مدن اور آلو ٹماٹر کا جال
لفظ جب تشکیل و ترکیب پاتا ہے مخصوص معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ مخصوص ماحول‘ مزاج‘ نفسیات‘ موڈ‘ لب ولہجہ‘ بناوٹ‘ کلچر وغیرہ رکھتا ہے۔ مستعمل اور معروف ہو جانے کی صورت میں محدود نہیں رہتا۔ بلکل ایسی صورت مہاجر آوازوں اور الفاظ کے ساتھ پیش آتی ہے۔ شخص زبان کا پابند نہیں زبانیں شخص کی پابند ہیں۔ زبانوں کو اپنے استعمال کرنے والوں کے حالات ضرورتوں ماحول موڈ کلچر وغیرہ کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اگر شخص کو زبان کا پابند کر دیا جاءے گا تواظہار میں مشکل یی نہیں خیال اور جذبے کی اصلیت باقی نہیں رہتی یا اس میں قوت برقرار نہیں رہ پاتی۔ وہ کچھ کا کچھ ہو سکتا ہے۔
مجھے لگا یہ کتاب ڈاکٹر وی پی سوری کے پی ایچ ڈی کے مقالے شہوت سے شہوانی معلومات کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ سوچا یہ کتاب واجدہ تبسم کا افسانہ اترن جسے کاما سوترا کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے‘ کی جدید ترین شرح بھی ہو سکتی ہے۔ میں نے سوچا عین مکن ہے ہیولاک ایلس کی کاوش تانترہ کو نیا کالب دے دیا گیا ہو گا۔ یہ کوئ حیرت کی بات نہیں کوک شاستر کے حوالہ سے مواد وافر دستیاب ہے۔ وہی وہانوی نے جنس پر بہت کچھ لکھا تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر سلیم اختر نے مرد جنس کے آءنے میں‘ عورت جنس کے آءنے میں اور شادی جنس اور جذبات ایسی کتب کے تراجم کیے ہیں۔ اس حوالہ سے کام بند نہیں ہوا۔ گویا سلسلہ جاری ہے۔
جنس کوئ عام اور معمولی موضوع نہیں۔ بڑے بڑے لوگ آلات زنانہ کے معاملہ میں حساس واقع ہوءے ہیں۔ دو بیبیاں تنہائ میں بیٹھی آلات مردانہ پر بڑی خاموشی سے تبصرہ کر رہی تھیں۔ دو مرد قہقہے لگاتے ہوتے وہاں سے گزرے۔ ایک نے پوچھا یہ کس قسم کی باتیں کر رہے ہوں گے۔ دوسری نے جوابا کہا ان کی باڈی لنگوءج بتا رہی تھی کہ وہ ہمارے آلات پر گفتگو کرکے زبانی کلامی اور خیالی مزے لے رہے تھے۔ سوال کرنے والی کے منہ سے نکلا بڑے بےشرم ہیں۔ یہ واقعہ یاد آتے ہی میری توجہ پودوں کی طرف چلی گئ۔ مدن پودوں سے متعلق بھی ہے۔ عشق‘ محبت‘ بہار اور بغل گیری مفاہیم درج بالا امور کی طرف چلے جاتے ہیں۔ شہد کی مکھی کو بھی گول کرنا پڑا کیونکہ ان کی آوازیں حالات مخصوصہ کی آوازوں سے مماثل ہوتی ہیں۔ لفظ بےشرم نے جنسیات سے متعلق سوچنے سے منع کر دیا ورنہ نیاز فتح پوری کی تصنیف جنسیات کی طرف سوچ کا دھارا بڑی تیزی سے مڑ رہا تھا۔
درخت امن اور جنگ میں انسان کے کام آتا رہا ہے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کتاب درختوں سے متعلق ہو گی چونکہ ناصر زیدی اس کتاب پر گفتگو کر رہے ہیں لہذا پڑھنے لاءق ہو گی۔ میں مدن سے آگے بڑھنے والا ہی تھا کہ اندر سے آواز آئ منڈی سے آلو اور ٹماٹر لا دیں۔ حکم بےغم کا تھا اس لیے بقیہ کالم پڑھے بغیر آلو ٹماٹر اور ان کے تیز ببھاؤ کی سوچوں میں مقید منڈی کی طرف بڑھ گیا۔ اس حقیقت کا ویروا کہ لفظ معنویت اور استعمالی حوالہ سےمحدود نہیں‘ اگلی نششت تک ملتوی کرنا پڑا۔
Comment