فقیر بابا
افسانہ
چوک میں بیٹھے فقیر بابا سے متعلق لوگوں کی مختلف آراء تھیں۔ کوئ اسے محض بھیکاری قرار دیتا تھا۔ کسی کا خیال تھا کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں۔ بیشتر کے خیال میں وہ پہنچا ہوا ولی الله تھا۔ مزے کی بات یہ کہ وہ ہر راءے پر پورا اترتا تھا۔ اس لیے کوئ حتمی فیصلہ دیا جانا ممکن نہ تھا۔ اس نے آج تک اپنے متعلق کوئ کلمہ منہ سے نہ نکالا تھا۔ اس کے متعلق علاقہ میں عجیب پراسرایت پائ جاتی تھی۔ اگر کوئ اس سے کچھ پوچھتا تو یہ کہہ کر خاموش ہو
"انسان تنہا ہو گیا ہے۔"
معاشرے کی بھیڑ میں زندگی کرنے والوں کو تنہا کیسے اور کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسی بات کرنے والے کو دماغی مریض ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایک اچھا خاصا طبقہ اسے پاگل سمجھتا تھا۔ بدقسمتی کی بات یہ کہ کبھی کسی نے اس کی پلکوں کی اوٹ میں جھانک کر حقیقت جاننے کی کوشش ہی نہ کی تھی اور ناہی اس کے منہ سے نکلے لفظوں کی گہرائ ماپنے کی زحمت ااٹھائ تھی۔
کل میں اور میرے کچھ دوست ایک پررونق ہوٹل میں بیٹھے چاءے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہمارا موضوع کوئ خاص تو نہ تھا۔ وہی اہل زر اور اہل جاہ کی بےحسی اور کم ظرفی کے شکوے گلے کر رہے تھے۔ ہمارے قریب ہی کچھ اور لوگ چاءے سے لطف افروزی کے ساتھ ساتھ سیاست اور جمہوریت کے گیت الاپ رہے تھے۔ لگتا تھا کہ کسی پرچی مانگت نے ان کے منہ میں زیرہ رکھ دیا تھا۔ اسی اثناء میں ایک نو دس سال کا بچہ چاءے لے کر آگیا۔ کپڑوں کی میل اور بوسیدگی کے عقب سے بھی ذہانت کی چمک جھانک رہی تھی۔ ہم اس ہوٹل سے کئ بار چاءے پی چکے تھے یہی بچہ چاءے سرو کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بےبسی ہر بار ہوتی تھی لیکن ہماری بیمار اور خودغرض آنکھوں نےکبھی اسے پڑھنے کی حماقت نہ کی تھی۔ ہم میں سے ہر کوئ اپنے زخموں کا رونا روتا لیکن اس کی بے بسی کا رونا رونے والا کوئ نہ تھا۔
اس روز چاءے کی پیالی میرے حلق سے بمشکل نیچے اتری۔ میرے ضمیر پر ہتھوڑے سے برسنے لگے۔میں نے سوچا لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر یہ خطہ ارض حاصل کیا۔ ہمارے پرکھوں نے اپنی نسل کے لیے کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ ہر چھوٹا بڑے کی ہاں میں ہاں ملاءے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر بڑا کسی عالمی وڈیرے کا جی حضوریہ ہے۔ ہونٹوں کی جنبش اپنی ہوتی ہے لیکن ان ہونٹوں پر تھرکنے والے الفاظ اس کے اپنے نہیں ہوتے۔
پھر میں نے سوچا میری بیوی میرے بچے کتنے اکیلے ہیں۔ میں ان کا‘ صرف ان کا ہو کر بھی ان کا نہیں۔ میں صبح شام ان کے لیے مشقت کرتا ہوں اور لباس و خوراک ہی کو زندگی سمجھتا ہوں لیکن ترجیحات میری اپنی ہوتی ہیں۔ میرے بچے میری بیوی مجھ سےاپناہیت کا وقتا فوقتا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن پس پشت میرے وقار اور میری محنت کا منہ چڑاتے ہیں۔ وہ اسی میں اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ میں ان میں زندگی کرتے ہوءے بھی تنہائ کا شکار ہوں۔
پچھلے الیکشنوں میں میرا نماءندہ میرے گھر آیا۔ کہنے لگا میں آپ کا بھائ ہوں۔ ہر آڑے وقت کام آؤں گا۔ مجھے ووٹ دے کر کامیاب کراءیں۔ میرے دروازے آپ پر ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ میں نے ووٹ اسے دیا۔ وہ کامیاب بھی ہو گیا۔ میں اسے اس کے گھر مبارک باد کہنے گیا۔ اس کےگھر کی دیواریں بلند ہو چکی تھیں۔ وہ میرے دیس کا باسی ہی نہ رہا تھا۔ اس کا مکان اسی بستی میں تھا وہ محلہ دار ہوتے ہوءے محلہ دار نہ تھا۔
میرا بھائ یہ کہتے نہ تھکتا تھا کہ تم میرے جسم کا حصہ ہو۔ میں تمہارے بغیر ادھورہ ہوں۔ اس کے لفظوں میں شہد سے بڑھ کر مٹھاس تھی لیکن باپ کی جاءداد سے حصہ دیتے وقت سب رشتے بھول گیا۔ وہ مجھے اب بھی ملتا ہے۔ اپنی محبت کا احساس دلاتا ہے لیکن میری بھوک پیاس اور ضرورت سے اس کا کوئ لینا دینا نہیں۔
ماں نے مرتے وقت شمو کا ہاتھ میرے ہاتھ دیا اور تاکید کی کہ اسے کسی محرومی کا احساس نہ ہونے دوں۔ میں نے پندرہ سال ماں کے لفظوں کا پورے خلوص اور دیانت داری سے بھرم رکھا۔ اس کی ہر ضرورت اور ہر خوشی پر اپنا لہو نچھاور کیا۔ وہی شمو جو میری ماں جائ بھی تھی‘ سب کچھ بھول کر اپنے ایک کلاس فیلو کے ساتھ مجھے چھوڑ کر چلی گئ۔
لوگ اپنے بچوں پر اپنی جوانی نچھاور کر دیتے ہیں۔ ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں۔ ان کے دکھ تکیف میں کھانا پینا اور سونا بھول جاتے ہیں۔ شادی کے بعد وہی بچے انہیں لایعنی بوجھ خیال کرتے ہیں۔ سب کے ہوتے اور سب کچھ اپنا ہوتے ہوءے‘ ان کے دامن میں تنہائ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
فقیر بابا کو میں بھی پاگل سمجھتا تھا۔ میں نے اس کے کہے کے مفاہیم دریافت کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ ہوٹل پر کام کرتے بچے کو دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ فقیر بابا غلط نہیں کہتا۔ وہ پاگل نہیں‘ اس نے تو دنیا کی گل پا لی ہے۔ اسی لیے ہر پوچھنے والے کو دنیا کا حقیقی چہرا دیکھاتا ہے کہ انسان تنہا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یکسر تنہا۔
9 مئ 1972