مقصود حسنی کی شاعری میں ہندی تلمیحات کا استعمال
از ڈاکٹر محمد ریاض انجم
جسے آج اردو اور ہندی کا نام دیا جاتا ہے‘ بہت پہلے سے برصغیر کی زبان تھی تاہم موجودہ تینوں رسم الخط بہت بعد کی دین ہیں۔ عربوں سے پہلے کا رسم الخط کیسا تھا تحقیق طلب مسلہ ہے اور اس جانب سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عربوں نے اپنی اظہاری ضرورت کے لیے اس زبان کو اختیار کیا‘ البتہ اسے عربی جامہ عطا کیا جسے بعد میں ایرانیوں نے اس رسم الخط کو تقویت بخشی۔ اس زبان کو عربی فارسی رسم اخط ہی نہیں اپنے فکری سرماءے سے بھی سرفراز کیا۔ علاوہ ازیں یہ زبان ان کے مزاج‘ رسوم سماجی اور عمرانی رویوں سے بھی آشنا ہوئ۔ اسے بہت سارے عربی فارسی لسانی سلیقے میسر آءے۔ عربی فارسی آوازیں اس کے ذخیرے میں داخل ہوءیں اور اس کا حصہ بن گیں۔ مقامی الفاظ میں داخل ہو گیں جیسے گریب سے غریب اوال میں ح شامل ہو گئ ور پر ح کا اضافہ ہوا۔ اس قسم کی سیکڑوں مثالیں اردو میں موجود ہیں۔
عربی اور فارسی چونکہ حاکم زبانیں تھیں‘ اس لیے ان کا مقامی زبانوں پر اثر انداز ہونا غیر فطری بات نہ تھی۔ زبانیں تو دوستوں اور میل جول رکھنے والوں سے بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اس لیے زبانوں کا زبانوں سے متاثر ہونا کوئ بڑی بات نہیں۔
مغلیہ سلطنت کو زیر کرنے کے بعد انگریز نے محکوم عوام پر اپنے اثرات مرتب کرنے کے لیے بڑی عیاری سے تقسیم کے نظریے کو اختیار کیا۔ ایک طرف یہاں کے لوگوں سے رابطے کے لیے رومن خط کو رواج دیا تو دوسری طرف فورٹ ولیم کالج کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لیے خط نستعلیق اور ہندوں کے لیے دیوناگری کو راءج کیا۔ اس طرح ایک ہی زبان کے تین رسم الخط رواج پا گیے۔ اس تقسیم کی سازش کے باوجود دیوناگری عربی فارسی اور خط نستعلیق مقامی اور ہندو رسم و رواج سے دستکش نہ ہوئ۔ جس کا واضح ثبوب اردو شعر ونثر میں ہندو سماج و معاشرت کے متعلق الفاظ اور تلمیحات وافر تعداد میں ملتی ہیں۔ یہ صورت جدید وقدیم اردو شعری ادب میں ملتی ہے۔
برصغیر میں بیرونی لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس کی شکل کچھ بھی رہی ہو‘ ان کی آمد سے بیرونی سماج ومعاشرت اور معاش سے متعلق روایات اور رویے بھی درآمد ہوءے ہیں۔ ان کے زیر اثر زبان کو لفظوں کا ذخیرہ دستیاب ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں کی ذاتی اصطلاحات‘ استعارے‘ تلمیحات وغیرہ متروک نہیں ہوءیں۔ ان کا استعمال اپنے پورے وجود کے ساتھ رہا ہے۔
ہر دو رسم الخط والوں میں سے بہت سوؤں نے انتہا پسندی سے کام لیا۔ اصلاح زبان کے نام پر ان سماجی اصطلاحات اور الفاظ کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی۔ ان کی جگہ مترادفات کو رواج دینے کی بھی کوشش کی لیکن ان کوششوں کو خاطرخواہ کامیابی نصیب نہیں ہو سکی۔ ان کی کوششیں زیادہ تر کتاب کی دنیا تک محدود رہیں ہیں کیونکہ زبان بولنے کی مرضی تابع رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ زبان کے بولنے والے کا سماج سے رشتے کی نوعیت ہوتی ہے۔ شخص اپنے سماج سے کسی سطع پر رشتہ ختم نہیں کر سکتا۔ سماجی روایات کی جڑیں اس کے لاشعور میں اپنی جگہ بنا چکی ہوتی ہیں۔
قدیم و جدید شعری ادب میں ہندی الفاظ اصطلاحات اور تلمیحات کا استعمال نظر آتا ہے جو زبان کو لب و لہجے کی مٹھاس سے ہمکنار کرتا ہے۔ جدید اردو شعرا میں مقصود حسنی کی شاعری میں ہندی الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے‘ لیکن ہندی تلمیحات کے حوالہ سے وہ معتبر نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں استعمال ہونے والی تلمیحات برمحل اور فکر سے مطابقت رکھتی ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے بین المذاہب کے اتحاد کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ جملہ مذاہب کے متعلق لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ وہ اکثر ان کو ایک صف میں لا کھزا کرتے ہیں۔ پیش نظر سطور میں ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی ہندی تلمیحات درج کی جا رہی ہیں تاکہ قاری ان کی فکری اپروچ تک بآسانی رسائ حاصل کر سکے۔
ضمیر کی چتا کو آگ دکھا دی ہے
جذبوں سے کہہ دو
موقع ہے
ستی ہو جاءیں
مسیحا جل رہا ہے
تم بھی جل جاؤ
گوریاں جب اشنان کریں گی
جسموں کو چھو لینا
کہ کوئ کرشن پیدا ہو
راجیو کے ہاتھوں کو
ہات میں لے لے گا
قید روحیں شنانت ہو جاءیں گی
نظم:جذبوں سے کہہ دو
ماتمی سندور مانگ میں سجا کر
رات مانگ رہی ہے
حق مہر مجھ سے
ہاءیکو
بارش برسی تو کل شب بھر
جیون کے جلتے شعلوں میں
روپ کنور یاد آئ مجھ کو
ہاءیکو
اک لقمہ ہو جس کی قیمت
تم ہی کہو وہ سستا انسان
دلی جھنڈے گاڑے گا کیا
ہاءیکو
رادھا کی چتا کے پھول
گنگا کی لہروں سے ٹکراتے
میں نے خود دیکھے ہیں
نظم: میں نے دیکھا ہے
رواج کے پتھروں کی برسات میں
ٹھٹھرتے انسانوں نے
انا کی حدت کے لیے
روپ کنور کو ستی کر دیا
نظم:سرشام
دعا کو اٹھتے ہات
گلاب کی مہک
مٹی سے رشتے
کب پوتر رہے ہیں؟؟؟
درگاوتی کی عصمت
مرنے کے بعد
اپنوں کے ہات
لٹ گئ تھی
نظم: سورج دوزخی ہو گیا تھا
گوتم سے کوئ کہہ دے
سنکھ بجاءے
مسیح زندہ کر دے
پتھروں کو
نظم: پتھر
آنکھیں بند تھیں
رام کا نام زبان پر تھا
آستین میں کوئ بول رہا تھا
نظم:تضاد
حرص کی رم جم میں
ملاں پنڈت
گرجے کا فادر
گر کا امین
لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے
آنکھوں میں پتھر رکھ کر
پکون کے گیت گاءیں
حرص کی رم جم
اس کا غصہ
پریم کا ساگر
اس کے چرنوں میں
سورگ کا جھرنا
ماں‘ ماں ہوتی ہے
اس کا سایہ
بھگوان کی کرپا
ماں‘ ماں ہوتی ہے
لوبھی قانون کا رکھوالا
بےبس زخمی زخمی
منصف ہوا ہے
مقولہ باقی ہےاور یہ
چڑھ جا بیٹا سولی
رام بھلی کرے گا
رام بھلی کرے گا
آنکھ میں پانی
آب کوثر
شبنم
گل کے ماتھے کا جھومر
جل ‘جل کر
دھرتی کو جیون بخشے
گنگا جل ہو کہ
زم زم کے مست پیالے
دھو ڈالیں کالک کے دھبے
جل اک قطرہ ہے
جیون بے انت سمندر
بے انت سمندر
مرے جیون کا
ہر جلتا بجھتا پل
مجھ کو واپس کر دو
جو دن خوشییوں میں گزرا
تقدیر نہیں
مرے عشق کی تپسیا کا اترن تھا
اس سے پہلے
آنکھوں میں دھواں بھر لو
چاند کا چہرا
راون کی شکتی لے کر
عیسی کے خون سے
اوباماہی رب
لکھ رہا ہے
فرات کا دامن
غربی ہبل
عزازیل کا بردانی ہے
برہما تو
ایسا بردان نہیں دیتا
غربی ہبل
تمہارے جانے سے پہلے
یہ سب کچھ نہ تھا
تمہارے جانے کے بعد
گنگا الٹا بہنے لگی ہے
گنگا الٹا بہنے لگی ہے
بدھ رام بہا
کہ نانک کے پیرو ہوں
یا پھر
چیراٹ شریف کے باسی
اپنا جیون جیتے ہیں
سننے میں آیا ہے
کل تا کل
جب بھی
پل کی بگڑی کل
در نانک کے
بیٹھا بےکل
چل' محمد کے در پر چل
ترے منہ کے
الہامی شبدوں کے جادو
میری سماعتوں پر
عشق کے گرنتھ کی تکمیل میں
تیرے آنے کے رستوں کو
برہما کی کرپا کا بردان سمجھیں
بردان
آنکھ کے اک اشارے پر
اپنی منشا کے رنگین پنے
کل کے حسین سپنے
تیاگ کے قدموں میں رکھے
چاہت کے کنول
کھونٹ پر لٹکی ور مالا
آس کے رستوں سے پوچھے ہے
مانگ میں تارے بھرنے والا
کب لوٹ کر آءے گا
میں تم سے کہتا ہوں
اج کا سچ تو یہ ہے
گنگا کرتی ہے چھل
شنی کو طلاق کرو
چندر کی روشن کرنیں
ظلمت کی بھاشا بولے ہیں
میں تم سے کہتا ہوں
بلوان کا کھیسہ تو
گن کی گتھلی ہے
میں تم سے کہتا ہوں
تیری انگلی کے ارتعاش سے
مہتاب دو لخت ہوا
جنت بنی سورگ بنا
ویدی کا یہی ویدان تھا
کہ سب دیو تخلیق ہوں
مسکان کے بطن سے
اس کے ننھے ہاتھوں کی
الجھی لکیریں
میری آنکھوں میں
سوال بنتی رہتی ہیں
ان الجھی ریکھاؤں کو
برہما لوک سے
کب کوئ سلجھانے اترے گا
سکھ کا سارا ناواں
دھرتی کا اندر
اپنی مٹھی میں رکھ کر
سیتا کا بلی دان
راون تپسیا کا بردان سمجھے
سیاست کی دوکان
چمکاءے بیٹھا ہے
دھرتی کا اندر
کراءے کے قاتل
کیا بھکشا دیں گے؟
کرن ہماری کھا جا ہے
بارود کے موسم
کھڑکی کھولے رکھنا
اندر کی باتوں کو باہر لانا ہے
باہر کے سارے موسم
راون بستی کے منظر ہیں
چپ ہو کہ سارے موسم تیرے ہیں
قرآن راج
چپ کے دامن میں
ہاں اور ناں کی لاکھوں گانٹھیں ہیں
چپ ہو کہ ہر گانٹھ
برہما کے بردان پر کھلتی ہے
بردان تو قسمت کے کھیسے کا بندی ہے
قسمت اچھی ہوتی تو
راکھشش جیون پراس
قرآن راج نہ ہوتاِ؟
قرآن راج
شب آنکھوں میں
تاروں کا جنگل
پیاس کنارے
ہراس میں ڈوبے
گنگاکے دامن میں
ضد کا کاجل
بے چہرا جیون
قرآن ہو کہ گیتا
راماءن کا ہر قصا
گرنتھ کا ہر نقطا
میرا بھی تو ہے
............
مساءل کی روڑی پر بیٹھا
میں گونگا بہرا بے بس زخمی
نانک سے بدھ
لچھمن سے ویر تلاشوں
مدنی کریم کی راہ دیکھوں
علی علی پکاروں کہ
سورج ڈوب رہا ہے
سورج ڈوب رہا ہے
تو انمول سہی
نایاب سہی
ہے تواس چترکار کا دان
دان کا سونا
مٹی سے کمتر
...............
تیری شکشا کے طور نرالے
ہنسے کبھی غصہ میں آءے
ساون بولی بولے
ردے کی ہر دھڑکن
دان کا سونا
کرنے کے جذبے
روٹی کے بندی
دریا کا پانی
بھیگی بلی
حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں
جینے کو تو سب جیتے ہیں
تری آغوش میں پلتی مسکانیں
مری تری مرتیو کو
امرتا کے بردان میں ٹانکیں
مجھ کو من مندر میں سجا لو
کہ کام دیوا
ہر بار کب
خوش بختی کا منگل سوتر
گلاب گلو میں رکھتا ہے
آنکھ دریچوں سے
تری مسکانوں کی بارش
شور زمینوں کو
برہما کے بردان سے بڑھ کر
جب تم مجھ کو سوچو گے
جب دل دریا میں
ڈول عشق کا ڈالو گے
ارتعاش تو ہو گا
من مندر کا ہر جذبہ
ہیر کا داس تو ہو گا
بالوں میں بکھری چاندی
چاندنی راتوں میں
دور امرجہ کے کھلیانوں میں
سیرابی دیتے ہیں
لب گنگا کے پیاس بھجاتے ہیں
بالوں میں بکھری چاندی
جب بھی
پل کی بگڑی کل
در نانک کے بیٹھا بےکل
اک پل
ہر نغمہ
عزازیلی اسرافیلی
خون میں بھیگا آنچل
گنگا کا
پلکوں پر شام
آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں
آشا کے کچھ بول رکھنے کو
غرض کی برکی نہ بن جءے
وشنو چھپنے کو
برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے
اب جب بھی
جانے کے موسم میں
آنے کی سوچیں تو
گنگا الٹی بہتی ہے
پاگل پن
سوچنا یہ ہے
کس کردہ جرم کی سزا
سقراط کا زہر ہے
میرے سوچ پر
خوف کا پہرا ہے
روبرو راون کا چہرا ہے
کاجل ابھی پھیلا نہیں
سب موسم تم کو مل جاءیں
سچل دل کی کلیاں
اپنے دامن میں
سورگ کے سکھ رکھتی ہیں
آنکھوں دیکھے موسم
تم چپ ہو کہ
تحسین کے کلمے
برہما کے بردان سے اٹھتےہیں
دروازہ کھولو
فقیروں کی بستی میں
اسلام کی بوتلیں
اندر لوک کی ہوتی ہیں
شراب یم لوک سےآتی ہے
لیبل گورا ہاؤس میں لگتا ہے
اسمبلی کے اکھاڑے میں
رقص ابلیس ہوتا ہے
فقیروں کی بستی میں
تو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آب زم زم میں دھل کر
حوض کوثر میں کھلا گلاب
الله کی عنایت
محمد کی نظر عطا
برہما کا بردان
ایشور کی کرپا
نانک کی دیا
یسوع کی برکت
مری ماں مری جان
تری چاہت تری محبت
تری شفقت تری عظمت کے
بصد احترام و احتشام
قدم لے کر
مرا سلام مرا پرنام
حوض کوثر میں کھلا گلاب
یہی تو
بھگوان کی لیلا ہے
تم آکاش ہوءے میں دھرتی ٹھرا
ترے ہاتھ جیون مرتیو
تر بھوجن
مرے ہاتھ
یہی تو
(اردو کی پہلی سنکوءین)
از ڈاکٹر محمد ریاض انجم
جسے آج اردو اور ہندی کا نام دیا جاتا ہے‘ بہت پہلے سے برصغیر کی زبان تھی تاہم موجودہ تینوں رسم الخط بہت بعد کی دین ہیں۔ عربوں سے پہلے کا رسم الخط کیسا تھا تحقیق طلب مسلہ ہے اور اس جانب سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عربوں نے اپنی اظہاری ضرورت کے لیے اس زبان کو اختیار کیا‘ البتہ اسے عربی جامہ عطا کیا جسے بعد میں ایرانیوں نے اس رسم الخط کو تقویت بخشی۔ اس زبان کو عربی فارسی رسم اخط ہی نہیں اپنے فکری سرماءے سے بھی سرفراز کیا۔ علاوہ ازیں یہ زبان ان کے مزاج‘ رسوم سماجی اور عمرانی رویوں سے بھی آشنا ہوئ۔ اسے بہت سارے عربی فارسی لسانی سلیقے میسر آءے۔ عربی فارسی آوازیں اس کے ذخیرے میں داخل ہوءیں اور اس کا حصہ بن گیں۔ مقامی الفاظ میں داخل ہو گیں جیسے گریب سے غریب اوال میں ح شامل ہو گئ ور پر ح کا اضافہ ہوا۔ اس قسم کی سیکڑوں مثالیں اردو میں موجود ہیں۔
عربی اور فارسی چونکہ حاکم زبانیں تھیں‘ اس لیے ان کا مقامی زبانوں پر اثر انداز ہونا غیر فطری بات نہ تھی۔ زبانیں تو دوستوں اور میل جول رکھنے والوں سے بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اس لیے زبانوں کا زبانوں سے متاثر ہونا کوئ بڑی بات نہیں۔
مغلیہ سلطنت کو زیر کرنے کے بعد انگریز نے محکوم عوام پر اپنے اثرات مرتب کرنے کے لیے بڑی عیاری سے تقسیم کے نظریے کو اختیار کیا۔ ایک طرف یہاں کے لوگوں سے رابطے کے لیے رومن خط کو رواج دیا تو دوسری طرف فورٹ ولیم کالج کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لیے خط نستعلیق اور ہندوں کے لیے دیوناگری کو راءج کیا۔ اس طرح ایک ہی زبان کے تین رسم الخط رواج پا گیے۔ اس تقسیم کی سازش کے باوجود دیوناگری عربی فارسی اور خط نستعلیق مقامی اور ہندو رسم و رواج سے دستکش نہ ہوئ۔ جس کا واضح ثبوب اردو شعر ونثر میں ہندو سماج و معاشرت کے متعلق الفاظ اور تلمیحات وافر تعداد میں ملتی ہیں۔ یہ صورت جدید وقدیم اردو شعری ادب میں ملتی ہے۔
برصغیر میں بیرونی لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس کی شکل کچھ بھی رہی ہو‘ ان کی آمد سے بیرونی سماج ومعاشرت اور معاش سے متعلق روایات اور رویے بھی درآمد ہوءے ہیں۔ ان کے زیر اثر زبان کو لفظوں کا ذخیرہ دستیاب ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں کی ذاتی اصطلاحات‘ استعارے‘ تلمیحات وغیرہ متروک نہیں ہوءیں۔ ان کا استعمال اپنے پورے وجود کے ساتھ رہا ہے۔
ہر دو رسم الخط والوں میں سے بہت سوؤں نے انتہا پسندی سے کام لیا۔ اصلاح زبان کے نام پر ان سماجی اصطلاحات اور الفاظ کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی۔ ان کی جگہ مترادفات کو رواج دینے کی بھی کوشش کی لیکن ان کوششوں کو خاطرخواہ کامیابی نصیب نہیں ہو سکی۔ ان کی کوششیں زیادہ تر کتاب کی دنیا تک محدود رہیں ہیں کیونکہ زبان بولنے کی مرضی تابع رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ زبان کے بولنے والے کا سماج سے رشتے کی نوعیت ہوتی ہے۔ شخص اپنے سماج سے کسی سطع پر رشتہ ختم نہیں کر سکتا۔ سماجی روایات کی جڑیں اس کے لاشعور میں اپنی جگہ بنا چکی ہوتی ہیں۔
قدیم و جدید شعری ادب میں ہندی الفاظ اصطلاحات اور تلمیحات کا استعمال نظر آتا ہے جو زبان کو لب و لہجے کی مٹھاس سے ہمکنار کرتا ہے۔ جدید اردو شعرا میں مقصود حسنی کی شاعری میں ہندی الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے‘ لیکن ہندی تلمیحات کے حوالہ سے وہ معتبر نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں استعمال ہونے والی تلمیحات برمحل اور فکر سے مطابقت رکھتی ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے بین المذاہب کے اتحاد کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ جملہ مذاہب کے متعلق لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ وہ اکثر ان کو ایک صف میں لا کھزا کرتے ہیں۔ پیش نظر سطور میں ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی ہندی تلمیحات درج کی جا رہی ہیں تاکہ قاری ان کی فکری اپروچ تک بآسانی رسائ حاصل کر سکے۔
ضمیر کی چتا کو آگ دکھا دی ہے
جذبوں سے کہہ دو
موقع ہے
ستی ہو جاءیں
مسیحا جل رہا ہے
تم بھی جل جاؤ
گوریاں جب اشنان کریں گی
جسموں کو چھو لینا
کہ کوئ کرشن پیدا ہو
راجیو کے ہاتھوں کو
ہات میں لے لے گا
قید روحیں شنانت ہو جاءیں گی
نظم:جذبوں سے کہہ دو
ماتمی سندور مانگ میں سجا کر
رات مانگ رہی ہے
حق مہر مجھ سے
ہاءیکو
بارش برسی تو کل شب بھر
جیون کے جلتے شعلوں میں
روپ کنور یاد آئ مجھ کو
ہاءیکو
اک لقمہ ہو جس کی قیمت
تم ہی کہو وہ سستا انسان
دلی جھنڈے گاڑے گا کیا
ہاءیکو
رادھا کی چتا کے پھول
گنگا کی لہروں سے ٹکراتے
میں نے خود دیکھے ہیں
نظم: میں نے دیکھا ہے
رواج کے پتھروں کی برسات میں
ٹھٹھرتے انسانوں نے
انا کی حدت کے لیے
روپ کنور کو ستی کر دیا
نظم:سرشام
دعا کو اٹھتے ہات
گلاب کی مہک
مٹی سے رشتے
کب پوتر رہے ہیں؟؟؟
درگاوتی کی عصمت
مرنے کے بعد
اپنوں کے ہات
لٹ گئ تھی
نظم: سورج دوزخی ہو گیا تھا
گوتم سے کوئ کہہ دے
سنکھ بجاءے
مسیح زندہ کر دے
پتھروں کو
نظم: پتھر
آنکھیں بند تھیں
رام کا نام زبان پر تھا
آستین میں کوئ بول رہا تھا
نظم:تضاد
حرص کی رم جم میں
ملاں پنڈت
گرجے کا فادر
گر کا امین
لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے
آنکھوں میں پتھر رکھ کر
پکون کے گیت گاءیں
حرص کی رم جم
اس کا غصہ
پریم کا ساگر
اس کے چرنوں میں
سورگ کا جھرنا
ماں‘ ماں ہوتی ہے
اس کا سایہ
بھگوان کی کرپا
ماں‘ ماں ہوتی ہے
لوبھی قانون کا رکھوالا
بےبس زخمی زخمی
منصف ہوا ہے
مقولہ باقی ہےاور یہ
چڑھ جا بیٹا سولی
رام بھلی کرے گا
رام بھلی کرے گا
آنکھ میں پانی
آب کوثر
شبنم
گل کے ماتھے کا جھومر
جل ‘جل کر
دھرتی کو جیون بخشے
گنگا جل ہو کہ
زم زم کے مست پیالے
دھو ڈالیں کالک کے دھبے
جل اک قطرہ ہے
جیون بے انت سمندر
بے انت سمندر
مرے جیون کا
ہر جلتا بجھتا پل
مجھ کو واپس کر دو
جو دن خوشییوں میں گزرا
تقدیر نہیں
مرے عشق کی تپسیا کا اترن تھا
اس سے پہلے
آنکھوں میں دھواں بھر لو
چاند کا چہرا
راون کی شکتی لے کر
عیسی کے خون سے
اوباماہی رب
لکھ رہا ہے
فرات کا دامن
غربی ہبل
عزازیل کا بردانی ہے
برہما تو
ایسا بردان نہیں دیتا
غربی ہبل
تمہارے جانے سے پہلے
یہ سب کچھ نہ تھا
تمہارے جانے کے بعد
گنگا الٹا بہنے لگی ہے
گنگا الٹا بہنے لگی ہے
بدھ رام بہا
کہ نانک کے پیرو ہوں
یا پھر
چیراٹ شریف کے باسی
اپنا جیون جیتے ہیں
سننے میں آیا ہے
کل تا کل
جب بھی
پل کی بگڑی کل
در نانک کے
بیٹھا بےکل
چل' محمد کے در پر چل
ترے منہ کے
الہامی شبدوں کے جادو
میری سماعتوں پر
عشق کے گرنتھ کی تکمیل میں
تیرے آنے کے رستوں کو
برہما کی کرپا کا بردان سمجھیں
بردان
آنکھ کے اک اشارے پر
اپنی منشا کے رنگین پنے
کل کے حسین سپنے
تیاگ کے قدموں میں رکھے
چاہت کے کنول
کھونٹ پر لٹکی ور مالا
آس کے رستوں سے پوچھے ہے
مانگ میں تارے بھرنے والا
کب لوٹ کر آءے گا
میں تم سے کہتا ہوں
اج کا سچ تو یہ ہے
گنگا کرتی ہے چھل
شنی کو طلاق کرو
چندر کی روشن کرنیں
ظلمت کی بھاشا بولے ہیں
میں تم سے کہتا ہوں
بلوان کا کھیسہ تو
گن کی گتھلی ہے
میں تم سے کہتا ہوں
تیری انگلی کے ارتعاش سے
مہتاب دو لخت ہوا
جنت بنی سورگ بنا
ویدی کا یہی ویدان تھا
کہ سب دیو تخلیق ہوں
مسکان کے بطن سے
اس کے ننھے ہاتھوں کی
الجھی لکیریں
میری آنکھوں میں
سوال بنتی رہتی ہیں
ان الجھی ریکھاؤں کو
برہما لوک سے
کب کوئ سلجھانے اترے گا
سکھ کا سارا ناواں
دھرتی کا اندر
اپنی مٹھی میں رکھ کر
سیتا کا بلی دان
راون تپسیا کا بردان سمجھے
سیاست کی دوکان
چمکاءے بیٹھا ہے
دھرتی کا اندر
کراءے کے قاتل
کیا بھکشا دیں گے؟
کرن ہماری کھا جا ہے
بارود کے موسم
کھڑکی کھولے رکھنا
اندر کی باتوں کو باہر لانا ہے
باہر کے سارے موسم
راون بستی کے منظر ہیں
چپ ہو کہ سارے موسم تیرے ہیں
قرآن راج
چپ کے دامن میں
ہاں اور ناں کی لاکھوں گانٹھیں ہیں
چپ ہو کہ ہر گانٹھ
برہما کے بردان پر کھلتی ہے
بردان تو قسمت کے کھیسے کا بندی ہے
قسمت اچھی ہوتی تو
راکھشش جیون پراس
قرآن راج نہ ہوتاِ؟
قرآن راج
شب آنکھوں میں
تاروں کا جنگل
پیاس کنارے
ہراس میں ڈوبے
گنگاکے دامن میں
ضد کا کاجل
بے چہرا جیون
قرآن ہو کہ گیتا
راماءن کا ہر قصا
گرنتھ کا ہر نقطا
میرا بھی تو ہے
............
مساءل کی روڑی پر بیٹھا
میں گونگا بہرا بے بس زخمی
نانک سے بدھ
لچھمن سے ویر تلاشوں
مدنی کریم کی راہ دیکھوں
علی علی پکاروں کہ
سورج ڈوب رہا ہے
سورج ڈوب رہا ہے
تو انمول سہی
نایاب سہی
ہے تواس چترکار کا دان
دان کا سونا
مٹی سے کمتر
...............
تیری شکشا کے طور نرالے
ہنسے کبھی غصہ میں آءے
ساون بولی بولے
ردے کی ہر دھڑکن
دان کا سونا
کرنے کے جذبے
روٹی کے بندی
دریا کا پانی
بھیگی بلی
حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں
جینے کو تو سب جیتے ہیں
تری آغوش میں پلتی مسکانیں
مری تری مرتیو کو
امرتا کے بردان میں ٹانکیں
مجھ کو من مندر میں سجا لو
کہ کام دیوا
ہر بار کب
خوش بختی کا منگل سوتر
گلاب گلو میں رکھتا ہے
آنکھ دریچوں سے
تری مسکانوں کی بارش
شور زمینوں کو
برہما کے بردان سے بڑھ کر
جب تم مجھ کو سوچو گے
جب دل دریا میں
ڈول عشق کا ڈالو گے
ارتعاش تو ہو گا
من مندر کا ہر جذبہ
ہیر کا داس تو ہو گا
بالوں میں بکھری چاندی
چاندنی راتوں میں
دور امرجہ کے کھلیانوں میں
سیرابی دیتے ہیں
لب گنگا کے پیاس بھجاتے ہیں
بالوں میں بکھری چاندی
جب بھی
پل کی بگڑی کل
در نانک کے بیٹھا بےکل
اک پل
ہر نغمہ
عزازیلی اسرافیلی
خون میں بھیگا آنچل
گنگا کا
پلکوں پر شام
آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں
آشا کے کچھ بول رکھنے کو
غرض کی برکی نہ بن جءے
وشنو چھپنے کو
برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے
اب جب بھی
جانے کے موسم میں
آنے کی سوچیں تو
گنگا الٹی بہتی ہے
پاگل پن
سوچنا یہ ہے
کس کردہ جرم کی سزا
سقراط کا زہر ہے
میرے سوچ پر
خوف کا پہرا ہے
روبرو راون کا چہرا ہے
کاجل ابھی پھیلا نہیں
سب موسم تم کو مل جاءیں
سچل دل کی کلیاں
اپنے دامن میں
سورگ کے سکھ رکھتی ہیں
آنکھوں دیکھے موسم
تم چپ ہو کہ
تحسین کے کلمے
برہما کے بردان سے اٹھتےہیں
دروازہ کھولو
فقیروں کی بستی میں
اسلام کی بوتلیں
اندر لوک کی ہوتی ہیں
شراب یم لوک سےآتی ہے
لیبل گورا ہاؤس میں لگتا ہے
اسمبلی کے اکھاڑے میں
رقص ابلیس ہوتا ہے
فقیروں کی بستی میں
تو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آب زم زم میں دھل کر
حوض کوثر میں کھلا گلاب
الله کی عنایت
محمد کی نظر عطا
برہما کا بردان
ایشور کی کرپا
نانک کی دیا
یسوع کی برکت
مری ماں مری جان
تری چاہت تری محبت
تری شفقت تری عظمت کے
بصد احترام و احتشام
قدم لے کر
مرا سلام مرا پرنام
حوض کوثر میں کھلا گلاب
یہی تو
بھگوان کی لیلا ہے
تم آکاش ہوءے میں دھرتی ٹھرا
ترے ہاتھ جیون مرتیو
تر بھوجن
مرے ہاتھ
یہی تو
(اردو کی پہلی سنکوءین)
Comment