استاد غالب ضدین اور آل ہند کی زبان
استاد غالب بلاشبہ‘ جملہ زبانوں کے شعری ادب میں جھومر کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی طور پر تین وجوہ ہیں۔
١۔ اوروں سے ہٹ کر اور الگ سے بات کرتے ہیں۔
٢۔ اپنے کہے کا جوازپیش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی بات اور کبھی جواز‘ غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے۔
٣۔ مزید وضاحت کے لئے ضدین کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔
ان کی عملی زندگی میں‘ ضدین کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ آدھا کافر اور آدھا مسلمان ہونے کا جواز رکھتے تھے۔ کافری‘ درحیقیقت ان کی مسلمانی کی شناخت تھی۔ استاد کا یہ بڑا پن تھا‘ جو انھوں نے اپنی کافری کا اقرار کیا‘ ورنہ سو میں سے ایک بھی نہیں نکلے گا‘ جو اپنی ذات کی غالب ضد کا اقرار کرے۔ دیکھائے کوئی ایک عیسائی‘ جو تپھڑ رسید کرنے والے کے سامنے‘ اپنا دوسرا پنجے سے پاک صاف رخسار پیش کر دیتا ہو۔ یہی صورت مسلمانوں کی ہے۔ آپ کریم نے ایک جملے میں انسانی آئین بیان کر دیا۔ آپ کریم کا فرمان گرامی ہے کہ مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ آج مسلمانوں کی‘ کسی خطہ میں کمی نہیں‘ لیکن وہ اپنی شخصیت میں موجود غیر مسلمانی ضد کو‘ تسلیم نہیں کرے گا۔ اسلحاظ سے‘ استاد غالب نمبر لے گئے ہیں۔
ہمارے‘ الله بخشے‘ ایک ملنے والے ہوا کرتے تھے۔ بڑے خوش مزاج تھے۔ ایک دو تین نہیں‘ چار عدد خواتین کے مجازی خدا تھے۔ چہرے پر اکلوتا چب یا ڈنٹ نہیں تھا۔ اکلوتی خاتون کے مزاجی خدا کا چہرا مبارک دس بیس سالوں میں لمک جاتا ہے۔ خواتین پھولتی جاتی ہیں‘ جبکہ مرد حضرات اپنے مرحوم یا زندہ والدین کا محض صدقہ جاریہ رہ جاتے ہیں۔ دوست احباب حیران تھے‘ چومکھی لڑائی کے بعد بھی حضرت ناصرف توانا اور صحیح سلامت ہیں‘ مزید کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ ہر بار اسلام آڑے آ جاتا۔
مرحوم اور پانچویں سے محروم‘ بڑے اسلام پرست تھے۔ اسلامی معروف کلمات موقع بہ موقع ادا کرتے رہتے تھے۔ مثلا سبحان الله‘ بسم الله‘ الله اکبر‘ ماشاءالله‘ ان شاءالله وغیرہ وغیرہ۔ جنازہ اور عیدین کی نمازوں کا‘ شاید ہی‘ ان سا‘ کوئی پابند ہو گا۔ سلام میں پہل کرنا‘ بڑے پیار سے سلام کا جواب دینا‘ ان کی فطرت ثانیہ کا درجہ رکھتے تھے۔ تلقین تک ان کا اسلام اے ون تھا۔ اسی طرح اور بھی اسلامی واجبات میں ان کا ڈھونڈے سے ثانی نہ مل سکے گا۔
ایک دن‘ میں نے بے تکلف ہونے کی کوشش میں‘ پوچھ ہی لیا‘ آپ چاروں طرف سے گرفت میں ہیں لیکن عملا آپ کے چہرے اورجسم‘ جان اور روح پر گرفت کے رائی بھر آثار موجود نہیں ہیں۔ آپ اوپر نیچے کی بچی اطراف کو بھی‘ کوور کرنے کی فکر میں ہیں۔ آپ کی صحت اور خوش طبی کا راز کیا ہے۔ خوراک سے یہ مسلہ حل ہونے والا نہیں‘ تیتر کھلا کر ایک مرتبہ زوجہ ماجدہ کا چہرا کرا دینے سے‘ دو بوند بننے والا کیا‘ پہلے سے موجود میں سے بھی‘ ڈیڑھ پاؤ ناسہی‘ پاؤ تو ضرور خشک ہو جاتا ہے۔ مرحوم میری بے تکلفی کے قریب کی سن کر ہنس پڑے۔ پھر سنجیدہ سے ہو گئے۔ دو تین منٹ سنجیدگی کی نذر ہو گئے۔
اس سنجیدگی کو دیکھ کر ہم یہ سمجھے حضرت اندر سے دکھی اور زخمی ہیں۔ اگر یہ سنجیدگی تقریبا نہ ہوتی‘ تو میں شدید کا سابقہ استمال کرتا۔ سنجیدگی اور خاموشی بتا رہی تھی کہ یہ کچھ بتانے والے نہیں اور بات کو گول مول کر دیں گے۔ ہمارا اندازہ غلط نکلا۔ فرمانے لگے یک فنے ناکام رہتے ہیں۔ اپنے استاد ہی کو لے لو‘ شاعر نثار اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بذلہ سنج بھی تھا۔ خوش طبی میں اس کا ثانی دکھاؤ۔ ان کی خوش طبی سے جڑےواقعات ابھی تک جمع نہیں ہوئے۔ یک فنے تکرار کا شکار رہتے ہیں۔ میں چوفنا ہوں۔ میں ضدین کا قائل‘ مائل اور عامل ہوں۔
کمال ہے‘ ازدواجین میں رہ کر بھی‘ مکمل ہوش و حواس اور دانش سے لبریز گف گو فرما رہے تھے۔
میں یہ ضدین اور کامیابی کا فلسفہ نہیں سمجھ سکا۔
جاؤ‘ پہلے جا کر‘ عقد ثانی کرو‘ پھر آنا‘ سمجھا دوں گا۔ یہ تمہارے کام کی چیز نہیں اور ناہی تمہارے لئے‘ عمل کی راہ موجود ہے۔
پہلے سمجھائیں‘ پھر عقد ثانی کا انتظام و اہتمام کروں گا۔ بڑے بڑے بادشاہوں نے دھڑلے سے حکومت کی ہے۔ کیوں‘ ضدین کے فلسفے سے آگاہی رکھتے تھے۔ کوئی دھڑا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ چور کو کہتے چوری کرو‘ گھر والوں کو‘ ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے۔ دونوں سمجھتے‘ بادشاہ ہمارا ہے‘ حالاں کہ وہ کسی کا نہیں ہوتا۔ وہ تو تاج و تخت کے معاملہ میں‘ اپنی اولاد کا خیر خواہ نہیں ہوتا۔ جو دائیں آنکھ پر چڑھتا‘ اسے طریقے سے‘ مروا دیتا تھا۔ یہ کام بھی تکنیکی انداز سے کرتا تھا۔ دو فریقوں سے گہری رکھ کر‘ ان میںنفاق پیدا کرکے‘ لڑا دیتا۔ ایک فریق قتل ہو جاتا‘ تو دوسرا انصاف بھینٹ چزھ جاتا۔
میں نے عرض کی‘ حضور اسلام نفاق ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ اسلام دوست ہیں‘ اپنے گھر میں ہی نفاق ڈالتے ہیں۔ کہنے لگے‘ ہم سب آدھے مسلمان ہیں اور آدھے کافر۔
نکاح سنت ہے اور اس سنت کی میں نے آخری سطع چھو رکھی ہے‘ اس حوالہ سے آدھا مسلمان ہوں۔ تقسیم کرتا ہوں‘ اس حوالہ سے آدھا کافر ہوں۔ تقسیم نہیں کروں گا‘ تو حکومت کیسے کروں گا۔ یہ تو مانتے ہو‘ میری آدھی مسلمانی قائم ہے۔ تم لوگ تو آدھی مسلمانی سے بھی محروم ہو‘ تب ہی تو تمہاری زندگی چھتر چھاؤں میں بسر ہو رہی ہے۔
نفاذ اسلام ایسا آسان کام نہیں‘ زوجہ جانی کا خوف اور دہشت گردی اپنی جگہ‘ مہنگائی نے سانس لینا دوبھر کر دیا ہے۔ دو کہووں کی واہی کے بیلوں کے لئے‘ چارہ وغیرہ کہاں سے آئے گا۔ ہاں البتہ‘ آدھی مسلمانی کا رستہ بند نہیں ہوتا۔ عقد ثانی‘ نفاذ اسلام کا ذریعہ موجود ہے۔ ملازم ہو‘ تو خوب رشوت لو‘ تاجر ہو‘ تو معقول کی بددیانتی کو تگنا کر دو۔ دوگنا زوجہ ثانی کے لئے‘ جبکہ تیسرا اگلا چانس لینے کے لئے۔
ہم انگریز کی شرع اور شرح پر چلتے آ رہے ہیں۔ ان سے پہلوں کی بھی یہی شرع تھی۔ جس کا واضح ثبوت‘ مقامی غداروں کا میسر آ جانا ہے۔ اگر یہ غدار میسر نہ آتے‘ تو آنے والوں کے لفڑے لہہ جاتے۔ آتا کوئی سر اور دھڑ سلامت نہ رہتا‘ بلکہ ان کی لاشوں پر بین کرنے والا بھی نہ ملتا۔
برصغیر میں ٹوپی سلار کے عہد ہی سے‘ مسلم اقتدار کا زوال شروع ہو گیا تھا۔ تاہم اقتدار مسلمانوں کے پاس ہی تھا۔ بہادر شاہ اول کوئی مضبوط حکمران نہ ‘لیکن کسی حد تک سہی‘ اپنے پیش رو کی طرح ایک ہی وقت میں‘ ایک ہی شخص کو‘ قبض اور پیچس لاحق کرنے سے آگاہ تھا۔ ١٧١٢ میں اس گر سے نابلد لوگ‘ تخت نشین ہوئے۔ والی مسیور کی شہادت کے بعد بھی‘ مزاحمت ہوتی رہی‘ لیکن ٹیپو آخری دیوار تھی۔ اسے غیر کیا فتح کرتے‘ گھر کے بھیدی لے ڈوبے۔
اس ذیل میں میر صاحب کا کہا ملاحظہ ہو۔
غیر نے ہم کوذبح کیا ہے طاقت ہے نے یارا ہے
ایک کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو پھاڑا ہے
اس کے بعد شدید خطرے کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔ انگریز کو کھلا میدان مل گیا۔ وہ ہر مرضی کی کھیل پر قادر ہو گیا۔
ٹیپو کی شہادت کا بڑی دھوم سے جشن منایا گیا۔ اس جشن میں‘ اس کے نام نہاد اپنے بھی شامل تھے۔ انگریز ضدین کی ضرورت اور اہمیت سے خوب خوب آگاہ تھا۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ کہ وہ یہاں کے پہلوں کا بھی پیو تھا‘ تو غلط نہ ہو گا۔ قبض‘ پیچس اور ہیضہ ایک وقت میں‘ ایک شخص کو لاحق کر دئے گئے۔ اس طرح‘ آل ہند کی تقسیم و تفریق کے بہت سارے دروازے کھول دئیے گئے۔
اس ذیل میں‘ فورٹ ولیم کالج کے کردار کو نظر انداز کرنا‘ زیادتی ہو گی۔ اس کی خدمات‘ سنہری حروف میں‘ درج کئے جانے کے قابل ہیں۔ اس نے‘ آل ہند کی زبان کے‘ دو خط متعارف کرائے۔
اردو خط‘ مسلمانوں کے لئے اور اسے مسلمانوں کی زبان قرار دیا۔
دوسرا خط‘ آل ہند کی غیرمسلم عقیدہ والی نسل کے لئے اور اسے ان کی زبان کا نام دیا۔
اس سے بیک وقت تین فائدے ہوئے۔
١۔ آل ہند زبان پر تقسیم ہو کر باہمی نفاق کا شکار ہو گئی۔
٢۔ ایک دوسرے کے‘ تحریری اور علمی و ادبی سرمائے سے‘ دور ہو گئی۔
٣۔ بولنے والوں کی گنتی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
آل ہند کی یہ زبان‘ دنیا میں دوسرا نمبر رکھتی ہے۔ اپنے تعدادی اسٹیٹس سے محروم نہیں‘ مرحوم ہو گئی۔
ایک ہی بات‘ دو خطوں میں لکھی‘ ایک دوسرے کے لئے لایعنی ٹھہری۔ انگریز نے اپنے رابطے کے لیے رومن خط کو رواج دیا۔
حالاں کہ حقیقت یہ ہے‘ کہ زبان کسی کی نہیں ہوتی‘ زبان تو اسی کی ہے‘ جو اسے استعمال میں لاتا ہے۔
زبان کی خواندگی کے لئے چار عمومی امور ہوتے ہیں۔
١۔ بولنا
٢۔ سمجھنا
٣۔ لکھنا
٤۔ پڑھنا
ان میں سے‘ کسی ایک سکل سے متعلق شخص کو‘ نا خواندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں‘ ان پڑھ حضرات کی کمی نہیں۔ وہ دیوناگری والوں کی فلمیں ڈرامے اور دیگر پروگرام دیکھتے ہیں۔ انھیں ان کی سمجھ بھی آتی ہے لیکن وہ بول نہیں سکتے۔ یہی حال‘ پڑھے لکھوں کا ہے۔ سمجھ اور بول سکتے ہیں۔ اردو خط والوں کا کہا‘ دیو ناگری خط والوں کے لیے غیر نہیں‘ لیکن دونوں‘ ایک دوسرے کے تحریری سرمائے سے‘ استفادہ کرنے سے قاصر ہیں۔
رومن‘ آل ہند کو ایک مقام پر کھڑا کرتا ہے‘ لیکن اس سے فائدہ انگریزی جاننے والے ہی اٹھا سکتے ہیں۔ اس دائرے میں‘ دیگر لوگ‘ انگریز عرب جاپانی وغیرہ‘ آ جاتے ہیں۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو‘ یہ دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ لوگوں کی زبان شمار ہوگی۔
آل ہند کی اس زبان کے ساتھ‘ غیر تو غیر‘ اپنے بھی سازشوں میں مصروف ہیں۔
ایم فل اور پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی کام‘ ٹوٹل پورا کرنے کے مترادف ہو رہے ہیں۔
دونوں خطوں کی تحریریں ایک دوسرے کے لیے حوالہ نہیں بن رہیں۔
انگریزی یا کسی دوسری زبان کے مواد سے‘ تصرف عیب نہیں لیکن یہ ایک دوسرے سے حوالہ نہیں لے رہے۔
آل ہند کے درمیان زبان کے حوالہ سے‘ تعصب کی فلک بوس دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔
ستم دیکھئیے سرور عالم راز صاحب بڑے زبردست عالم فاضل ہیں۔ اپنے ایک خط میں کیا فخر سے فرماتے ہیں۔
اردو انجمن میں صرف اردو اور رومن اردو میں ہی چیزیں لگائی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی کچھ
عرصہ قبل ہی ایک صاحب نے ہندی میں یہاں لکھنے کی کوشش کی تھی اور بصد معذرت
ان کو منع کر دیا گیا تھا۔
آپ سے کوئی پوچھے‘ یہ رومن خط کس طرح کی اردو ہے؟ اس زبان کے دو خط ‘ان کو گوارا ہیں‘ تیسرا انھیں خوش نہیں آتا۔ اصل انصاف تو یہ ہے‘ کہ یہاں صرف اردو خط والوں کو جگہ دی جائے۔ ہاں دیگر زبانوں کا مواد شائع نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ فورم صرف اور صرف اردو خط والوں کا ہے۔ اس کا نام ہی اردو انجمن ہے‘ اس لئے دوسری زبان کا مواد آنا‘ درست اور مناسب نہیں۔ یہ معاملہ مبنی بر حق ہے۔
استاد غالب بلاشبہ‘ جملہ زبانوں کے شعری ادب میں جھومر کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی طور پر تین وجوہ ہیں۔
١۔ اوروں سے ہٹ کر اور الگ سے بات کرتے ہیں۔
٢۔ اپنے کہے کا جوازپیش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی بات اور کبھی جواز‘ غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے۔
٣۔ مزید وضاحت کے لئے ضدین کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔
ان کی عملی زندگی میں‘ ضدین کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ آدھا کافر اور آدھا مسلمان ہونے کا جواز رکھتے تھے۔ کافری‘ درحیقیقت ان کی مسلمانی کی شناخت تھی۔ استاد کا یہ بڑا پن تھا‘ جو انھوں نے اپنی کافری کا اقرار کیا‘ ورنہ سو میں سے ایک بھی نہیں نکلے گا‘ جو اپنی ذات کی غالب ضد کا اقرار کرے۔ دیکھائے کوئی ایک عیسائی‘ جو تپھڑ رسید کرنے والے کے سامنے‘ اپنا دوسرا پنجے سے پاک صاف رخسار پیش کر دیتا ہو۔ یہی صورت مسلمانوں کی ہے۔ آپ کریم نے ایک جملے میں انسانی آئین بیان کر دیا۔ آپ کریم کا فرمان گرامی ہے کہ مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ آج مسلمانوں کی‘ کسی خطہ میں کمی نہیں‘ لیکن وہ اپنی شخصیت میں موجود غیر مسلمانی ضد کو‘ تسلیم نہیں کرے گا۔ اسلحاظ سے‘ استاد غالب نمبر لے گئے ہیں۔
ہمارے‘ الله بخشے‘ ایک ملنے والے ہوا کرتے تھے۔ بڑے خوش مزاج تھے۔ ایک دو تین نہیں‘ چار عدد خواتین کے مجازی خدا تھے۔ چہرے پر اکلوتا چب یا ڈنٹ نہیں تھا۔ اکلوتی خاتون کے مزاجی خدا کا چہرا مبارک دس بیس سالوں میں لمک جاتا ہے۔ خواتین پھولتی جاتی ہیں‘ جبکہ مرد حضرات اپنے مرحوم یا زندہ والدین کا محض صدقہ جاریہ رہ جاتے ہیں۔ دوست احباب حیران تھے‘ چومکھی لڑائی کے بعد بھی حضرت ناصرف توانا اور صحیح سلامت ہیں‘ مزید کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ ہر بار اسلام آڑے آ جاتا۔
مرحوم اور پانچویں سے محروم‘ بڑے اسلام پرست تھے۔ اسلامی معروف کلمات موقع بہ موقع ادا کرتے رہتے تھے۔ مثلا سبحان الله‘ بسم الله‘ الله اکبر‘ ماشاءالله‘ ان شاءالله وغیرہ وغیرہ۔ جنازہ اور عیدین کی نمازوں کا‘ شاید ہی‘ ان سا‘ کوئی پابند ہو گا۔ سلام میں پہل کرنا‘ بڑے پیار سے سلام کا جواب دینا‘ ان کی فطرت ثانیہ کا درجہ رکھتے تھے۔ تلقین تک ان کا اسلام اے ون تھا۔ اسی طرح اور بھی اسلامی واجبات میں ان کا ڈھونڈے سے ثانی نہ مل سکے گا۔
ایک دن‘ میں نے بے تکلف ہونے کی کوشش میں‘ پوچھ ہی لیا‘ آپ چاروں طرف سے گرفت میں ہیں لیکن عملا آپ کے چہرے اورجسم‘ جان اور روح پر گرفت کے رائی بھر آثار موجود نہیں ہیں۔ آپ اوپر نیچے کی بچی اطراف کو بھی‘ کوور کرنے کی فکر میں ہیں۔ آپ کی صحت اور خوش طبی کا راز کیا ہے۔ خوراک سے یہ مسلہ حل ہونے والا نہیں‘ تیتر کھلا کر ایک مرتبہ زوجہ ماجدہ کا چہرا کرا دینے سے‘ دو بوند بننے والا کیا‘ پہلے سے موجود میں سے بھی‘ ڈیڑھ پاؤ ناسہی‘ پاؤ تو ضرور خشک ہو جاتا ہے۔ مرحوم میری بے تکلفی کے قریب کی سن کر ہنس پڑے۔ پھر سنجیدہ سے ہو گئے۔ دو تین منٹ سنجیدگی کی نذر ہو گئے۔
اس سنجیدگی کو دیکھ کر ہم یہ سمجھے حضرت اندر سے دکھی اور زخمی ہیں۔ اگر یہ سنجیدگی تقریبا نہ ہوتی‘ تو میں شدید کا سابقہ استمال کرتا۔ سنجیدگی اور خاموشی بتا رہی تھی کہ یہ کچھ بتانے والے نہیں اور بات کو گول مول کر دیں گے۔ ہمارا اندازہ غلط نکلا۔ فرمانے لگے یک فنے ناکام رہتے ہیں۔ اپنے استاد ہی کو لے لو‘ شاعر نثار اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بذلہ سنج بھی تھا۔ خوش طبی میں اس کا ثانی دکھاؤ۔ ان کی خوش طبی سے جڑےواقعات ابھی تک جمع نہیں ہوئے۔ یک فنے تکرار کا شکار رہتے ہیں۔ میں چوفنا ہوں۔ میں ضدین کا قائل‘ مائل اور عامل ہوں۔
کمال ہے‘ ازدواجین میں رہ کر بھی‘ مکمل ہوش و حواس اور دانش سے لبریز گف گو فرما رہے تھے۔
میں یہ ضدین اور کامیابی کا فلسفہ نہیں سمجھ سکا۔
جاؤ‘ پہلے جا کر‘ عقد ثانی کرو‘ پھر آنا‘ سمجھا دوں گا۔ یہ تمہارے کام کی چیز نہیں اور ناہی تمہارے لئے‘ عمل کی راہ موجود ہے۔
پہلے سمجھائیں‘ پھر عقد ثانی کا انتظام و اہتمام کروں گا۔ بڑے بڑے بادشاہوں نے دھڑلے سے حکومت کی ہے۔ کیوں‘ ضدین کے فلسفے سے آگاہی رکھتے تھے۔ کوئی دھڑا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ چور کو کہتے چوری کرو‘ گھر والوں کو‘ ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے۔ دونوں سمجھتے‘ بادشاہ ہمارا ہے‘ حالاں کہ وہ کسی کا نہیں ہوتا۔ وہ تو تاج و تخت کے معاملہ میں‘ اپنی اولاد کا خیر خواہ نہیں ہوتا۔ جو دائیں آنکھ پر چڑھتا‘ اسے طریقے سے‘ مروا دیتا تھا۔ یہ کام بھی تکنیکی انداز سے کرتا تھا۔ دو فریقوں سے گہری رکھ کر‘ ان میںنفاق پیدا کرکے‘ لڑا دیتا۔ ایک فریق قتل ہو جاتا‘ تو دوسرا انصاف بھینٹ چزھ جاتا۔
میں نے عرض کی‘ حضور اسلام نفاق ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ اسلام دوست ہیں‘ اپنے گھر میں ہی نفاق ڈالتے ہیں۔ کہنے لگے‘ ہم سب آدھے مسلمان ہیں اور آدھے کافر۔
نکاح سنت ہے اور اس سنت کی میں نے آخری سطع چھو رکھی ہے‘ اس حوالہ سے آدھا مسلمان ہوں۔ تقسیم کرتا ہوں‘ اس حوالہ سے آدھا کافر ہوں۔ تقسیم نہیں کروں گا‘ تو حکومت کیسے کروں گا۔ یہ تو مانتے ہو‘ میری آدھی مسلمانی قائم ہے۔ تم لوگ تو آدھی مسلمانی سے بھی محروم ہو‘ تب ہی تو تمہاری زندگی چھتر چھاؤں میں بسر ہو رہی ہے۔
نفاذ اسلام ایسا آسان کام نہیں‘ زوجہ جانی کا خوف اور دہشت گردی اپنی جگہ‘ مہنگائی نے سانس لینا دوبھر کر دیا ہے۔ دو کہووں کی واہی کے بیلوں کے لئے‘ چارہ وغیرہ کہاں سے آئے گا۔ ہاں البتہ‘ آدھی مسلمانی کا رستہ بند نہیں ہوتا۔ عقد ثانی‘ نفاذ اسلام کا ذریعہ موجود ہے۔ ملازم ہو‘ تو خوب رشوت لو‘ تاجر ہو‘ تو معقول کی بددیانتی کو تگنا کر دو۔ دوگنا زوجہ ثانی کے لئے‘ جبکہ تیسرا اگلا چانس لینے کے لئے۔
ہم انگریز کی شرع اور شرح پر چلتے آ رہے ہیں۔ ان سے پہلوں کی بھی یہی شرع تھی۔ جس کا واضح ثبوت‘ مقامی غداروں کا میسر آ جانا ہے۔ اگر یہ غدار میسر نہ آتے‘ تو آنے والوں کے لفڑے لہہ جاتے۔ آتا کوئی سر اور دھڑ سلامت نہ رہتا‘ بلکہ ان کی لاشوں پر بین کرنے والا بھی نہ ملتا۔
برصغیر میں ٹوپی سلار کے عہد ہی سے‘ مسلم اقتدار کا زوال شروع ہو گیا تھا۔ تاہم اقتدار مسلمانوں کے پاس ہی تھا۔ بہادر شاہ اول کوئی مضبوط حکمران نہ ‘لیکن کسی حد تک سہی‘ اپنے پیش رو کی طرح ایک ہی وقت میں‘ ایک ہی شخص کو‘ قبض اور پیچس لاحق کرنے سے آگاہ تھا۔ ١٧١٢ میں اس گر سے نابلد لوگ‘ تخت نشین ہوئے۔ والی مسیور کی شہادت کے بعد بھی‘ مزاحمت ہوتی رہی‘ لیکن ٹیپو آخری دیوار تھی۔ اسے غیر کیا فتح کرتے‘ گھر کے بھیدی لے ڈوبے۔
اس ذیل میں میر صاحب کا کہا ملاحظہ ہو۔
غیر نے ہم کوذبح کیا ہے طاقت ہے نے یارا ہے
ایک کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو پھاڑا ہے
اس کے بعد شدید خطرے کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔ انگریز کو کھلا میدان مل گیا۔ وہ ہر مرضی کی کھیل پر قادر ہو گیا۔
ٹیپو کی شہادت کا بڑی دھوم سے جشن منایا گیا۔ اس جشن میں‘ اس کے نام نہاد اپنے بھی شامل تھے۔ انگریز ضدین کی ضرورت اور اہمیت سے خوب خوب آگاہ تھا۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ کہ وہ یہاں کے پہلوں کا بھی پیو تھا‘ تو غلط نہ ہو گا۔ قبض‘ پیچس اور ہیضہ ایک وقت میں‘ ایک شخص کو لاحق کر دئے گئے۔ اس طرح‘ آل ہند کی تقسیم و تفریق کے بہت سارے دروازے کھول دئیے گئے۔
اس ذیل میں‘ فورٹ ولیم کالج کے کردار کو نظر انداز کرنا‘ زیادتی ہو گی۔ اس کی خدمات‘ سنہری حروف میں‘ درج کئے جانے کے قابل ہیں۔ اس نے‘ آل ہند کی زبان کے‘ دو خط متعارف کرائے۔
اردو خط‘ مسلمانوں کے لئے اور اسے مسلمانوں کی زبان قرار دیا۔
دوسرا خط‘ آل ہند کی غیرمسلم عقیدہ والی نسل کے لئے اور اسے ان کی زبان کا نام دیا۔
اس سے بیک وقت تین فائدے ہوئے۔
١۔ آل ہند زبان پر تقسیم ہو کر باہمی نفاق کا شکار ہو گئی۔
٢۔ ایک دوسرے کے‘ تحریری اور علمی و ادبی سرمائے سے‘ دور ہو گئی۔
٣۔ بولنے والوں کی گنتی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
آل ہند کی یہ زبان‘ دنیا میں دوسرا نمبر رکھتی ہے۔ اپنے تعدادی اسٹیٹس سے محروم نہیں‘ مرحوم ہو گئی۔
ایک ہی بات‘ دو خطوں میں لکھی‘ ایک دوسرے کے لئے لایعنی ٹھہری۔ انگریز نے اپنے رابطے کے لیے رومن خط کو رواج دیا۔
حالاں کہ حقیقت یہ ہے‘ کہ زبان کسی کی نہیں ہوتی‘ زبان تو اسی کی ہے‘ جو اسے استعمال میں لاتا ہے۔
زبان کی خواندگی کے لئے چار عمومی امور ہوتے ہیں۔
١۔ بولنا
٢۔ سمجھنا
٣۔ لکھنا
٤۔ پڑھنا
ان میں سے‘ کسی ایک سکل سے متعلق شخص کو‘ نا خواندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں‘ ان پڑھ حضرات کی کمی نہیں۔ وہ دیوناگری والوں کی فلمیں ڈرامے اور دیگر پروگرام دیکھتے ہیں۔ انھیں ان کی سمجھ بھی آتی ہے لیکن وہ بول نہیں سکتے۔ یہی حال‘ پڑھے لکھوں کا ہے۔ سمجھ اور بول سکتے ہیں۔ اردو خط والوں کا کہا‘ دیو ناگری خط والوں کے لیے غیر نہیں‘ لیکن دونوں‘ ایک دوسرے کے تحریری سرمائے سے‘ استفادہ کرنے سے قاصر ہیں۔
رومن‘ آل ہند کو ایک مقام پر کھڑا کرتا ہے‘ لیکن اس سے فائدہ انگریزی جاننے والے ہی اٹھا سکتے ہیں۔ اس دائرے میں‘ دیگر لوگ‘ انگریز عرب جاپانی وغیرہ‘ آ جاتے ہیں۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو‘ یہ دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ لوگوں کی زبان شمار ہوگی۔
آل ہند کی اس زبان کے ساتھ‘ غیر تو غیر‘ اپنے بھی سازشوں میں مصروف ہیں۔
ایم فل اور پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی کام‘ ٹوٹل پورا کرنے کے مترادف ہو رہے ہیں۔
دونوں خطوں کی تحریریں ایک دوسرے کے لیے حوالہ نہیں بن رہیں۔
انگریزی یا کسی دوسری زبان کے مواد سے‘ تصرف عیب نہیں لیکن یہ ایک دوسرے سے حوالہ نہیں لے رہے۔
آل ہند کے درمیان زبان کے حوالہ سے‘ تعصب کی فلک بوس دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔
ستم دیکھئیے سرور عالم راز صاحب بڑے زبردست عالم فاضل ہیں۔ اپنے ایک خط میں کیا فخر سے فرماتے ہیں۔
اردو انجمن میں صرف اردو اور رومن اردو میں ہی چیزیں لگائی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی کچھ
عرصہ قبل ہی ایک صاحب نے ہندی میں یہاں لکھنے کی کوشش کی تھی اور بصد معذرت
ان کو منع کر دیا گیا تھا۔
آپ سے کوئی پوچھے‘ یہ رومن خط کس طرح کی اردو ہے؟ اس زبان کے دو خط ‘ان کو گوارا ہیں‘ تیسرا انھیں خوش نہیں آتا۔ اصل انصاف تو یہ ہے‘ کہ یہاں صرف اردو خط والوں کو جگہ دی جائے۔ ہاں دیگر زبانوں کا مواد شائع نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ فورم صرف اور صرف اردو خط والوں کا ہے۔ اس کا نام ہی اردو انجمن ہے‘ اس لئے دوسری زبان کا مواد آنا‘ درست اور مناسب نہیں۔ یہ معاملہ مبنی بر حق ہے۔