ممتا عشق کی صلیب پر
جیراں اپنی بیٹی کے چلن سے بےخبر نہ تھی۔ وہ وقتا فوقتا‘ اس کی سرزنش بھی کرتی رہتی تھی۔ وہ زیادہ سختی بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔ جوان اولاد کو محبت اور اچھے طریقہ سے سمجھانا ہی بہتر ہوتا ہے ورنہ وہ بغاوت پر اتر آتی ہے۔ جوانی‘ اونچ نیچ اور برا بھلا سوچنے کی قائل نہیں ہوتی۔ وہ کر گزرنے کی طرف مائل رہتی ہے۔ بعض اوقات‘ منفی بھگتان کے باوجود‘ واپسی کا سفر اختیار نہیں کرتی۔ ایسا بھی ہوتا ہے‘ کہ حالات واپی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ آدمی لوٹنا چاہتا ہے‘ لیکن وقت کی زنجیریں اسے پھرنے نہیں دیتیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی‘ کہ شیداں ماں کی دو تین خوف ناک کمزوریوں سے آگاہ تھی۔ اگر وہ ایک راز بھی افشا کر دیتی‘ تو جیراں کی پوری عمر کی رکھی رکھائی کھوہ کھاتے پڑ جاتی۔ انسان کے منفی عمل ناصرف اس کے لیے وبال بنے رہتے ہیں‘ بلکہ بعض ذہنوں کے نہاں گوشوں میں پڑے‘ اپنے وجود کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ شخص ہو‘ یا کوئی جذبہ
احساس یا پھر خیال وجود پانے کے لیے بےکل رہتا ہے۔ ثقیل سے ثقیل غذا ہضم ہو جاتی ہے‘ لیکن یہ ہضم ہوتے ہی نہیں۔
ایک دو بار‘ جب جیراں کا لہجہ تلخ ہوا‘ تو شیداں نے ماں کو گزرے کل کے فاش کرنے کا اشارہ دے دیا۔ جیراں جو خاوند کیا‘ برادری میں بھی پھنے خاں تھی‘ موت کی جھاگ کی طرح‘ لمحوں میں بے وجود ہو گئی۔ اس کا رعب و دبدبہ ریت کی دیوار سے زیادہ‘ پھوسڑ ثابت ہوا اور وہ آزادی کا جذبہ رکھتے ہوئے بھی‘ آزادی حاصل نہ کر سکی۔ اس کے ہاتھوں کا تراشا ہوا صنم‘ جبری ہی سہی‘ دل و جان کے صنم خانے میں خدا بنا بیٹھا تھا۔ وہ اس کی دہلیز پر عاجز و مسکین بنی کھڑی رہتی تھی۔
ایک دو بار اس نے دعا بھی کی‘ کہ شیداں مر ہی جائے۔ اس ذیل میں‘ ممتا کبھی آڑے نہ آئی تھی۔ وہ اپنی موت کی خواہش کر سکتی تھی اسی طرح خودکشی کا دروازہ بھی کھلا تھا۔ اس کی موت سے‘ راز کو تو موت نہ آتی۔ وہ شیداں کے سینے میں‘ زندہ رہتا۔ یہ راز جب شیداں کے لاشعور سے شعور میں وارد ہوتے‘ تو اپنی ہی ماں کو‘ اپنے باپ کا مجرم سمجھتی۔ اسے یہ ہمشیہ احساس رہتا‘ کہ اس کی ماں اس کے باپ کی دین دار تھی۔
شیداں اپنے باپ کی لاڈلی تھی۔ فتو اس پر اندھا اعتماد کرتا تھا۔ روپیہ پیسہ اس کے پاس رکھتا تھا۔ رات کو باپ بیٹی جانے کیا مشورے کرتے رہتے تھے۔ وہ تو صرف پکانے اور دھونے تک محدود تھی۔ فتو سے‘ ان دونوں امور کا گلا بھی نہیں کر سکتی تھی۔ روپووں کے معاملہ میں‘ وہ صرف دو بار‘ بےاعتباری ہوئی تھی۔ اس نے جھگڑ اور پھر رو کر‘ سچا ہونے کی کوشش بھی کی تھی۔ فتو نے اس کی قسم پر بہ ظاہر اطمنان کا اظہار بھی کیا‘ لیکن اندر سے مطمن نہیں ہوا تھا۔ چور یا ٹھگ کی قسموں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اگر ان کی قسموں کو اعتبار مل جائے‘ تو تھانے اور کچہری بند ہو جائیں۔
فتو دراصل‘ جیراں کی لایعنی کل کل کی وجہ سے‘ ہار مان چکا تھا۔ گھر اور خاندان کے معاملات جیراں ہی انجام دیتی تھی۔ جہاں اختلاف ڈالتا‘ وہاں دھائی کی راند پڑ جاتی۔ جیراں نے سرنڈر ہونا سیکھا ہی نہ تھا۔ اب تو پچاس کے قریب پہنچ گئی تھی اور فتو ساٹھ کا ہندسہ تجاوز کر گیا تھا۔ جو بھی سہی‘ جیراں آج بھی بنتی پھبتی تھی۔ جب دنداسا اور چوٹی پٹی کرکے‘ فتو کے سامنے آتی‘ تو وہ مدہوش ہو کر‘ وش وش جاتا تھا۔
شیداں جوان ہو گئی تھی۔ اس کے ہاتھ پیلے کرنے کا وقت آگیا تھا۔ فتو اچھے رشتے کی تلاش میں تھا۔ وہ اپنی لاڈلی کو‘ آسودہ حال گھرانے میں بیانا چاہتا تھا۔ لے دے کر‘ اس کی نظر جیراں کے مسیر کے لڑکے پر‘ آ کر رک جاتی۔ جیراں یہ رشتہ نہ کرنا چاہتی تھی۔ وہ شیداں کے لچھن سے بےخبر نہ تھی۔ دوسرا کسی زمانے میں‘ جیراں کی فجے سے بڑی گہری خفیہ سلام دعا رہی تھی۔ وہ دوبارہ سے‘ پرانا رشتہ نیا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ خدا معلوم‘ شیداں باپ کے فیصلے سے کس طرح متفق ہو گئی اور یہ رشتہ ہو ہی گیا۔
الله نے اسے تین بچوں سے نوازا۔ شیداں کے گول مٹول اور پیارے پیارے بچے‘ جیراں سے بڑے مانوس تھے۔ فجا اسے ماضی کی طرف لے جا کر‘ پرانی راہ پر لانا چاہتا تھا۔ ایک لمحہ بھی مل جاتا‘ تو جیراں کے نازک اعضا کو چھونے میں دیر نہ کرتا۔ بیٹی کا گھر‘ ماضی کی بھول اور بیٹی کے بچوں کی محبت کے درمیان گھری جیراں‘ ہر لمحہ اپنے ہی ہاتھوں قتل ہوتی۔ وہ کسی سے اپنا دکھ بھی نہیں بانٹ سکتی تھی۔ اگر شیداں کو علم ہو جاتا‘ کہ اس کی ماں اس کے سسر کے ساتھ موجیں مارا کرتی تھی تو وہ اور تیز ہو جاتی۔ اس کی نفرت کے حلقے مزید وسیع ہو جاتے۔
جیراں کو جہاں اپنی بدنامی کے خدشے‘ کا گھن اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا‘ وہاں یہ اطمنان ضرور تھا‘ شیداں اپھو کا کھیڑا چھوڑ چکی ہے۔ جب کبھی اتفاقا اس کی اپھو سے ملاقات ہو گی‘ تو ہی وہ فجے کی سی حرکتیں کر سکے گا۔ بیٹی کے ہاں آنا تو اس کی سماجی مجبوری تھی۔ خدا لگتی تو یہی تھی‘ کہ فجے کی حرکتیں اگرچہ کچھ نئی نہ تھیں‘ اس کے باوجود‘ اس کے جسد کو‘ ان جانی سی‘ مسرت اور کیف ومستی دان ضرور کرتی تھیں۔
شیداں کچھ دن کے لیے آئی ہوئی تھی۔ اچانک جیراں کو معلوم ہوا‘ کہ شیداں کی گرفت میں ننھا آ گیا تھا۔ منہ متھے لگتا چھوہر تھا۔ اسے دیکھ کر بڑھاپا مچل مچل جاتا تھا یہاں تو جوانی کی لہریں ٹھاٹھیں مار رہی تھیں۔ جیراں کو اس کے گھر اجڑنے کا خدشہ لاحق ہو گیا۔ وہ باتوں باتوں میں سمجھانے کی کوشش کرتی۔ جوابا شیداں کہتی میں اپنے گھر والی ہوں‘ میں اپنا اچھا برا تم سے بہتر جانتی ہو۔ جیراں کو شیداں کا زیادہ دیر میکے رکنا برا لگنے لگا۔ وہ جب بھی آتی‘ یہ اسے کسی ناکسی بہانے ایک دو دن بعد ہی‘ سسرال بھیج دیتی۔ جب کبھی اپنے سسر کے ساتھ آتی‘ چوڑی ہو جاتی۔ فجا کام کاج والا آدمی ہو کر بھی‘ ٹکی ہو جاتا۔ حالاں کہ سوائے چوری چھپے‘ چونڈی تپھے کے‘ اسے کچھ حاصل نہ ہو پاتا تھا۔ اس نے فتو سے گہرے اور دوستانہ تعلقات استوار کر لیے تھے۔
پھر ایک دن وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ ننھے کی محبت کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ شیداں اپنے تینوں بچوں کو چھوڑ کر آگئی۔ جیراں یقینا اچھی عورت نہ تھی۔ اس نے اپنی کسی محبت کے لیے‘ بچوں کو نہ چھوڑا تھا۔ وہ اول تا آخر ان کی بنی رہی۔ یہی اس کی سچی ممتا تھی۔ شیداں ننھے کی محبت میں اپنے بچوں کی نہ بنی تھی۔ سوچنے کی بات تو یہ تھی‘ کہ آتے وقتوں میں وہ ننھے کی بن پائے گی۔ کیا وہ اسے بچوں سے بڑھ کر اسی طرح پیارا رہے گا؟ بچے تو رل خل کر پل ہی جائیں گے لیکن یہ محبت کا کون سا روپ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ کیا اسے محبت کا نام دیا جا سکے گا۔۔۔۔۔۔ ماں کی ممتا سے بڑھ کر کوئی اور چیز بھی ہوتی ہے‘ کیسے مان لیا جائے گا۔
شیداں نے اپنے ابا کو یقین دلا دیا تھا‘ کہ سسرال میں اس کے ساتھ بڑے ظلم ہوتے تھے۔ وہ گھر کی فرد سے بڑھ کر‘ کامی تھی۔ اس کا باپ کہتا‘ میری بیٹی بڑی معصوم تھی۔ ان لوگوں نے تو اس کی قدر ہی نہ پائی تھی۔ وہ تو تھے ہی ناشکرے۔ جیراں بھی فتو کے سامنے‘ اسے بےچاری کرماں ماری اور معصوم ہی کہتی۔ جھوٹے سچے آنسو بھی بہاتی۔ وہ فتو کو کس طرح بتائے‘ کہ اس معصوم نے شادی سے پہلے تین عشق نبھائے۔ چوتھا عشق اولاد پر بھی بھاری ہو گیا تھا۔ عیاش تو وہ بھی تھی‘ لیکن ممتا نے اس کا دامن پکڑے رکھا۔ ممتا کے پردے میں اس کے سارے عشق چھپ گیے تھے۔
وہ یہی سوچتی رہی‘ شیداں کا عشق کس پردہ کی اوٹ میں جا کر اپنی معصومیت کی گواہی دے سکے گا۔
شیداں اپنے ابا کی نظر میں معصوم تھی۔ یہ معصومیت کیسی تھی‘ جو ممتا کی لاش پر تعمیر ہوئی تھی۔ ممتا کی آہیں کراہیں‘ شیداں کی خود ساختہ معصومیت کی لحد میں‘ اتر گئی تھیں۔
3-1-1972
Comment