Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

فروغ و ترویج اردو کے سلسلہ میں اسلامیہ کالج قصور کا کردار

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • فروغ و ترویج اردو کے سلسلہ میں اسلامیہ کالج قصور کا کردار

    فروغ و ترویج اردو کے سلسلہ میں اسلامیہ کالج قصور کا کردار

    انجمن اسلامیہ کالج قصور کے زیر اہتمام و انتظام ١٩٥٦ میں اسلامیہ کالج قصور کا قیام عمل میں آیا۔ پروفیسر غلام ربانی عزیز کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوءے۔ موصوف اردو انگریزی عربی اور فارسی پر دسترس رکھتے تھے جبکہ کالج میں معراج الدین اور احمد یار خاں ایسی شخصیات بھی خدمت انجام دے رہی تھیں۔ کالج میں علوم کے فروغ کے لیے مختلف انجمن ہا قاءم کی گءیں۔ ان میں پرشین سوساءٹی عزیز اور مجبور کے حوالہ سے فعال تھی۔ کالج میں اس حوالہ سے خوش کن ماحول پروان چڑھ رہا تھا۔ مختلف تقریبات کا کالج اور نجی سطع پر اہتمام ہوتا رہتا تھا لیکن ابھی تک کوئ اردو سوساءٹی قاءم نہ ہوئ تھی۔

    پرفیسر مبشر احمد کی آمد کے بعد یہ کمی بھی پوری ہو گئ۔ ان کی تحریک پر انجمن اردو کا قیام عمل میں آیا۔ اکتوبر ١٩٦١ میں انجمن اردو کے انتخاب ہوءے۔ نور محمد بسمل سال اول صدر‘ خالد اکبر سال دوم ناءب صدر‘ محمد اسلم شیخ سال اول معتمد عمومی‘ جاوید غفور سال اول ناءب معتمد اور عرفان سال اول معتمد مالیات منتحب ہوءے جبکہ مجلس منتظمہ کے لیے مظفر احمد سال اول‘ سید احمد سال دوم؛ محمد اسلم اصلاحی سال اول منتحب ہوءے۔ ایم فاروق اختر سال اول‘ خالد پرویز سال اول ناظم جلسہ مقرر ہوءے۔١ انجمن کا افتتاح ڈاکٹر وحید قریشی نے کیا۔ ٢ انہوں نے انجمن کے افتتاحی اجلاس سے خطاب بھی فرمایا۔ انجمن اردو کی نگرانی پروفیسر مبشر احمد اور سرپرستی کی ذمہ داری کالج کے پرنسپل نے قبول کی۔
    انجمن کی دوسری تقریب اپریل ١٩٦٢ میں زیرصدارت میرزا ادیب ہوئ۔ مذاکرے کا موضوع ذریعہ تعلیم اور اردو تھا۔ مذاکرے میں محمد یامین سال اول‘ محمد اسلم اصلاحی سال اول‘ محمد شاکر سال اول‘ حامد نواز سال اول‘ رحمت الله خاں سوری سال اول‘ محمد فاروق اختر سال اول‘ سجاد احمد سال اول‘ جاوید غفور سال اول‘ مشکور علی سال اول‘ نسیم رضا سال اول نے حصہ لیا۔ منصفین کے فراءض ارشاد احمد حقانی‘ مسز فرخ مسعود اور احمد یار خان مجبور نے انجام دیے۔ متفقہ طور پر حامد نواز اول‘ جاوید غفور دوم‘ محمد یامین سوم جبکہ نسیم رضا چہارم قرار پاءے۔ ٣ الادب کے شمارہ ١٩٦١-٦٢ میں انجمن کے عہدےداران کا گروپ فوٹو لگایا گیا۔
    عموما اعتراض کیا جاتا ہے کہ اردو زبان ساءنسی علوم و معاملات کے اظہار سے قاصر ہے۔ اسی سال ١٩٦٢ میں انجمن اردو کی ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر حمید عسکری نے جوہری توانائ کے موضوع پر ڈیرھ گھنٹہ لیکچر دے کر ثابت کر دیا کہ اردو زبان ساءنسی امور کے اظہار کے حوالہ سے معذور نہیں۔٤
    ١٩٦٢ہی میں انجمن اردو کے حوالہ سے ایک اور تقریب کا انتظام کیا گیا۔ اس تقریب میں ڈاکٹر وحید قریشی‘ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار‘ سید وقار عظیم اور ڈاکٹر سید محمد عبدالله ایسی بڑی شخصیات نے شرکت کی۔٥ اس کے علاوہ لاہور سے دس مہمان تشریف لاءے۔ ٦ سید وقار عظیم نے تقریب سے خطاب کیا جبکہ ڈاکٹر سید محمد عبدالله نے بہترین مقررین میں انعامات تقسیم کیے۔ بہترین کارگزاری دکھانے والوں کو اسناد دی گیءیں۔
    اسی شام ڈاکٹر وحید قریشی ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اور ڈاکٹر سید محمد عبدالله نے شہر قصور کی انجمن ترویج اردو کا افتتاح کیا۔٧ اس تقریب میں قصور کے ایس ڈی ایم پرویز بٹ نے بھی شرکت کی اور حاضرین سے خطاب کیا۔٨
    نءے سال کے لیے انتخابات ہوءے۔ محمد حفیظ علوی سال دوم صدر‘ محمد یامین سلیمی سال دوم سنیءر ناءب صدر‘ محمد بلال شیخ سال دوم ناءب صدر‘ اسدالله غالب سال دوم معتمد عمومی‘ محمد اکبر سال اول معتمد‘ محمد غوث سال دوم کو معتمد مالیات منتخب کیا گیا۔٩ الادب کے شمارہ ١٩٦٢-٦٣ میں انجمن اردو کے غہدےداران کا گروپ فوٹو لگایا گیا۔ مجلس عاملہ کے لیے محمد حیات‘ عطاءالرحمن‘ محمد اسلم اصلاحی‘ مسعود خاں‘ فقیر حسین‘ حامد نواز‘ منیر احمد‘ غلام قادر‘ ہارون رشید منتخب ہوءے۔١٠ خالد بزمی نے اردو کے حق میں ایک رباعی پیش کی جو الادب کے شمارہ ١٩٦٢-٦٣ میں بطور خاص شاءع کی گئ:
    اردو کا رواج عام ہو گا کہ نہیں
    حکام وطن یہ کام ہو کہ نہیں
    دور انگریز کی لعنت ہے انگلش
    کام اس کا تمام ہو گا کہ نہیں
    انجمن اردو کی سرگرمیاں جاری رہیں اور ان سرگرمیوں کے حوالہ سے الادب میں تصاویر شاءع ہوتی رہیں۔ پروفیسر وقار احمد خاں کے دور١٩٦٦ میں کالج کے سالانہ جلسہءتقسیم انعامات کے موقع پر ڈاکٹر سید محمد عبدالله کو مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر سید صاحب نے اردو سوساءٹی کے قیام کی تحریک دی۔ اس ذیل میں انہوں نے اساتذہ اور طلباء کی مشترکہ انتظامی کمیٹی کی تشکیل کی تجویز دی۔ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لیے دستخطوں کی مہم چلائ اور کہا کہ وہ دستخط انہیں لاہور پنچاءے جاءیں۔ اس مہم کا آغاز ارشاد احمد حقانی کی نگرانی میں ہوا۔ اس مہم میں پروفیسر محمد اکرام ہوشیارپوری‘ پروفیسر حفیظ ہاشمی‘ پرفیسر منیر بخاری‘ پروفیسر منظور نذر‘ اکبر راہی جبکہ منیر راج اور بشیرذاکر پیش پیش تھے۔ ایک ہزار دستخطوں پر مشتمل فہرست ممتاز منگلوی کے توسط سے سید صاحب کو پنچا دی گئ۔ ١١
    انجمن اردو کی سرگرمیاں ماند سی پڑ گئ تھیں۔ پروفیسر محمد اکرام ہوشیارپوری کی کوششوں اور پروفیسر وقار احمد خاں کے تعاون سے انجمن کو فعال بنایا گیا۔ انجمن اردو کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس میں پرویز محمود‘ منیر راج‘ شاہد رشید‘ محمد ذکریا قریشی‘ نعیم محمود‘ محمد سلیم شیخ‘ منظور حسین‘ قاضی محمد رؤف‘ محمد ادریس شاد اور سردار قیصر خاں شامل تھے۔١٢
    انجمن اردو کی دو تقریبات ١٩٦٧-٦٨ میں احمد ندیم قاسمی تشریف لاءے۔ ١٩٦٨ کی تقریب کے حوالہ سے ان کے ساتھ شام بھی منائ گئ۔
    ١٩٦٩
    میں انجن اردو کے زیر اہتمام ایک تقریب ہوئ جس کی صدارت ڈیپٹی کمشنر قصور نے کی۔ اسی سال ایک اور تقریب منعقد ہوئ جس میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے شرکت کی۔ اس تقریب میں اشفاق احمد کی افسانہ نگاری پر مضامین پڑھے گیے۔ اسی سال انجمن اردو کی اور تقریب ہوئ جس میں پنجابی شاعر فضل شاہ گجراتی کو مدعو کیا گیا۔ تقریب کے اختتام پر سید امتیاز علی تاج کے سانحہءقتل کے سلسلہ میں تعزیتی قرار منظور گئ۔ اس تقریب میں وقار احمد خاں‘ پروفیسر منشا سلیمی‘ پروفیسر عبدالغفور‘ پروفیسر محمد اکرام ہوشیارپوری‘ پروفیسر عبدالغنی‘ پروفیسر الہ یار خاں‘ خلیل آتش اور محمد علی ظہوری بھی شامل تھے۔ ١٣ اسی سال انجمن کی ایک اور تقریب میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے شرکت کی۔١٤
    ١٩٧١
    میں پرفیسر ثناءالرحمن نے انجمن اردو کو فعال بنایا۔ اسی سال انجمن اردو کے زیر اہتمام ایک شام سید عابد علی عابد کے ساتھ منائ گئ۔ موسیقی کا پروگرام بھی ہوا۔ سازندوں سے سید صاحب خود اٹھ کر ملے اور شام کا راگ ایمن سنانے فرمایش کی۔ حافظ محمد شفع نے طبلے پر ایک ایسی دھن پیش کی کہ سب حیران رہ گیے۔١٥ تقریب کے آخر میں سید صاحب نے اپنا کلام سنایا۔ جس کا مقطع یہ تھا:
    وقت رخصت وہ چپ رہے عابد آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
    ١٩٧٢
    میں انجمن اردو کی ایک تقریب میں حفیظ جالندھری مدعو تھے۔ اسی طرح ١٩٧٥ میں بھی انجمن اردو کے مہمان بنے اور ان کے ساتھ شام منائ گئ۔٤ فروری ١٩٧٥ میں انجمن اردو کی تقریب میں ڈاکٹر سید محمد عبدالله دوسری بار تشریف لاءے۔ بلاشبہ کالج ہذا کے لیے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔
    ١٩٧٦
    میں انجمن اردو نے اپنی ایک تقریب میں احسان دانش کو مدعو کیا۔ تقریب بھرپور رہی۔ شعرا نے اپنے کلام سے
    حاضرین کو محظوظ کیا۔
    بزم اردو قصور جو عرصہ دراز سے انجمن اسلامیہ قصور کے زیر اہتمام اہل قصور کے لیے ادبی تسکین کا ذریعہ تھی۔ فروری ١٩٦٤ میں شیخ محمد اقبال سودائ کی صدارت میں بسلسلہ ترویج وترقی اردو‘ انجمن کے دفتر میں اجلاس ہوا۔ اجلاس میں شیخ ریاض احمد اور شیخ محمد طاہر بھی شامل تھے۔ اجلاس میں پروفیسر محمد اکرام ہوشیارپوری کو متفقہ طور پر سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ بدقسمتی سے منظور کی گئ قراردادیں سازشوں کا شکار ہو گیں اور ترویج و ترقی اردو کے لیے کچھ نہ ہو سکا۔١٦
    ١٩٧٨
    میں گورنمنٹ کالج لاہور کے استاد مولانا اظہر انجمن اردو کے مہمان بنے۔انہوں نے انجمن ہذا کی کارگزاری کو سراہا۔
    نومبر ١٩٨٩ میں ایک بار پھر پرفیسر محمد اکرام ہوشیارپوری اور پروفیسر مقصود حسنی کی کوششوں سے مجلس اردو قاءم ہوئ۔ اس میں پروفیسر علامہ عبدالغفور ظفر پروفیسر علی حسن چوہان

    پروفیسر عبدالغفور رفیقی اور پروفیسر محمد مشتاق انصاری سرگرم رکن تھے۔ بدقسمتی سے یہ بھی حالات کا شکار ہو گئ۔
    ١٩٩٢
    میں مقصود حسنی نے اردو سوسءٹی کی بنیاد رکھی۔ اردو سوساءٹی کے حوالہ سے پاکستان بھر میں کام ہوا۔ قراردادیں منظور کی گءیں۔ علماء کرام سے فتوی جات حاصل کیے گیے۔ نفاذ اردو کے لیے حکام بالا کو دخواستیں گزاری گیں۔ مضمون لکھے اور لکھواءے گیے۔ وفاقی متسب اور چیف جسٹس شریعت کورٹ میں معاملہ رکھا گیا۔ مقصود حسنی نے نفاذ اردو کے حوالہ سے ادارہ علم وادب پاکستان اور تحریک نفاذ اردو پاکستان سے بڑھ چڑھ کر تعاون کیا۔
    ١٩٩٥
    میں بزم اردو قاءم ہوئ باقاعدہ انتخابات ہوءے۔ پروفیسر عبدالغفور ظفر صدر‘ پروفیسر مقصود حسنی ناءب صدر‘ پروفیسر عطاءالرحمن جنرل سیکرٹری‘ پروفیسر عظیم اکبر سیکرٹری مالیات اور پروفیسر محمد رفیق ساگر سیکرٹری نشرواشاعت منتخب ہوءے۔ بزم اردو کے پندرہ روزہ اجلاس باقاعدگی سے ہوتے۔ اراکین ناصرف نفاذ ارددو کے لیے آواز بلند کرتے رہتے بلکہ اپنی نثری اور شعری تخلیقات بھی پیش کرتے۔ علامہ عبدالغفورظفر اس حوالہ سے قابل تحسین سرگرمی دکھاتے۔ اس انجمن کے اجلاس ممبران کے گھروں پر ہوتے۔
    بروفیسر راؤ اختر علی کے عہد میں مارننگ اسمبلی کا رواج پڑا۔ اس پلیٹ فورم کے حوالہ سے طلباء کو اردو تقاریر کی طرف راغب کیا گیا۔ فروغ اردو کے حوالہ سے یہ اقدام کارگز ثابت ہو رہا ہے۔ یہ عمل تاحال جاری ہے۔
    حوالہ جات
    ١۔ الادب ١٩٦١-٦٢ ص ٦٣
    ٢۔ الادب ١٩٦١-٦٢ ص ٦٤
    ٣۔ الادب ١٩٦١-٦٢ ص ٦٤
    ٤۔ الاادب ١٩٦٢-٦٣ ص ٥٩

    ٥۔ الادب ١٩٦٢-٦٣ ص ٥٩
    ٦۔ الادب ١٩٦٢-٦٣ ص ٥٩
    ٧۔ الادب ١٩٦٢-٦٣ ص ٥٩
    ٨۔ الادب ١٩٦٢-٦٣ ص ٥٩
    ٩۔ الادب ١٩٦٢-٦٣ ص ٥٩
    تا ١٦ راویت پروفیسر محمد اکرام ہوشیارپوری١٠
Working...
X