولیت‘ تجربہ اور دلیل ہوتی۔
میری بات کا‘ یہ مطلب نہ لیا جائے‘ کہ مجھے کوئی جلاپا تھا۔ لوگ‘ اسے بڑی عزت دیتے اور اس کی قدر بھی کرتے تھے۔ اس کے برعکس‘ میں پڑھا لکھا اور معقول ملازمت رکھتے ہوئے بھی‘ لوگوں سے‘ اس سی عزت اور احترام حاصل نہ کر پایا تھا۔ اس کی بیوی‘ پورے محلے میں‘ شیداں کپتی کے نام سے‘ جانی جاتی تھی۔ وہ بولتے نہ تھکتی تھی۔ گھر میں؛ اس نے اکرم کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ مجال ہے‘ اس نے کبھی اپنی بیوی کی‘ کسی سے شکایت کی ہو۔ ایک بار اس کے بھائی نے‘ اکرم کو شیداں کو طلاق دے‘ کر کسی دوسری عورت سے‘ شادی کر لینے کا مشورہ دیا۔ اس کے بھائی کے ہاتھ میں‘ رشتہ بھی تھا۔ اکرم نے‘ مسکراتے ہوئے‘ فقط چندد جملوں میں بات ختم کر دی۔
اس کا کہنا تھا: آنے والی‘ نہ لڑے گی‘ فطرت کو کون بدل سکتا ہے۔ روز اول سے‘ سب اسی طرح چلا آتا ہے۔ الله نے‘ آدمی کو لاتعداد‘ صلاحیتوں سے‘ نوازا ہے۔ توازن کے لیے‘ مرد کا عورت سے‘ ملاپ رکھ دیا ہے۔ ورنہ یہ کائنات کے‘ پاؤں زمین پر نہ آنے دیتا۔
کمال صاحب‘ حج کرکے آئے۔ سب انہیں مبارک باد کہنے کے لیے‘ ان کے ہاں‘ حاضر ہوئے۔ اکرم بھی‘ انہیں مبارک باد کہنے کے لیے حاضر ہوا۔ باتوں ہی باتوں میں‘ عصری جبریت اور معاشی و معاشرتی گھٹن کا ذکر چل نکلا۔ اس کو ختم کرنے کے لیے‘ ہر کوئی اپنی رائے رکھتا تھا۔ اکرم سب کی‘ خاموشی سے‘ باتیں سن رہا تھا۔
ایک صاحب کے خیال میں‘ حقیقی جمہوریت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ نصیر صاحب کا خیال تھا‘ کہ اسلامی جمہوریت سے ہی‘ ہر قسم کی خرابی دور ہو سکتی ہے۔ نبی بخش کا خیال تھا‘ کہ خلافت زندگی کو‘ آسودہ کر سکتی ہے۔ اکرم نے‘ ہر تین نظام پر بات کی‘ جس کا لب لباب یہ تھا کہ
جمہوریت‘ قطعی غیر فطری نظام ہے۔ عوام کون ہوتے ہیں‘ حکومت کرنے والے۔ حکومت کا حق‘ صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ حکومت عوام کے ذریعے نہیں‘ قرآن و سنت کے ذریعے ہی‘ اصولی اور فطری بات ہے۔
اسلامی جمہوریت‘ تو ایسی ہی بات ہے اسلامی چوری‘ اسلامی قتل‘ اسلامی زنا وغیرہ
کس خلافت کی بات کرتے ہو‘ جس نے منصور کو‘ شہید کیا۔ نام بدلنے سے‘ کیا ہوتا ہے‘ تھی تو بادشاہت‘ باپ کے بعد بیٹا۔ کام بھی ان کے باشاہوں والے تھے۔
شرف علی بولا: پھر تم بتاؤ‘ کیا ہونا چاہیے۔
بھائی! مسلہ اس وقت تک حل نہ ہو گا‘ جب تک‘ انسان کا اندر نہیں بدلا جاتا۔ انبیا اور صالیحین‘ یہ ہی تو کرنے کی‘ کوشش کرتے آئے ہیں۔
ریاض بولا: یہ تو نہیں ہو سکتا۔ نامکنات میں ہے۔
اگر یہ نہیں ہو سکتا‘ تو کوئی بھی نظام‘ خرابی دور نہ کر سکے گا۔ لوگ تو‘ یہ ہی رہیں گے نا۔ استحصال کرنے والے‘ اپنی ڈگر پر رہیں گے۔ کم زور‘ کوہلو کا بیل بنا رہے گا۔ لکھ لو‘ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔ ۔
وہ یہ کہتا ہوا اٹھ کر چلا گیا۔
اس قسم کی باتیں‘ ایک چٹا ان پڑھ‘ کس طرح کر سکتا ہے۔ ناممکن‘ قطعی ناممکن۔ میں گڑبڑا گیا۔ نان چنے بیچنے والا‘ اس قسم کی باتیں کر ہی نہیں سکتا۔ اسے خداداد صلاحیت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ میری نظر سے‘ سیکڑوں‘ ان پڑھ گزرے ہیں‘ ایسا ان پڑھ‘ میں نے نہیں دیکھا۔ اگر اس قسم کے ان پڑھ‘ پیدا ہو جائیں‘ تو اس قوم کی قسمت ہی نہ بدل جائے۔
وہ کھرا سودا بیچتا تھا‘ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ اسے گاہکی بڑی پڑتی تھی۔ بےایمانی اور ہیرا پھیری یا غلط بیانی‘ تو اس کے کاغذوں میں ہی نہ لکھی تھی‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ کہ وہ ان چیزوں سے‘ سخت نفرت کرتا تھا۔ کسی سے‘ ادھار نہیں کرتا تھا‘ ہاں ضرورت مند کا پیٹ بھر دیتا تھا۔ ادھار لیتا بھی نہ تھا۔ کہتا تھا‘ پتا نہیں‘ سانس کب ساتھ چھوڑ جائے‘ میرا ادھار‘ کوئی دوسرا کیوں چکائے۔
میں اس انوکھے ان پڑھ کی‘ ٹوہ میں لگ گیا۔ اس کے معمولات جان کر ہی‘ اصل حقیقت‘ تک‘ رسائی ممکن تھی۔ صبح سویرے‘ اٹھ جاتا۔ مسجد میں‘ ہر قماش کے لوگ ملتے ہیں۔ وہ وہاں سب سے‘ سلام دعا کرتا۔ ہاں ماسٹرلال دین صاحب سے‘ ناصرف بڑی گرم جوشی سے‘ ہاتھ ملاتا‘ بلکہ بغل گیر بھی ہوتا۔ ان کے درمیان‘ بات کم ہی ہوتی‘ ہاں پرخلوص مسکراہٹ کا تبادلہ‘ ضرور ہوتا۔ مسجد سے فراغت کے بعد ‘ حضرت سید حیدر امام صاحب کے ہاں‘ حاضر ہوتا۔ حضرت سید حیدر امام صاحب کے قدم لیتا۔ وہ اس سے‘ ہاتھ ملاتے‘ گلے ملتے‘ بڑی محبت سے‘ اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے۔ اسے مسکرا کر دیکھتے۔ شام کی نماز کے بعد بھی‘ اس کا یہ ہی معمول ہوتا۔ جب کبھی‘ کوئی پڑھا لکھا‘ محلہ میں‘ کسی کے ہاں‘ مہمان ہوتا‘ وہ اسے ملنے ضرور جاتا۔ اس سے‘ بڑی گرم جوشی سے‘ ہاتھ ملاتا اور اسے گلے ضرور ملتا۔ تحفہ میں‘ دو نان اور کچھ چنے لے جانا نہ بھولتا۔
اکرم اچھا خاصا تھا۔ ستاون سال‘ عمر کم نہیں‘ تو اتنی زیادہ بھی نہیں۔ اچھا خاصا‘ چلتا پھرتا تھا۔ چہرے پر‘ بڑھاپے کا‘ دور تک‘ اتا پتا بھی نہ تھا۔ وہ بوڑھا بھی تو نہ تھا‘ اچانک چل بسا۔ وہ یہاں‘ مہمانوں کی طرح رہا۔ اکٹھا کر لینے کی ہوس‘ اس میں بالکل نہ تھی۔ جو‘ اور جتنا ملا‘ اسی پر‘ گزارا کرتا رہا۔ یہ کیا ہوا‘ صبح کی جماعت میں شریک تھا‘ شام کو‘ لوگ‘ اس کے جنازہ میں‘ شامل تھے۔ ہر زبان پر‘ اکرم چل بسا‘ تھا۔ ہائیں‘ یہ کیسا جانا ہوا۔ جانے سے پہلے‘ جانے کے‘ اثار تک نہ تھے۔ ابھی زندہ تھا‘ ابھی فوت ہو گیا۔ یہ مرنا بھی‘ کیسا مرنا ہوا۔ آج اس کا ساتواں تھا۔ اس کے اپنوں میں‘ گنتی کے چند لوگ تھے۔ محلہ کا‘ شاید ہی کوئی شخص رہ گیا ہو گا۔
ہر زبان پر‘ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘ کلمے تھے۔ وہاں سے‘ معلوم ہوا‘ اس کی بیوہ‘ کسی وقت رشیدہ خانم تھی۔ حالات اور وقت نے‘ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا اور رشتہ‘ حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔ سید صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ تھے۔ پورا علاقہ‘ ان کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘ وہاں رکے۔ چہرے پر جلال تھا‘ ہاں‘ ساتھ چھوٹ جانے پر‘ ان کی آنکھوں سے‘ خاموش آنسو رواں تھے
اب میرے پاس‘ اس کی فراست اور متانت کے‘ دونوں سرے تھے۔ حضور کریم نے‘ ہاتھ ملانے اور ایک دوسرے سے گلے ملنے کی‘ کیوں تاکید کی تھی۔ ہاتھ ملانے سے‘ ناصرف ریکھاوں کا ملن ہوتا ہے‘ بلکہ نادانستہ طور پر‘ جذبات‘ اطوار اور دانش بھی منتقل ہوتی ہے۔ جب کوئی گناہ گار‘ کسی صالح سے‘ ہاتھ ملاتا ہے تو مثبت عناصر منتقل ہو جاتے ہیں۔
دوسرے سرے پر یہ مقولہ موجود تھا: صحبت صالح‘ صالح کند صحبت طالع‘ طالع کند
جس طرح‘ سگریٹ کی عادت چھوڑنے سے‘ نہیں چھٹتی‘ اسی طرح‘ اچھا کرنے کی عادت‘ جو انسان اپنی فطرت میں‘ لے کر جنم لیتا ہے‘ دم نہیں توڑ سکتی۔ اگر یہ چھٹنے کی ہوتی‘ تو سقراط کبھی زہر نہ پیتا۔ حسین کیوں کربلا تک آتے۔ منصور کو کیا پڑی تھی‘ کہ قتل ہوتا‘ پھر اگلے دن جلایا جاتا‘ اس سے اگلے دن‘ اس کی رکھ اڑائی جاتی۔
اکرم‘ باعمل ان پڑھ تھا۔ ہم‘ بےعمل پڑھے ہیں۔ اس کی ان پڑھی‘ ہم سے‘ بدرجہا بہتر تھی۔ ہم نے جو پڑھا‘ ہمیشہ اس کے برعکس عمل کیا۔ حقی سچی بات تو یہ ہی ہے‘ اکرم پڑھا ہوا‘ باحکمت شخص تھا۔ ہم‘ ان پڑھ اور حکمت و دانش سے محروم لوگ ہیں۔