دو لقمے
تعفن میں اٹی
اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی‘
جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ لاشوں کے دل کی دھڑکنیں
دیوار پر آویزاں کلاک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔
بھوک کی اہیں‘
بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔
آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔
بھوک کا ناگ پھن پھیلاءے بیٹھا تھا۔
مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔
اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ لاشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔
پھر اک لاشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائ صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔
وہ اس بستی کا نہ تھا۔
بھوک ناگ بولا: کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔
پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔
لاشہ چلایا: نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آءے گی۔
سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئ نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔
لاشہ سٹپٹایا اور چلایا:
اجالوں کے باسیو!
علم و فن کے دعوےدارو!
سیاست میں شرافت کے مدعیو!
جمہوریت کے علم بردارو!
اسلحہ خرید کرنے والو!
فلاحی اداروں کے نمبردارو!
عالمی وڈیرو‘
کہاں ہو تم سب‘
تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوءے؟
اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔
دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں
۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے‘
میری زندگی کے ضامن ہیں۔
ایف سولہ ہاءیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔
میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔
اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں تمہیں امر کر دے گی۔
11 ستمبر 1970
Comment