دیگی ذاءقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی
مقصود حسنی
دانستہ غلطی کوتاہی بلاشبہ لاءیق سرزنش ہے۔ کوشش کرتا ہوں جو بھی کروں پوری ذمہ داری اور ہوش مندی سے کروں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں کمی کوتاہی کی راہ نکل ہی آتی ہے۔ اس ذیل میں وہ لوگ یقینا خوش قسمت ہیں جنھوں نے کچھ نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ نتیجتا ان سے غلطی کوتاہی سرزد نہیں ہوتی۔ اگر کسی کے مجبور کرنے یا کسی سرکاری یا بیگماتی مجبوری کے تحت کچھ کرنا ہی پڑ جاتا ہے تو غلطی کوتاہی کی نشاندہی کرنے والے کی شامت آ جاتی ہے۔ غلطی کرنے والے کی گردن پر گرہ نہیں آتی۔ ہر کوئ کرنے والے ہی کا پکھ لیتا ہے۔ دیکھو یاراس نے کچھ تو کیا ہے حوصلہ افزائ کی بجاءے حوصلہ شکنی سے لیا جا رہا ہے۔ نکتہ چین تھوڑ دلی سے کام لے رہا ہے۔ اس وچارے نے کب کبھی کوئ کام کیا ہے۔ پہلا پہلا کام ہے‘ غلطیاں تو ہوں گی۔
پہلا پہلا کام کرنے والا خود کو علامہ شبلی نعمانی کا بھی استاد سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے لیے اس کا یہ پہلا پہلا بھگوت گیتا سے کی طرح کم نہیں ہوتا۔ چیلے چمٹے اسے عظیم فن پارہ قرار دے کر اڑے پھسے کام نکلوا لیتے ہیں۔ میں کوئ اعلی شکشا منشی ہاؤس کا اہلکار نہیں جو معاف کر دیا جاؤں گا۔ اس لیے خود ہی اپنی غلطی کوتاہی کا اعتراف کر لیتا ہوں۔ بڑے لوگوں کی طرف انگلی اٹھتی ہے مجھ پر لوگوں کا پنجہ اٹھے گا۔ ۔
پہلی پہلی غلطی کوتاہی کو لاءیق تعزیر قرار نہیں دیا سکتا کیونکہ کوشش تو کی گئ ہوتی ہے اور کرنے والے سے ہی غلطی ہوتی ہے۔ کرنے والوں میں عادی کرنے والے ہوتے ہیں جبکہ فٹیکی کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ دونوں کے کرنوں میں نمایاں فرق موجود ہوتا ہے۔ ذاءقہ بھی اسی تناظر میں تشکیل پاتا ہے۔ ذاتی شوق اور گیڈر پروانہ کی حصولی سے وابستہ کیا ایک سا نہیں ہو سکتا۔ دونوں کے ذاءقوں میں زمین آسمان کا فرق موجود ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود ذاتی والا دو نمبری کے درجے پر فاءز کیا جاتا ہے جبکہ گیڈڑائ کسی بڑی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔ اب ذاءقے کا تعلق بندے کوبندے جڑ جاتا ہے۔
میں نے کھائ پکائ میں تیکنیکی امور کو مدنظر رکھا۔ کھائ کی تعبیر و تشریح میں انتہائ حساس امور کو نظر انداز کر گیا حالانکہ ان کا کھائ سے چولی دامن کا تعلق ہے۔ محاورہ اگلے زمانے کا ہے محاورہ بنانے والوں نے دامن کے ساتھ چولی جانے کیوں اندراج کیا۔ اگلے زمانے میں چولی نہیں چولے ہوا کرتے تھے۔ چولی غالبا غرب کی دین ہے۔ لباسی اختصار پیچھلے پچاس سالوں میں ہوا ہے۔ اب تو لباس کا نام تکلفا لیا جاتا ہے اس لیے میں نے تکلفا مروتا چولی لفظ استعمال کر دیا ہے۔ رہ گیا دامن‘ جب چولی نہیں ہوگی دامن کہاں سے آءے گا۔ مترادف میں مرد حضرات نے بیگ جبکہ خواتین نے بڑے فینسی پرس رکھ لیے ہیں اور ان میں کافی کچھ سما سکتا ہے۔ مرد اور خواتین احتیاتا ساتھی بھی اہتماما رکھنے لگے ہیں۔ بیگ یا پرس میں وہ جو کچھ بھی رکھیں ان کا ذاتی معاملہ ہے اس پر کلام کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں اس لیے چولی دامن کی جگہ بیگ پرس کا ساتھ محاورہ ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں یہی ارضی اور کلچری سچائ ہے۔
خیر غلطی کوتاہی کا حل یہی ہے کہ متعلقہ حصہ میں تبدیلی اضافہ وغیرہ کر دیا جاءے۔ بھلا ہو مہر افروز صاحبہ کا جو انھوں نے بروقت نشاندہی کر دی ہے۔ میں ان کا دل و جان سے احسان مند ہوں۔ اگر وہ نشاندہی نہ کرتیں‘ باریک بین مورخ کبھی معاف نہ کرتا۔ وہ کرتا نہ کرتا میرا ضمیر مجھے معاف نہ کرتا۔ پکائ بلاشبہ بڑی معنویت کی حامل ہے لیکن ذاءقے کا تعلق کھائ کے مختلف حوالوں سے جڑا ہوا ہے۔ ذاءقے سے منہ مسلک ہے۔ منہ بڑا ہو یا چوٹا اس میں ایک عدد زبان بھی ہے جو چھکنے اور جلانے کے کام آتی ہے۔ چکھنے سے پہلے بھی چلتی دیکھنے سننے میں آتی رہتی ہے۔ یہ جہاں نائ کے کانوں پر بار بنتی ہے وہاں دیگ کا سامان لانے والے اور سامان دینے والے دوکان دار کو بھی گرفت میں رکھتی ہے۔ ہیاں تک کہ بلاچھکے ریمارکس پاس کر دیتی ہے۔ گویا یہ ذاءقے کا پیش لفظ ہوتا ہے۔
سرکاری تنخواہ کی آمدنی کا ذاءقہ پھیکا پھیکا اور قطعی ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔ معقولی اور غیر معقولی بالائ کا ذاءقہ الگ سے اور دو طرح کا ہوتا ہے۔ یہ ذاءقہ زیادہ تر دفتری لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ بالائ کا داءرہ دفتروں کے زندان سے آزادی حاصل کر چکا ہے۔ ستم اس پر یہ کہ رشوت لینے والے کو راشی کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ساءل رشوت خور ٹھہرتا ہے۔ ظالم کا ظلم مظلوم پر ٹھہرنا صدیوں کی ریت ہے۔ یہ صرف رنجیت سنگھ ہی کو اعزاز حاصل تھا کہ وہ ہاتھ بندھے بری اور لک بندھک لٹکاتا تھا۔ بہرکیف لفظ راشی کا متضاد استعمال میرے لیے حیران کن نہیں۔ لفظ کا رمزی استعمال کلام میں شگفتگی اور بلاغت پیدا کر دیتا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ زیریں کے دست مبارک سے لفافہ اوبر جاتا ہے۔ اس حوالہ سے اسے راشی ہی کہا جاءے گا مرتشی اوپر والے کو کہا جاءے گا۔ کھائ کے حوالہ سےتین ذاءقے ترکیب پاءیں گے۔ ساءل کا ذاءقہ کڑوا‘ راشی کا ذاءقہ نمکین اور قدرے لذیذ جبکہ مرتشی کا ذاءقہ لذتوں کا امین ہوتا ہے۔
چوری ڈاکے اسمگلنگ ہیرا پھیری وغیرہ کی کمائ کو حرام کی کمائ کا نام دیا جاتا ہے۔ پہلی تینوں طرح کی کمائ خطروں سے ہی نہیں بھری رسک آمیز بھی ہے جبکہ ہیرا پھیری میں دماغ کا خرچہ بڑھتا ہے اس لیے یک طرفہ سوچنے کی بجاءے دو بلکہ سہ طرفہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ لٹنے والا اور کما لے گا اسے دکھ ضرور ہوتا ہے۔ دوبارہ سے کمائ کا ذاءقہ پسینہ آلود ہونے کے سبب چکنائ انگیز ہوگا۔ چوری ڈاکے اسمگلنگ ہیرا پھیری کی کمائ جو پرمشقت ہوتی ہے‘ کا ذاءقہ اگلے رسک پر آمادہ کرتا ہے۔ گویا اس قسم کی کمائ کے ذاءقے میں تحرک کا عنصر غالب اور نمایاں رہتا ہے۔
قوم و ملک سے غداری کے صلہ میں کھیسے پڑنے والی کمائ کا ذاءقہ بی کچھ اور نوعیت کا ہوتا ہے۔۔ بی کا مخفف لمبی چوڑی فہرست سے بچاتا ہے۔ شراب کباب کے ساتھ شباب کی بڑھوتی کسی ایرے غیرے کو زیب نہیں دیتی۔ یہ ذاءقہ دوسرے ذاءقوں سے الگ ترین ہوتا ہے اور اس میں نوابی آن بان اور شان تھرک رہی ہوتی ہے۔ ان کے کتے بلے بھی ان کے اترن سے حصہ پا کر کا سا کے درجے پر فاءز ہو جاتے ہیں اور ان کا ذاءقہ بھی معمولی اور عمومی نہیں رہ پاتا۔ ان کا یہ موقف غلط نہیں لگتا کہ موجودہ حکمران کون سے خیر کے فعل انجام دیتے ہیں۔ آنے والا بھی یہی کچھ کرے گا۔ ہاں تبدیلیوں میں لہو بہتا ہے اور یہ کوئ نئ بات نہیں۔ غداریاں ہوتی ائ ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ وہ کون سا اچرج کام کر رہے ہوتے ہیں۔ خون بہتا رہا ہے‘ بہتا رہے گا۔ عموم کا سماجی اسٹیٹس یہی رہا ہے اور یہی رہے گا۔
پلے سے کھایا تو کیا کھایا۔ مفت خوری کا ذاءقہ غیرمعمولی ہوتا ہے۔ لاریب فیہ میں مولوی صاحبان کو اپنے سوچ میں بھی نہیں لا سکتا۔ جو یہ سوچتے ہیں کہ میں ان کو درمیان میں لا رہا ہوں غلط سوچتے ہیں۔ یہ حضرات مفت خوری میں نہیں آتے۔ ان کی کمائ مشقت سے بھرپور ہوتی ہے۔ ان سے بچوں کی تدریس کا ڈر اور خوف قطعی لایعنی ہے۔ آخر پمپر کس لیے بنے ہیں اور ان کا استعمال کب ہو گا۔ زندگی میں کرتا کوئ ہے کھاتا کوئ ہے۔ کرنے اور کھانے والے کا ذاءقہ ایک سا نہیں ہو سکتا۔ لکھنے والوں کو ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ ناچے گاءیکے پیٹ بھر کھاتے ہیں۔ لکھنے والوں کا دماغ خرچ ہوتا ہے جبکہ باقی طبقوں کی جسمی محنت رنگ لاتی ہے۔ لکھاری گاءک رقص کندہ اور ان سے متعلقین کا ذاءقہ ایک سا نہیں ہو سکتا۔
ایک دیگ کے چاول تیکنکی ذاءقوں کے علاوہ بھی ذاہقے رکھتے ہیں۔ ہر موڈ اور ہر مزاج کا ذاءقہ الگ سے ہوتا ہے۔ تنقید کرنے کا ذاءقہ کٹھا مٹھا ہوتا ہے۔ تنقد برداشت کرنے کا ذاءقہ کڑوا ہوتا ہے۔ کہنے والی زبان اور سننے والے کانوں کا ذاءقہ ایک سا نہیں ہو سکتا۔ گویا موڈ مزاج اور رویہ زبان کے ریشوں میں تبدیلی لا کر ذاءقہ کی حس پر اثر ڈالتے ہیں۔
شہید اور شہادت کا تلک سجا کر تاریخ کا جز بننے والے ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ انہیں نہی میں ڈال کر جعلی کاروائ ڈال کر نہ کھلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘ بھی قرطاس حیات پر موجود رہیں گے۔ ماتمی بھی رہیں گے ان پر سنگ باری کرنے والے بھی زندگی کا حصہ رہیں گے۔ دیگ ایک ہی ہوتی ہے۔ پکائ بھی ایک ہاتھ کی ہوتی ہے۔ کسی کو پکوان لذت دیتا ہے۔ کوئ اسے چاولوں کا حشر نشر خیال کرتا ہے۔ دیگ میں ناصر زیدی کو کیڑے آمیز چاول نظر آتے ہیں۔ وہی پکوان تبسم کاشمیری پر وجد طاری کر دیتا ہے۔ صابر آفاقی پکائ سے متاثر ہو کر پی ایچ ڈی کی دس ڈگریاں دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالله قاضی پوسٹ پی ایچ ڈی کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب جمال کو پکائ میں سلیقہ نظر آتا ہے۔ ۔ڈاکٹر محمد امین اسی دیگ کے چاولوں میں نیا انداز اور پکانے والے کے ذہنی افق میں وسعت ذاءقہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا کو پکائ میں عصری ذاءقوں سے آگہی محسوس ہوتی ہے۔ دیگ ایک ہے‘ ذاءقے الگ الگ۔ گویا ذاءقہ منہ میں موجود زبان‘ اس کے ساءز اور ذہن کے سواد پر انحصار کرتا ہے۔
میں محترمہ مہرافروز کو داد دیتا ہوں کہ وہ ذاءقے کا رشتہ انسانی موڈ سے جوڑتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کھائ کے جانو حضرات ان کی اس انمول دریافت کو پرتحسین نظروں سے دیکھیں گے۔
مقصود حسنی
قصور‘ پاکستان
maqsood_hasni@yahoo.com