بڑا آدمی
چالیس سال پہلے‘ ہر زبان پر تھا‘ کہ کورا نکما اور کام چور ہے‘ وہ زندگی میں کچھ نہیں بن سکے گا۔ یہ کہنے سے پہلے‘ کوئی نہیں سوچتا تھا‘ کہ آخر کس بوتے پر‘ بڑا آدمی بن سکوں گا۔ میرے پاس تعلیم تھی نہ پیسہ۔ مجھے تو لمبڑوں کا کتا تک نہ جانتا تھا۔ ابا بچارے‘ مزدور آدمی تھے۔ پتا نہیں کس طرح ہم‘ چار بہنوں اور دو بھائیوں کے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے۔ میں نے کبھی‘ ان کے بدن پر اچھا کپڑا نہیں دیکھا تھا۔ بےچاری اماں کا بھی یہی حال تھا۔ ان دونوں کے چہروں پر‘ بے کسی اور بےبسی ڈیرے جمائے رہتی تھی۔ اس کے باوجود‘ ان کے منہ سے‘ میں نے ناشکری کا کلمہ نہیں سنا تھا۔ میں نہیں کہتا‘ وہ لڑتے یا بحث نہیں کرتے تھے۔ ہاں‘ ہم بہن بھائیوں کے سامنے‘ ہنستے مسکراتے یا سنجیدہ رہتے تھے۔ ان کی زندگی میں‘ کسی نے ہم بہن بھائیوں کے متعلق‘ اپنے منہ سے کوئی برا کلمہ نہیں نکالا تھا۔ وہ رشتہ داروں کے دکھ سکھ میں شامل ہوتے۔ اس پر بھی خرچہ اٹھتا ہو گا۔ انھوں نے مرنے سے پہلے‘ اپنی تینوں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کیے اور باعزت گھر سے رخصت کیا۔۔
انھوں نے ہم دونوں بھائیوں پر‘ بہنوں کا رائی بھر بوجھ نہ رہنے دیا۔ ابا جب مرے‘ گیارہ روپے قرضہ میں نکلے۔ اماں نے ہم دونوں بھائیوں کو پاس بٹھایا اور بدلی صورت حال سے آگاہ کیا۔ یہ بھی کہا‘ کہ تمہارے ابا نے گربت میں بھی‘ شریکے میں عزت بنائے رکھی ہے۔ محنت مشقت کرو‘ تاکہ شریکوں کی بولیاں اور طعنے نہ سننے پڑیں۔ بھائی منڈی میں مزدوری کا کام کرتے۔ سچی بات ہے‘ انھوں نے‘ مجھے محرومی کا احساس تک نہ ہونے دیا‘ کہ میں یتیم ہو گیا ہوں۔ انھوں نے بچت کرکے قرضہ اتارا۔ اماں کو پوتے پوتیاں دیکھنے کی بڑی تمنا تھی۔ ان کی‘ سگی خالہ کی بیٹی سے‘ بڑی سادگی سے‘ نکاح کر دیا گیا۔ پندرہ بیس دن خوشی خوشی گزر گیے۔ پھر بھابی‘ جو خالہ زاد بہن بھی تھی‘ پہلے ہلکے پھلکے اور بعد میں‘ بھاری لفظوں کے پھتر برسانے لگی۔ بےچاری اماں بھی رینج میں آ جاتیں۔
بہنیں کبھی کبھار آ جایا کرتی تھیں۔ اماں کی موت کے بعد‘ بھابی کی چخ چخ سے تنگ آ کر‘ آنا ہی بند کر دیا۔ دل دکھتا۔ میں کیا کر سکتا تھا۔ بھائی تو جیسے گونگے بہرے ہو گیے تھے۔ پاس بیٹھے‘ اپنی بیوی کے زہر بھرے تیر‘ اپنی بہنوں پر برستے دیکھتے رہتے۔ ان کے منہ پر چپ کا تالہ سا لگ گیا تھا۔ میں زیادہ ناسہی‘ کچھ تو کما کر لاتا ہی تھا۔ اس کے باوجود اس کی زبان پر میرے لیے‘ نکما نکھٹو اور حرام خور ایسے ثقیل لفظ رہتے۔ اسی پر اکتفا نہیں کرتیں‘ ہر آنے جانے والے کے سامنے میری بےکاری کا رونا روتی۔ شاید ہی‘ کوئی خرابیی رہ گئی ہو‘ جو میرے نام منسوب کی گئی ہو گی۔
بعض اوقات‘ اس کی چھوٹی اور چچی آنکھوں میں‘ موٹے موٹے آنسو اتر آتے‘ جیسے اس کی کسی نے پھڑکا پھڑکا کر ہڈی پسلی ایک کر دی ہو۔ میں نے بھی چپ میں عافیت سمجھی تھی۔ میں جانتا تھا کہ اگر میرے منہ سے ایک لفظ بھی نکل گیا‘ تو بھائی پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ بےچارہ سارا دن محنت کرتا ہے‘ شام کو آتے ہی‘ اس کی جان کھا لے گی۔ مزے کی بات یہ کہ‘ کھانا کھاتے یا کام پر جاتے وقت‘ اس کا منہ کھلتا۔ یوں برستی‘ جیسے رانی توپ گولے برسا رہی ہو۔ ایک آدھ بار بھائی نے چوں کرنے کی کوشش کی۔ چپ ہونے کی بجائے‘ وہ اور تیز ہو گئی۔ بعض اوقات تو یوں لگتا‘ جیسے اس نے مکتی باہمی والوں سے باقاعدہ ٹرینگ حاصل کر رکھی ہو۔
ماسی جنتے‘ جو میری اماں کی اکلوتی سہیلی تھی‘ اور پورے گاؤں میں پرانی عمر کی عورت تھی‘ ورنہ سب الله کو پیاری ہو چکی تھیں‘ مجھے پیار کرتی اور تسلی دلاسہ دیتی۔ اس نے مجھے الگ ہو جانے کا مشورہ دیا۔ گاؤں کی عورتیں مجھے یوں دیکھتیں‘ جیسے میں ان کے پلے سے کھاتا ہوں۔ میں نکما اور کام چور نہ تھا‘ بس محدود سی کمائ بھابی کی ہتھیلی پر دھرتا تھا ۔ وہ لمبے چوڑے بوبے کی خواہش کرتی تھی‘ مگر بوبا‘ آتا کہاں سے۔ بوبا تو‘ معاشی لٹیروں‘ اسمگلروں‘ دفتری بادشاہوں‘ چھلڑ حضرات یا پھر‘ حاکموں اور ان کے دم چھلوں کے کھیسے لگتا ہے۔
جب دیکھو‘ اپنے میکے والوں کی شرافت اور محنت و مشقت کے قصے سناتی رہتی۔ ماسی تو ہماری تھی‘ کیا ہم انھیں جانتے نہیں تھے۔ بس چپ چاپ اس کی جھوٹی پھوٹیں سنتے رہتے۔ اخلاقی جرات کہاں سے آتی‘ ہم میں اخلاق ہی کب تھا۔ اخلاق گریب لوگوں کی چیز نہیں۔ یہ بنگلوں اور محلوں میں بستا ھے۔ اسے وہاں ہی آسودگی محسوس ہوتی ہے۔
اس رات‘ میں نے گھر سے چلے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ سوال یہ تھا‘ جاؤں گا کہاں؟ میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ میں نے یہ سوچ کر‘ خود کو سمبھالا دیا‘ کہ الله اپنی جناب سے ضرور کوئی ناکوئی بندوبست کر دے گا۔ میں نے صبح کو‘ بھائی سے‘ بھابی کے سامنے‘ اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ بھائی سکتے میں آ گیا‘ اور بجھ سا گیا‘ لیکن بھابی نے کہا‘ جانے دو‘ جب کما کر کھائے گا‘ تو سمجھ آ جائے گی۔ پتا نہیں اورکیا کچھ کہا۔ میں نے بھیگی آنکھوں سے گھر کو خیر آباد کہا۔ بھابی ماں تو نہیں تھی‘ جو کٹ کٹ جاتی اور راہ کی دیوار بن جائے گی۔ وہ تو مجھے لایعنی بوجھ سمجھتی تھی۔ میرے چلے جانے سے‘ اس کی مردود آتما کو‘ شانتی مل گئی ہو گی۔
سارا دن پریشانی‘ بیتے لمحوں کی یاد اور اگلے وقت کی پلانگ کرنے میں گزرا۔ وہ رات‘ میں نے اپنے ایک دوست کے ہاں گزاری۔ صبح اٹھا‘ زندگی میں پہلی مرتبہ مسجد کا رخ کیا۔ وہاں میری ملاقات‘ حاجی ولی محمد صاحب سے ہوئی۔ مجھے نماز پڑھتا دیکھ کر‘ انھوں نے اندازہ لگا لیا‘ کہ پہلی بار نماز پڑھ رہا ہوں۔ انھوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور نماز کی فضیلت اور نماز پڑھنے کے طریقہ سے آگاہ کرنے لگے۔ میں سر جھکا کر‘ بڑھے احترام سے‘ ان کی باتیں سنتا رہا۔ جب انھوں نے‘ بات ختم کی تو میری آنکھیں‘ بےاختیار چھلک پڑیں۔ انھوں نے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے سارا ماجرا کہہ دیا۔ بڑے پریشان ہوءے۔ پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیے۔
ان کی مارکیٹ میں بہت بڑی کپڑے کی دکان تھی۔ دکان پر گاہکی بہت تھی۔ مجھے انھوں نے چائے وغیرہ لانے کا کام سونپا۔ رات کو سو رہنے کے لیے‘ گودام کا ایک کمرہ عنایت کیا۔ میں نے دلی ایمان داری سے کام کیا۔ حاجی صاحب کی چھے بیٹیاں تھیں‘ بیٹا ایک بھی نہ تھا۔ انھوں نے مجھے سچے باپ کا پیار دیا۔ میں پکا نمازی ہو گیا۔ پھر میں گھر کا سودا سلف لا کر دینے لگا۔ میں ان کے گھر کا فرد سا ہو گیا۔ مائی صاحبہ‘ مجھے بڑا پیار کرتی تھیں۔ حاجی صاحب کی بیٹیاں مجھے اپنا بھائی سمجھنے لگیں۔ جس دن حاجی صاحب بیمار ہوتے‘ یا کہیں جاتے‘ میں دکان سمبھلتا۔ پھر حاجی صاحب مسلسل بیمار رہنے لگے۔ میں دکان سمبھالنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کے پاس لیے پھرا۔ رات کو ان کے پاؤں دباتا۔ میں نے ان کی خدمت کرنے میں اپنی سی پوری کوشش کی۔ مجھے ان میں اپنا باپ نظر آتا تھا۔
کب تک‘ موت نے‘ میرا یہ باپ بھی چھین لیا۔ ہاں‘ اس باپ نے‘ مجھے لکھ پتی بنا دیا۔ اب میں علاقہ کا‘ معزز ترین شخص تھا۔ میرے بھیا‘ بھابی کی تلوار زبان کے ہاتھوں‘ چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر زبح ہو گیے۔ اب میں کورا نہیں‘ حاجی عبدالشکور تھا۔ حاجی صاحب کی بیوہ یعنی ماں نے‘ مجھے بھاوج سے نکاح کر لینے کا مشورہ دیا۔ ان کا خیال تھا‘ بچے رل جائیں گے۔ میں ان کے اس مشورے پر حیران تھا لیکن ان کا کہا‘ کیسے ٹال سکتا تھا۔ اب وہ‘ کمو کی بیوی نہیں‘ حاجی عبدالشکور کی بیوی تھی۔ اسے کئی بار بولنے کا دورہ پڑا‘ لیکن اپنے چھوٹے بھائی‘ ہداتے کے ہاتھوں پٹ جاتی۔ یہ وہی بھائی تھا‘ جس کے گن گاتی نہ تھکتی تھی۔ ہدیتا ان دنوں میرا باڈی گارڈ تھا۔ میرے انگلی کے اشارے پر‘ وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ یہ فریضہ‘ میرے کہے یا میرے کسی اشارے کے بغیر ہی انجام دیتا تھا۔
میں نے پچھلا الیکشن بھی جیتا۔ الله نے بڑی عزت دی ہے۔ کسی چیز کی کمی باقی نہیں رہی۔ حاجی صاحب قصہ پارینہ ہو گیےہیں۔ بہت کم لوگوں کو‘ وہ یاد رہے ہیں۔ آج میں‘ سب کو یا د ہوں۔ آتے کل کو‘ لوگ میرے بیٹے کو یاد رکھیں گے۔ دونوں طرف کی بہنیں آتی ہیں۔ میں ان کی عزت اور خدمت کرتا ہوں۔ اپنی ضرورت سے زیادہ‘ کمائی میں سے نہیں رکھتا۔ یہ بہنیں‘ مجھے سگی بہنوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ سب کچھ‘ ان ہی کا تو ہے‘ میری اصل اوقات تو چائے لانے والے کی ہے۔ مال و دولت اور عزت مجھے محنت کرکے دستیاب نہیں ہوئی۔ محنت کی کمائی سے تو‘ میں ایک بکری بھی نہیں خرید سکتا تھا۔ یہ اوپر والے کا خصوصی احسان تھا۔ وقت کی خوش گوار کروٹ تھی۔
آج میں بڑا اور صاحب حثیت آدمی ہوں‘ مگر کب تک‘ بس سانسوں کے آنے جانے تک۔ اس کے بعد‘ کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں رہوں گا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ لوگ میرے سامنے اور پشت پیچھے‘ مجھے بڑا آدمی کہتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ سوچتا ہوں‘ یہ کیسا بڑاپن ہے‘ جو سانسوں سے مشروط ہے۔ بڑا تو سقراط تھا‘ جو مر کر بھی‘ مرا نہیں۔ وقت کا فیصلہ بھی کتنا عجیب ہے‘ کہ شاہ حسین سے بھوکے ننگے‘ آج بھی زندہ اورلاکھوں دلوں میں‘ اپنی عزت اور محبت رکھتے ہیں۔ قارون کے سوا‘ مجھ سے لاکھوں لکھ پتی‘ جو وقت کے بہت بڑے آدمی تھے‘ آج کسی کو یاد تک نہیں ہیں۔ یہ بڑاپن کیسا ہے‘ جو کیڑوں مکوڑوں سے مختلف نہیں۔
9-2-1978