بیوہ طواءف
میں نہیں کہتا کہ میں کوئ پریم دیوتا ہوں۔ بالکل عام سا‘ گوشت پوست کا‘ حاجات میں گھرا انسان ہوں۔ تمام تعریف کے کلمے‘ خداوند عالم کی طرف پھرتے ہیں۔ جملہ تخلیق و تجدید کا وہی سرچشمہ ہے۔ اس کے لطف و کرم کا زندہ ثبوت یہی ہے‘ کہ میں زندہ ہوں اور آپ کے روبرو ہوں‘ ورنہ مجھے تو تخلیق کے پہلے روز ہی‘ نفرت کی کند چھری سے‘ زبح کرنے کی سازش کی گئی۔ خود غرض اور ذات پرست آج بھی ختم نہیں ہوءے۔ ان کی تعداد میں ہر چند اضافہ ہی ہوا ہے۔ شر اور خیر کو متوازی چلتے رہنا ہے۔ دونوں کے رستے الگ سہی‘ لیکن انھیں ایک ساتھ‘ ہر ذی نفس کے ساتھ منسلک رہنا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے‘ کہ خیر زندگی کے ہر موسم میں‘ انسان کی خیر خواہ رہتی ہے‘ جب کہ شر‘ خود غرضی کے خوب صورت لباس میں‘ جسم سے خیر کا آخری قطرہ نچوڑ کر‘ اپنی راہ لیتی ہے۔
نورین! جب اعضا کم زور پڑ جاتے ہیں‘ تو کوئ ساتھ نہیں دیتا۔ محبت الفت اور پیار کے رشتے معنویت کھو دیتے ہیں۔ دوسری طرف واپسی کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دکھ کا یہ موسم‘ تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تنہا گزارنا پڑتا ہے۔
لوگوں کا نئی منزلوں کی طرف سفر کرنا‘ بڑا پرانا وتیرہ ہے۔ زندگی کے اس موڑ پر‘ رونا چیخنا چلانا یا مدد کے لیے پکارنا‘ لایعنیٹ کی کھائی میں جا گرتا ہے۔ وقت کا زہریلا ناگ‘ آدمی کو بےبس کر دیتا ہے۔ وہ چاہتے ہوءے بھی‘ کچھ نہیں کر پاتا۔ یہی اصول فطرت اور یہی اصول زمانہ ہے۔
بےبسی اور بےکسی کے اس موڑ پر‘ فقط اہل اخلاص کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ موسوں کی دھوپ‘ ان کے لیے ایک آزمائش سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر آزمائش انھیں نئے عزم سے سرفراز کرتی ہے۔
نورین! تم زندگی کی بازی ہار چکی ہو۔ یہ شکست تمہیں قبول کرنا پڑے گی۔ اس کے سوا‘ تمہارے پاس کوئ چارہءکار ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر بیوہ طواءف کا‘ یہی حشر ہوا کرتا ہے۔ نخرے اٹھانے اور مال لوٹانے اب کوئی نہیں آئے گا۔ دولت یوں ہی نہیں چلی آتی‘ اس کے حصول کے لیے سو طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ ماضی میں تم نے‘ محبت پر‘ جنسی لذت کو ترجیع دی۔ اب ذلت کو بھی‘ سر آنکھوں پر رکھو۔ زندگی کا یہ موسم کٹھور سہی‘ لیکن ہر کیے کا پرنام اسی موسم میں ہاتھ لگتا ہے۔ فطرت کا یہی اصول اور وقت کا یہی فیصلہ ہے۔ ویدی کا یہی ویدن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہی۔
میں نے کہا تھا‘ شاید تمہیں یاد ہو گا۔ میرا نام محبت ہے۔ محبت کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ محبت کے دروازے بند ہو جائیں تو‘ وہ محبت نہیں فراڈ ہوتی ہے۔ نفرت‘ محبت کا شیوہ نہیں۔ اگر یہ نفرت پر اتر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو‘ شبنمی ہوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیزاب برسانے لگیں گی۔ سمنرروں میں آگ لگ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ ادیب کا قلم‘ قلم ہو جائے گا۔ جانے کیا کچھ ہو‘ خامہ و قرطاس اس کے تصور سے بھی لرزہ بر اندام ہے۔
جانے آج کیوں بہکنے لگا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ کی قندیل سے پھوٹنے والی کرنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یادوں کے جھروکے میں جھاکنے لگی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔عہد رفتہ کے نیل گگن پر۔۔۔۔۔۔۔ننھے ننھے۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے چھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔ ستارے‘ کہکشانی صورت میں جھلملانے لگے ہیں۔ میں یادوں کے ہڑ میں بہتا بہتا دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت دور‘ نکل آیا ہوں۔
شاید وہ اگست ١٩٥٢ کی گرم‘ مگر بھیگی سی کوئ شام تھی۔ رات کے اندھیارے‘ سورج کی حدت اور روشنی کو اپنے حلقے میں لے چکے تھے۔ بجلی کے قمقمے اندھیروں کا سینہ چیرنے کی کوشش میں مشغول تھے۔ وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے تھے۔ چوک صرافاں میں خوب گہما گہمی تھی۔ کوئی آ رہا تھا‘ تو کوئی جا رہا تھا۔ مسجد سے نمازی نماز پڑھ کر‘ اپنے اپنے گھروں کی راہ لے رہے تھے۔ میں اپنی دوکان پر بیٹھا لون مرچ مصالحہ تولنے میں مصروف تھا۔ میرا ذہن تول اور پیسوں کے لین دین میں مصروف تھا۔ بالکل اچانک‘ ایک چھے سات سا کا لڑکا‘ میرے ہاتھ میں ایک رقعہ دے کر چلتا بنا۔ رقعے پر صرف اتنا درج تھا:
ذرا گلی کے موڈ پر تشریف لائیں۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کون صاحب ہو سکتے ہیں جو اکیلے میں ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ پہلے تو نظر انداز کرنا چاہا‘ پھر چھوٹے بھائی کو دوکان پر بیٹھا کر‘ انھیں ملنے چل دیا۔
وہاں صاحب تو نہیں‘ ایک نقاب پوش صاحبہ محو انتظار تھیں۔
بشیر صاحب ذرا میرے ساتھ آئیے گا۔ اس کا لب و لہجہ بالکل سپارٹ تھا۔
مگر کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کون ہیں؟! میں نے حیرت اور پریشانی کی حالت میں پوچھا
آ جائیے‘ فکر کی کوئ بات نہیں۔ یہاں گلی کے موڑ پر‘ کھڑے ہو کر‘ بات کرنا مناسب نہیں۔
میں حیران و پشیمان اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ عجیب پراسرار خاتون ہے۔ کون ہو سکتی ہے۔ کہاں اور کیوں لے کر جا رہی ہے۔ میری سوچ کے حلقے‘ وسیع ہوتے چلے گیے۔
مکان آ گیا۔ وہ اندر داخل ہو گئی۔ میں باہر کھڑا ہو گیا۔
اندر آ جاییے۔۔۔۔۔۔ آ جاییے نا۔ اب کہ‘ اس کا لہجہ ریشم سے زیادہ ملایم ہو گیا تھا۔ میں نے حسب سابق اس کے حکم کی تعمیل کی۔ گھر میں کوئ نہ تھا۔
بیٹھ جاییے۔ اس نے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہویے کہا۔
یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔
ڈر‘ خوف اور پریشانی کے سبب‘ میرا دل بند ہونے لگا۔ جانے کیا ہونے والا ہے۔ بے شمار خدشے سر اٹھانے لگے سنا تھا‘ فراڈ ہو جاتے ہیں۔ میں نے بھاگ جانا چاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے کیوں بھاگ نہ سکا۔ کاش! اس روز میں بھاگ گیا ہوتا۔ کاش! کسی چیز نے‘ میرے پاؤں جکڑ لیے تھے۔
اتنی دیر میں‘ وہ برقعہ اتار کر آ گئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا‘ اور پھر‘ دیکھتا ہی رہ گیا۔ میرے سامنے‘ گلابی رنگ میں ملبوس‘ قیامت کھڑی تھی۔ سیاہ دراز پلکوں کی اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو قمقمے‘ نور بکھیر رہے تھے۔ چوک صرافاں میں جلتے قمقموں میں اتنی تاب کہاں تھی۔ شانوں پر بکھری زلفیں‘ مجھے ڈس سی گئیں۔ مگر چند ہی لمحموں کے بعد میں اپنے آپے میں لوٹ آیا۔
گھر والے کام سے گیے ہیں‘ سوچا‘ آج اپنے دیوتا سے‘ دو باتیں ہی ہو جائیں۔
شہد میں ملفوف‘ یہ لفظ‘ بلاشبہ حواس شکن تھے۔
میں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں‘ آپ کا دیوتا ؟! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میں تو آپ کو جانتا تک نہیں۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں تو آپ کو جانتی ہوں۔
یہ کہہ کر‘ اس نے اپنے بازو میرے گلے میں حائل کر دیے۔ پھر کیا تھا‘ میں ریت کے تودے کی طرح‘ اس کی پلکوں کی آغوش میں‘ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اچانک شعور کے کسی گوشے سے‘ کسی نے کروٹ لی اور میں پل بھر کو سمبھلا۔ میں اس شیطانی کھیل کے لیے‘ ذہنی طور پر تیار ہی نہ تھا۔
محترمہ کوئی اور گھر ڈھونڈیں۔ میں اس گاڑی کا بیل نہیں۔
آجی۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا نام محترمہ نہیں میرا نورین ہے۔ گھر والے پیار سے‘ باؤ کہہ کر پکارتے ہیں۔ آپ بھی باؤ کہہ کر پکارا کریں۔
بات کے دوران اس کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ حوازادی مجھے نئی اور عجیب راہ پر ڈال رہی تھی اور پھر میرے حواس جواب دے گئے۔ میں نے خود کو شر کے حوالے کر ہی دیا۔
آگ کا ذاتی رنگ سیاہ ہوتا ہے۔ دیکھنے میں وہ سرخ اور سنہری ہوتی ہے۔ میں نے خود کو‘ سیاہی جو ظلمت کی علامت ہے‘ کے حوالے کر ہی دیا۔ آج سوج سوچتا ہوں میری عقل کو کیا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید میں پاگل ہو گیا تھا۔
میں انوکھی اور خطرناک راہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔ انجام سے بےخبر۔۔۔۔۔۔۔ گامزن ہو چکا تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا‘ کہ اس آنکھ مچولی کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ کون تباہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔ کون خوش حال ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس کی آشا کے پھول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیچڑ میں بکھر جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔کون جیت کر ہارے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون احساس کی آگ میں جلے گا۔۔۔۔۔۔۔ کسے پیار کی صلیب پر مصلوب کیا جائے گا۔۔۔۔۔کون درد کے سمندر میں ڈوب جائے گا۔۔۔۔۔۔ کاش میں ہوش کے ناخن لیتا۔۔۔۔۔۔۔کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کروں‘ وقت بیت چکا ہے اور میں گزرے لمحوں کی راکھ میں‘ معنویت تلاش رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا نادان ہوں میں بھی۔
محبت کا یہ کھیل‘ دیر تک جاری رہا۔ چھیڑ چھاڑ۔۔۔۔۔۔۔عہدوپیمان۔ میں نے گھڑی دیکھی‘ رات کے پون بارہ بج چکے تھے۔
اچھا تو باؤ اب میں چلتا ہوں۔ ماں انتظار کر رہی ہو گی۔
اف تنہائی۔۔۔۔۔۔۔ کیا کروں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کے لیے اور رک جاؤ۔ پھر وہ کسی کٹی ہوئی شاخ کی طرح میری باہوں میں جھول گئی۔
کاش وقت یہیں ٹھہر جائے۔ میں نے سوچا۔ وقت کب کسی کا پابند رہا ہے۔ اسے تو ہر حال میں گزرنا ہی ہے‘ سو گزر گیا۔ اس نے قدرت سے یہی سیکھا ہے۔
پھر کب ملاقات ہو گی۔
جب یاد کرو گی۔ میرا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں گزرا وقت تو نہیں‘ جو لوٹ کر نہ آسکوں گا۔
کل ہی۔
کہاں
گھر آ جاءیے گا۔
میری ہڈی پسلی ایک کرانے کا ارادہ ہے کیا۔
کیسی باتیں کرتے ہو‘ میں تمہاری ہو چکی ہوں۔ تمہیں مجھ پر اعتماد ہونا چاہیے۔ کہو تو تمہارے گھر چلی آؤں۔
خیر چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔ کل اسٹیش پر دس بجے ملتے ہیں۔ چلی آنا۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے چلا آیا۔
گھر پہنچا تو سوائے ماں کے‘ سب سو چکے تھے۔ وہ میرا انتظار کر رہی تھی۔ جانے غریب کیا سوچ رہی ہو گی۔ ماں کا رشتہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے۔ اتنی برداشت‘ اتنا درگزر۔
کہاں گئے تھے؟ ماں نے مصنوعی غصے سے پوچھا
بےبے ایک دوست کے ہاں رک گیا تھا۔ میں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔
نہ پتر‘ اتنی رات گئے باہر نہ رہا کرو۔ زمانہ ٹھیک نہیں۔ ماں نے سمجھانے کے انداز میں کہا
اچھا بےبے۔ اب تم سو جاؤ۔ یہ کہہ کر‘ میں اپنے بستر پر جا لیٹا۔ جوں ہی بستر پر لیٹا‘ گزرا ہر لمحہ آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم گیا۔ پھر سوچوں کا سیلاب امڈ آیا اور میں دیر تک سو نہ سکا۔ اسٹیشن پر تو وہ آ جائے گی‘ کہاں لے کر جاؤں گا۔ کافی سوچ بچار کے بعد‘ میری نظر مجید کے کوارٹر پر پڑی۔ مجید میرا قریبی دوست تھا۔ میں نے ہر آڑے وقت میں‘ اس کی مدد کی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ انکار نہیں کرے گا۔
حسب توقع وہ مجھے صبح صبح ہی مل گیا۔ میں نے سارا معاملہ ملفوف الفاظ میں کہہ دیا۔ اس نے حامی بھر لی اور میں دوکان پر آ بیٹھا اور اپنے کاروبار میں مشغول ہو گیا۔
میں وقت سے دس منٹ پہلے ہی‘ ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر آ بیٹھا۔ تھوڑی ہی دیر میں‘ وہ بھی آ گئی۔ وہ پسینے میں شرابور تھی۔ گرمی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ میں سامنے دوکان سے‘ شربت بنوا کر‘ لے آیا۔ جب وہ دو گلاس پی چکی‘ تو اسے کچھ ہوش آیا۔
شکریہ۔ میرا تو گرمی سے گلا خشک ہو گیا تھا۔ اب کیا پروگرام ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
میں نے اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم مجید کے گھر پہنچے تو‘ وہ سو رہا تھا اور اس کی بیوی گھر کے کاموں میں مصروف تھی۔ اس نے ناک منہ چڑاتے ہوئے‘ بیٹھک کا دروازہ کھول دیا اور خود اندر چلی گئی۔ مجید کے ہاتھ‘ میری زندگی کا نازک ترین لمحہ تھا۔ وہ اس سے ہر قسم کا فائدہ اٹھا سکتا تھا۔
باؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی‘ ایک چھوٹا سا گھر بنائیں گے جہاں ہمارے بچے ہوں گے۔ میں نے اس کی جانب پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
وہ شرما گئی اور اپنا منہ میرے سینے کی وسعتوں میں چھپا لیا۔ میں اس کے ریشمی بانوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا۔ وہ بہکنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس نے بڑی مقدار میں پی رکھی ہو۔
ملاقاتوں کے سلسلے دراز ہوتے چلے گئے۔ کیف و لذت کے ساغر چھلکتے رہے۔ مجید اپنی کرم فرمائیوں کا معاوضہ وصوں کرتا رہا۔ اب اس کی بیوی نائلہ بھی بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ ایک دو بار اس نے بھی‘ کسی خواہش کا اظہار کیا۔ میں اتنا بھی گیا گزرا نہیں تھا‘ جو تھالی میں چھید کرتا۔
دوکان بند رہنے لگی۔ اور پھر یہ نوبت آ گئی کہ مسلسل ناغے ہونے لگے۔ ایسی بات کب چھتی ہے۔ میں یار دوستوں اور گھر والوں کی زبان پر آگیا۔ ہر کوئی مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگا۔
مظفر شاہ صاحب جو ہمارے محلہ کے بڑے معزز شخص سمجھے جاتے تھے‘ نے لمبا چوڑا لیکچر پلایا۔ میرے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سمجھانے والے یقینا میرے خیر خواہ تھے لیکن ان سب کو اپنے پیار کا دشمن سمجھتا رہا۔ ابلیس میرے گرد لذت کے خوش رنگ پھول بکھیر چکا تھا۔
اس روز میں دوکان پر بیٹھا تھا کیونکہ مجید کی ایک بہت ضروری ڈیمانڈ پوری کرنا تھی۔ اچانک شاہ صاحب آ گئے اور بولے: عقل کے اندھے اٹھو‘ میں تمیں کچھ دکھاتا ہوں۔
ان کا رخ مجید کے کوارٹر کی جانب تھا۔ بیٹھک کے دروازے پر آ کر رک گئے۔ بڑی ہی دھیمی آواز میں کہا: ذرا کان لگا کر سنو
اندر سے مجید‘ سعید‘ نائلہ اور باؤ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ کسی سودے میں مشغول تھے۔ میں ان کی غلیظ باتیں سن کر پسینے میں نہا گیا۔ شاہ صاحب مجھے سہارا دے کر دوکان میں لے آئے۔
اس حادثے نے میرے دل و دماغ پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے۔ میں ذہنی اعتبار سے مفلوج سا ہو گیا۔
پھر میں دوسری غلط راہ پر چل نکلا۔ شراب دکھ کا روگ سہی لیکن یہ بذات خود بڑا خطرناک روگ ہے۔ یہ جونک کی مانند جسم کا سارا خون نچوڑ لیتی ہے۔
اس روز میں چارپائی پر لیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکست خوردہ کرواٹیں لے رہا تھا۔ غم و غصہ کا ایک طوفان سا امڈا چلا آتا تھا۔ میں انجانی آگ میں جل رہا تھا۔ جب حواس گرفت میں نہ رہے تو‘ میں بازار کیف کی جانب بڑھ گیا۔ میں عورت سے انتقام کی بھول میں‘ خود کو سزا دے رہا تھا۔ وہاں تو‘ دنیا ہی نئی تھی۔ اس دنیا میں چپے چپے پر پیار کے سمندر رواں دواں تھے مگر پیار کا حصول دام و درم سے مشروط تھا۔ حیران تھا خدا کی زمین پر نابکنے والی چیزوں کے بھی دام لگتے ہیں۔ ادیب کے قلم کا خون۔۔۔۔۔۔۔۔ زاہد کا تقوی۔۔۔۔۔۔۔ مسیحا کی مسیحائی۔۔۔۔۔۔۔ سپاہی کا لہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باپ کی غیرت۔۔۔۔۔۔۔ ماں کی ممتا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ماں کی ممتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔عزت‘ غیرت‘ شرم‘ حیا‘ خونی رشتے‘ غرض کہ یہاں سب بکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرہ میں مال ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کڑکتے کڑکتے نوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی نہیں پوچھے گا۔ چمکتے اور کھنکھناتے سکے‘ پوچھنے والوں کی نفسیاتی کمزوری ہوتے ہیں۔ اہل زر کو کون پوچھ سکتا ہے۔ قانون بےدرمے پر ہاتھ ڈالتا ہے۔ آج کیا‘ شروع سے‘ سکوں کو یہ شرف حاصل رہا ہے۔
میں عرصہ تک‘ کبھی اس کوٹھے پر‘ تو کبھی اس کوٹھے پر‘ بھٹکتا رہا۔ جب جاتا‘ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ ہر طوائف صدقے واری جاتی۔ چائے‘ پان‘ شراب‘ لذت غرض سب کچھ وہا دستیاب تھا۔ اگر کچھ نہیں تھا‘ تو وہ سکون تھا۔
میں وہاں اکیلا کب تھا۔
ایک دن میں اس جانب رواں دواں تھا۔ اچانک ایک خیال کوندا اور میری راہ بدل گئی۔ باؤ بھی تو ایک شریف طوائف تھی۔ میرے خون پسینے کی کمائی پر پہلا اس کا حق تھا۔ اسی نے مجھے اس راہ پر ڈالا تھا۔ باؤ نے مجھے کچھ بھی نہ کہا۔ اس نے میری ضرورت پوری کر دی۔ چلتے ہوئے میں نے اس کی جھولی میں اس کا محنتانہ رکھ دیا۔ اس نے میری طرف دیکھا‘ لیکن میں دروازے سے باہر قدم رکھ چکا تھا۔ سب بلا مکالمہ طے پا گیا تھا۔ اس پیشے کا یہی اصول اور ضابطہ شروع چلا آتا ہے۔ کچھ دو اور کچھ لو۔ سودا نقد و نقد۔ ناادھار‘ ناکل کا وعدہ۔ آج ہی‘ اس پیشہ میں معنویت سے زندہ ہے۔
گرہ میں رہ ہی کیا تھا۔ نوے ہزار کی راس میں سے چند دالیں اور دو کلو نمک میری حماقت کا منہ چڑا رہے تھے۔ اب میں ادھر جانے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔ پھر مسجد سے الله اکبر کی صدا گونجی۔ میں کانپ کانپ گیا۔ اس سے پہلے بھی یہ آواز کئی بار سن چکا تھا لیکن اج تو اس آواز نے گھائل کر دیا۔ الله مجھے واپس لوٹنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ میں تیزی سے مسجد کی جانب بڑھ گیا۔ جانے کتنی دیر سجدہ میں رہا لیکن جب سر اٹھایا سارا غبار چھٹ چکا تھا۔
اس رات میں نے ماں کی آغوش میں پناہ لی۔ دیر تک اشک سوئی کرتا رہا۔ ماں پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی۔
پچھتاوے کا جب سیلاب تھما تو بیوہ ماں نے میری ہتھیلی پر پانچ سو روپیے‘ جو آنے ٹکوں کے روپ میں تھے‘ رکھ دئیے اور صفر سے کام کرنے کی تلقین کی۔ سوچتا ہوں اس بےچاری نے یہ رقم کتنی دیر میں جمع کی ہو گی۔ اس کے چہرے پر ملال کا دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ماں تھی نا۔ ماں اپنے بیٹے کو نہ جانے گی تو اور کون جانے گا۔
باؤ! وہ ماں کی دی ہوئی رقم تھی۔ آج میں علاقے کا باعزت اور صاحب حیثیت شخص ہوں۔ کسی کو میرا ماضی یاد تک نہیں۔ لوگ اسٹیج پر موجود کردار پر نظریں مرکوز رکھتے ہیں۔ جو گیا‘ سو گیا۔ باؤ کے چاہنے والے کچھ کم نہ تھے۔ کسی نے اسے ہمیشہ کا ساتھی نہیں بنایا۔ وہ کسی ایک کا بننا بھی نہیں چاہتی تھی۔ آج وہ بےنور ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ اب اس پر جعلی ہی سہی‘ پیار کون نچھاور کرے۔ اس کی جیب کون اور کیوں بھرے۔ اب اسے بیوگی کے قفس میں زندگی بسر کرنا ہو گی۔
مجید آج بھی مجھے ملنے آتا ہے۔ میں اس کی بےلوث چاہ پانی سے سیوا کرتا ہوں۔ میں بےمروت نہیں۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہے۔ وہ سب تہی دست ہو چکے ہیں کیونکہ وقت بہت آگے نکل آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت آگے۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت آگے۔
باؤ! مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ اک وقت وہ تھا جب تمہارا طوطی بولتا تھا۔ آج تم زندگی سے بہت دور جا چکی ہو۔ تمہارا کوئ اپنا نہیں رہا۔ لوگ تمہیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
باؤ! میں نے تمہارے ساتھ وقت گزرا ہے۔ میں تو تم سے سچا پیار کرتا تھا اور تم نے لذت اور سکوں کو ہی‘ سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ میرے پاس تمہاری بیوگی کا کوئ حل نہیں۔ میں تمہیں اپنا نہیں سکتا‘ کیوں کہ تم ذہنی طور پر آج بھی وہیں کھڑی ہو‘ جہاں سالوں پہلے تھیں۔ جو بھی سہی‘ میں پیار ہوں۔ میرا پیار الله کی ساری مخلوق کے لیے ہے۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے لئے بھی۔ چلی آیا کرو‘ پیٹ کا دوزخ بھرے بغیر کب سکون ملتا ہے۔
1976 مئی 27