کھائ پکائ اور معیار کا تعین
مقصود حسنی
زندگی محدود نہیں۔ کاءنات زندگی سے الگ یا غیر متعلق نہیں۔ زندگی کو کاءنات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کاءنات کو زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک دوسرے سے انتہائ متعلق ہیں۔ کاءنات کی کوئ چیز جو تاحال انسان کی دسترس میں نہیں‘ کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کے متعلق کسی ناکسی سطع پر سوچ‘ خیال‘ نظریہ ہا کہیں ناکہیں کوئ حوالہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ اس لیے آگہی نہ ہونے کے سبب اسے مسترد کرنا یا یکسر نظرانداز کر دینا‘ درست نہیں ہوتا۔ یہ اس شخص کی محدود آگہی کا نقص ہوتا ہے ناکہ اس چیز یا زندگی کا نقص۔ بالکل اسی طرح کسی جز کو بنیاد بنا کر کل پر حرف غلط کی لکیر کھنچ دی جاءے۔ کل کے حوالہ سے ہر جز کو غلط قرار دینا بھی زیادتی کے مترادف ہوتا ہے کیونکہ ہر جز‘ کل کا حصہ ہوتے ہوءے بھی اپنا الگ سے ذاتی وجود رکھتا ہے۔ اشیاء اور جاندار فنا کی آغوش میں جا کر بھی جزوی طور پر فنا نہیں ہوئ ہوتیں۔ یہ اجزا تصرف میں لاءے جا سکتے ہیں۔ کل میں مدغم ہونے کے بعد ان کی کارگزاری ماند نہیں پڑتی۔ نءے کل میں عین ممکن ہے ان کی کارگزاری پہلے سے بہتر ہو جاءے یا وہ کسی دوسرے جز کے لیےمناسب‘ بہتر یا بہترین معاون ثابت ہو۔ ہر قدرے کار گزاری کو بھی نظرانداز کرنا زندگی کی روانی یا مزید ترقی کی سعی پر کلہڑی مارنے کےمترادف ہوتا ہے۔
کسی جز کی کجی کے سبب‘ کل کے تمام اجزا کو ناقص‘ بےکار یا ناکارہ قرار دے دینا کسی طرح دانش مندی نہیں۔ مثلا ٹی وی بند ہو جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹی وی کے تمام پرزے فیل یا خراب ہوگیے ہیں۔ کسی ایک پرزے میں نقص آ گیا ہوتا ہے جسے مکینک درست کر دیتا ہے یا بدل دیتا ہے۔ ٹی وی پھر سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تبدیل کیا جانے والا پرزہ لایعنی نہیں ہو جاتا۔ کسی ناکسی سطع پر اس کی کار گزاری باقی ہوتی ہے۔
کچھ نہیں میں کیڑے نکالنا کے لیے بےشمار مثالیں موجود ہیں۔ مواد ریسرچ اسکالر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی نوخیز یا تقریبا نوخیز بی بی سے ہم کلام نگران کے منہ سے جملہ نکلتا ہے یہ کام کیا ہے‘ جاؤ نظرثانی کرکے لاؤ۔ میں اس میں نگران کا قصور نہیں سمجھتا۔ ریسرچ اسکالر کو موقع دیکھ کر جانا چاہیے۔ زنگی شخص سے اور شخص زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ زندگی بےرنگ نہیں‘ زندگی تو بےشمار رنگوں سے وابستہ ہے اور معنویت کا تصرف ہی اصل ہنر مندی ہے۔ معمولی معنویت کا استعمال ناصرف ہنر کو نکھارنا ہے بلکہ وساءل کی بچت کا سبب بھی بنتا ہے۔ وساءل کا بچانا کسی نءی دریافت کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ دس محرم کو ماتمی جلوس گزر رہا تھا۔ ایک انگریز کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے اپنے گاءیڈ سے ماجرا پوچھا۔ گاءیڈ نے بتایا کہ حضرت امام حسین کی شہادت کا ماتم ہو رہا ہے۔ انگریز نے سمجھا کہ انہیں آج‘ چودہ سو برس بعد اتنے بڑے واقعے کا علم ہوا ہے۔ یہ واقعہ بطور دلیل علاقے کے لوگوں کو پس ماندہ سمجھنے کے لیے کافی ہے حالانکہ سرے سے ایسی کوئ بات ہی نہ تھی۔ گویا جز کو کل پر محمول کرنا کھلی زیادتی اور خود اپنی جہالت کے مترادفف ہے۔
بےوجود یا اچھی بھلی میں کیڑے بلکہ کاکروچ نکالنا ہر دو درج بالا امور سے الگ معاملہ ہے۔ کرنل فوجی پریڈ کی سلامی لے رہا تھا۔ اس نے باآواز بلند کہا اوہ گنڈا سنگھ قدم ملاؤ۔ کسی نے جواب دیا سر آج گنڈا سنگھ نہیں آیا۔ کرنل نے جوابا کہا بکو مت‘ وہ آءے نہ آءے میرا کام ٹوکائ کرنا ہے۔ چہاں اس قسم کی صورتحال ہو وہاں گفتگو کرنا ہی فضول ہے۔ انسان کا سوچ ناقابل گرفت ہے۔ انسانی جسم کو قید کیا جا سکتا ہے لیکن سوچ پر پہرے نہیں بٹھاءے جا سکتے۔
محاورہ بلکہ ضرب المثل چلی آتی ہے:
"پوری دیگ میں سے چند چاول بھی اس کے معیار کو پرکھنے کو کافی ہوتے ہیں"
اس ضرب المثل جو محاورے کے درجے پر فاءز ہے کا حقیت سے دور کا بھی رشتہ نہیں۔ ٹھیک اور احتیاط سے پکی ہوئ دیگ بھی چار ذاءقوں کی حامل ہوتی ہے۔ کچھ بھی کر لیں یہ حوالے ختم نہیں ہو پاءیں گے۔ ابتدائ‘ درمیانی‘ بالائ اور اطراف میں دیگ کے ساتھ لگے ہوءے چاؤلوں کا ذاءقہ اور تاثیر الگ سے ہوگی۔ بالائ یا بالائ سے تھوڑا نیچے سے لیے گیے چاولوں کے حوالہ سے پوری دیگ کے متعلق جاری کیا گیا حکم محض یک طرفہ قیافہ ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ یہ حکم پکانے والا لگا سکتا ہے یا کھانے والا۔ ہنرمندی کی بنا پر یہ حق پکانے والے کو دیا جاتا ہے حالانکہ یہ حق کھانے والے کا ہے۔ وہی بتا سکتا ہے کہ پکائ کی کیا صورتحال ہے۔ پکانے والا کبھی اپنی پکائ کی نندا نہیں کءے گا۔ دیگ جل جانے یا زیادہ آگ مل جانے کی صورت میں ذاءقے کی پانچ یا اس سے بڑھ کر صورتیں ہو سکتی ہیں۔ البتہ کروہڑی کے شوقینوں کی بن آتی ہے۔
میں ناصر زیدی سمیت تمام لکھنے والوں‘ خواہ وہ مفت میں مغز ماری کرتے ہوں یا معاوضہ پر لکھتے ہوں بالائ سطع کے چند چاولوں کو درستی کا معیار نہ بنا لیں۔ جب پکائ کھائ کی ابجد معلوم ہی نہ ہو تو گول مول درمیان کی بات کریں ورنہ پکائ اور کھائ کے جانو خلاصی نہیں کریں گے۔ حق اور انصاف کو تو ایک طرف رکھیے۔ مخالف کے اچھے میں بھی کیڑے نکالنا کم ظرفوں اور چمچوں کڑچھوں کا کام ہوتا ہے۔ اعلی ظرفی یہی ہے کہ مخالف کی بہتر کارگزاری کو سر آنکھوں پر لیا جاءے۔ جز پر کل کو قیاس نہ کر لیا جاءے۔ اسی طرح ہر کل کے گوارا اجزا کی تحسین کی جاءے یا اس سے آگے کی بات کی جاءے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک مصور نے اپنا فن پارہ گھر کے باہر آویزاں کر دیا اور کہا غلطیوں کی نشاندہی کر دی جاہے۔ اگلے دن اس نے دیکھا کہ وہ فن پارہ غلطیؤں سے بھرا پڑا تھا۔ شاید ہی کوئ حصہ غلطیوں سے پاک رہ گیا ہو گا۔ مصور کو بڑا دکھ ہوا۔ اس نے اگلے دن ایک اورفن پارہ آویزاں کیا اور نیچے لکھ دیا جہاں کہیں غلطی نظر آءے اسے درست کر دیا جاءے۔ فن پارہ کئ دن آویزاں رہا اس میں رائ بھر تبدیلی نہ آئ۔ تبدیلی لانے یا غلطیوں کی نشاندی کرنے کا حق صرف اسے ہے جو پکائ اور کھائ کے ہنر سے آگاہ ہو یا کھائ کے جملہ نشیب و فراز سے آگاہی رکھتا ہو۔
مقصود حسنی
قصور‘ پاکستان
maqsood_hasni@yahoo.com
مقصود حسنی
زندگی محدود نہیں۔ کاءنات زندگی سے الگ یا غیر متعلق نہیں۔ زندگی کو کاءنات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کاءنات کو زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک دوسرے سے انتہائ متعلق ہیں۔ کاءنات کی کوئ چیز جو تاحال انسان کی دسترس میں نہیں‘ کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کے متعلق کسی ناکسی سطع پر سوچ‘ خیال‘ نظریہ ہا کہیں ناکہیں کوئ حوالہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ اس لیے آگہی نہ ہونے کے سبب اسے مسترد کرنا یا یکسر نظرانداز کر دینا‘ درست نہیں ہوتا۔ یہ اس شخص کی محدود آگہی کا نقص ہوتا ہے ناکہ اس چیز یا زندگی کا نقص۔ بالکل اسی طرح کسی جز کو بنیاد بنا کر کل پر حرف غلط کی لکیر کھنچ دی جاءے۔ کل کے حوالہ سے ہر جز کو غلط قرار دینا بھی زیادتی کے مترادف ہوتا ہے کیونکہ ہر جز‘ کل کا حصہ ہوتے ہوءے بھی اپنا الگ سے ذاتی وجود رکھتا ہے۔ اشیاء اور جاندار فنا کی آغوش میں جا کر بھی جزوی طور پر فنا نہیں ہوئ ہوتیں۔ یہ اجزا تصرف میں لاءے جا سکتے ہیں۔ کل میں مدغم ہونے کے بعد ان کی کارگزاری ماند نہیں پڑتی۔ نءے کل میں عین ممکن ہے ان کی کارگزاری پہلے سے بہتر ہو جاءے یا وہ کسی دوسرے جز کے لیےمناسب‘ بہتر یا بہترین معاون ثابت ہو۔ ہر قدرے کار گزاری کو بھی نظرانداز کرنا زندگی کی روانی یا مزید ترقی کی سعی پر کلہڑی مارنے کےمترادف ہوتا ہے۔
کسی جز کی کجی کے سبب‘ کل کے تمام اجزا کو ناقص‘ بےکار یا ناکارہ قرار دے دینا کسی طرح دانش مندی نہیں۔ مثلا ٹی وی بند ہو جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹی وی کے تمام پرزے فیل یا خراب ہوگیے ہیں۔ کسی ایک پرزے میں نقص آ گیا ہوتا ہے جسے مکینک درست کر دیتا ہے یا بدل دیتا ہے۔ ٹی وی پھر سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تبدیل کیا جانے والا پرزہ لایعنی نہیں ہو جاتا۔ کسی ناکسی سطع پر اس کی کار گزاری باقی ہوتی ہے۔
کچھ نہیں میں کیڑے نکالنا کے لیے بےشمار مثالیں موجود ہیں۔ مواد ریسرچ اسکالر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی نوخیز یا تقریبا نوخیز بی بی سے ہم کلام نگران کے منہ سے جملہ نکلتا ہے یہ کام کیا ہے‘ جاؤ نظرثانی کرکے لاؤ۔ میں اس میں نگران کا قصور نہیں سمجھتا۔ ریسرچ اسکالر کو موقع دیکھ کر جانا چاہیے۔ زنگی شخص سے اور شخص زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ زندگی بےرنگ نہیں‘ زندگی تو بےشمار رنگوں سے وابستہ ہے اور معنویت کا تصرف ہی اصل ہنر مندی ہے۔ معمولی معنویت کا استعمال ناصرف ہنر کو نکھارنا ہے بلکہ وساءل کی بچت کا سبب بھی بنتا ہے۔ وساءل کا بچانا کسی نءی دریافت کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ دس محرم کو ماتمی جلوس گزر رہا تھا۔ ایک انگریز کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے اپنے گاءیڈ سے ماجرا پوچھا۔ گاءیڈ نے بتایا کہ حضرت امام حسین کی شہادت کا ماتم ہو رہا ہے۔ انگریز نے سمجھا کہ انہیں آج‘ چودہ سو برس بعد اتنے بڑے واقعے کا علم ہوا ہے۔ یہ واقعہ بطور دلیل علاقے کے لوگوں کو پس ماندہ سمجھنے کے لیے کافی ہے حالانکہ سرے سے ایسی کوئ بات ہی نہ تھی۔ گویا جز کو کل پر محمول کرنا کھلی زیادتی اور خود اپنی جہالت کے مترادفف ہے۔
بےوجود یا اچھی بھلی میں کیڑے بلکہ کاکروچ نکالنا ہر دو درج بالا امور سے الگ معاملہ ہے۔ کرنل فوجی پریڈ کی سلامی لے رہا تھا۔ اس نے باآواز بلند کہا اوہ گنڈا سنگھ قدم ملاؤ۔ کسی نے جواب دیا سر آج گنڈا سنگھ نہیں آیا۔ کرنل نے جوابا کہا بکو مت‘ وہ آءے نہ آءے میرا کام ٹوکائ کرنا ہے۔ چہاں اس قسم کی صورتحال ہو وہاں گفتگو کرنا ہی فضول ہے۔ انسان کا سوچ ناقابل گرفت ہے۔ انسانی جسم کو قید کیا جا سکتا ہے لیکن سوچ پر پہرے نہیں بٹھاءے جا سکتے۔
محاورہ بلکہ ضرب المثل چلی آتی ہے:
"پوری دیگ میں سے چند چاول بھی اس کے معیار کو پرکھنے کو کافی ہوتے ہیں"
اس ضرب المثل جو محاورے کے درجے پر فاءز ہے کا حقیت سے دور کا بھی رشتہ نہیں۔ ٹھیک اور احتیاط سے پکی ہوئ دیگ بھی چار ذاءقوں کی حامل ہوتی ہے۔ کچھ بھی کر لیں یہ حوالے ختم نہیں ہو پاءیں گے۔ ابتدائ‘ درمیانی‘ بالائ اور اطراف میں دیگ کے ساتھ لگے ہوءے چاؤلوں کا ذاءقہ اور تاثیر الگ سے ہوگی۔ بالائ یا بالائ سے تھوڑا نیچے سے لیے گیے چاولوں کے حوالہ سے پوری دیگ کے متعلق جاری کیا گیا حکم محض یک طرفہ قیافہ ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ یہ حکم پکانے والا لگا سکتا ہے یا کھانے والا۔ ہنرمندی کی بنا پر یہ حق پکانے والے کو دیا جاتا ہے حالانکہ یہ حق کھانے والے کا ہے۔ وہی بتا سکتا ہے کہ پکائ کی کیا صورتحال ہے۔ پکانے والا کبھی اپنی پکائ کی نندا نہیں کءے گا۔ دیگ جل جانے یا زیادہ آگ مل جانے کی صورت میں ذاءقے کی پانچ یا اس سے بڑھ کر صورتیں ہو سکتی ہیں۔ البتہ کروہڑی کے شوقینوں کی بن آتی ہے۔
میں ناصر زیدی سمیت تمام لکھنے والوں‘ خواہ وہ مفت میں مغز ماری کرتے ہوں یا معاوضہ پر لکھتے ہوں بالائ سطع کے چند چاولوں کو درستی کا معیار نہ بنا لیں۔ جب پکائ کھائ کی ابجد معلوم ہی نہ ہو تو گول مول درمیان کی بات کریں ورنہ پکائ اور کھائ کے جانو خلاصی نہیں کریں گے۔ حق اور انصاف کو تو ایک طرف رکھیے۔ مخالف کے اچھے میں بھی کیڑے نکالنا کم ظرفوں اور چمچوں کڑچھوں کا کام ہوتا ہے۔ اعلی ظرفی یہی ہے کہ مخالف کی بہتر کارگزاری کو سر آنکھوں پر لیا جاءے۔ جز پر کل کو قیاس نہ کر لیا جاءے۔ اسی طرح ہر کل کے گوارا اجزا کی تحسین کی جاءے یا اس سے آگے کی بات کی جاءے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک مصور نے اپنا فن پارہ گھر کے باہر آویزاں کر دیا اور کہا غلطیوں کی نشاندہی کر دی جاہے۔ اگلے دن اس نے دیکھا کہ وہ فن پارہ غلطیؤں سے بھرا پڑا تھا۔ شاید ہی کوئ حصہ غلطیوں سے پاک رہ گیا ہو گا۔ مصور کو بڑا دکھ ہوا۔ اس نے اگلے دن ایک اورفن پارہ آویزاں کیا اور نیچے لکھ دیا جہاں کہیں غلطی نظر آءے اسے درست کر دیا جاءے۔ فن پارہ کئ دن آویزاں رہا اس میں رائ بھر تبدیلی نہ آئ۔ تبدیلی لانے یا غلطیوں کی نشاندی کرنے کا حق صرف اسے ہے جو پکائ اور کھائ کے ہنر سے آگاہ ہو یا کھائ کے جملہ نشیب و فراز سے آگاہی رکھتا ہو۔
مقصود حسنی
قصور‘ پاکستان
maqsood_hasni@yahoo.com
Comment