صیغہ ہم اور غالب نوازی
صیغہ ہم جمع کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نواب‘ بادشاہ‘ بادشاہ نما اور اقتداری طبقہ سے متعلق لوگ اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مخاطب کا اپنے سے بلند مرتبہ والے کے لیے یا بطور تکیہء کلام واحد کے لیے آپ وہ ان
انہوں کا استعمال رواج عام رکھتا ہے تاہم فرد واحد جب خود کے لیے ہم کا صیغہ استعمال کرتا ہے تو یہ احساس تفاخر اور تکبر میں آتا ہے۔
پنجاب میں عوامی اور عمومی سطع پر فرد واحد کے لیے ہم رواج نہیں رکھتا۔ اگر کوئ استعمال کرتا ہے تو اوپرا سا اور معیوب سا لگتا ہے۔ اقتداری‘ نوابی اور بادشاہ لوگ جب یہ صیغہ استعمال کرتے ہیں تو اوپرا اور معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ہاں ہم کا سامع سہما سہما اور کانپا کانپا ضرور ہوتا ہے۔ یہ صیغہ مخاطب پر احساس کہتری کے دورے ڈالنے اور پڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ صیغہ ہم کا استعمال کرنے والوں کا لب و لہجہ ہم کا عکاس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے شہنشاہ اکبر‘ جو اکبر اعظم کے عرف سے معروف ہے‘ کچھ فرما رہا ہو۔ بعض اوقات اس کا فرمانا دین الہی سے ماخوز لگتا ہے۔
پردھان منشی کے مکین صیغہ ہم کا بہت کم اور کبھی کبھار استعمال کرتے ہیں ہاں ان کا کردار ہم کا استعمال کرنے والوں سے زیادہ جارحاانہ ہوتا ہے حالانکہ اختیارات وغیرہ کے حوالہ سے ہم والوں سے بڑھ کر بلکہ کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں۔
اصل ستم کی بات تو یہ ہے ہر دو یعنی ہم اور ہم نما سے متعلق لوگوں کو اہل دانش اہل علم اور اہل قلم سمجھا جاتا ہے۔ ٹانی الذکر اہل قلم ہونے حوالہ سے خوف اور ہراس کی علامت ہوتے ہیں۔ جو بھی سہی ہم اور ہم نما ہماری سوساءٹی میں پکا پیڈا وجود رکھتے ہیں۔ پیڈا کو مضبوط اور پیڈا کے معنوں میں لیا جا سکتا ہے۔ پیڈا کی کیا اتھارٹی ہے‘ اس کا احوال ان سے دریافت کیا جا سکتا ہے جن پر یہ خدانخواستہ فٹ ہو چکا ہے۔
میرے نزدیک ان کو بالاتر اور صاحب تکبر مخلوق تسلیم کر لینے میں کوئ برائ اور مبالغہ نہیں۔ انھیں اہل علم اور اہل علم کہنے میں بھی حرج والی کوئ بات نہیں ہاں البتہ دل سے تسلیم کرنا ظلم زیادتی اور کھلا اندھیر ہے۔
تکبر اور علم کا کوئ تعلق ہی نہیں۔ یہ دو الگ سے رستے ہیں۔ جہاں تکبر ہو گا وہاں علم نہیں ہو گا اور جہاں علم ہو گا وہاں تکبر نہیں ہو گا۔ علم عجز اور انکساری کی طرف لے جاتا ہے۔ علم تقوے کی گرانقدر نعمت سے سرفراز کرتا ہے۔ تکبر شخص کو انسان نہیں رہنے دیتا۔ تکبر کے باطن میں خدا ہونے کے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ علم کے باطن میں الله کا عاجز بندہ ہونے کا ارمان کروٹیں لیتا ہے۔ یہ میں ناہیں سبھ توں کی طرف لے جاتا ہے۔ تکبر کوئ ناہیں سبھ میں کی طرف لے جاتا ہے۔
ناصر زیدی ہم والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ تحریروں میں بھی ہم کو پس پشت نہیں ڈالتے۔ وہ حقیقت کا گلا گھونٹ نہیں دبا سکتے ہھی ہیں لیکن ہم پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ وہ ہم کا استغمال کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ وہ لاٹ ہاؤس کے قلم سے پاکستان میں کالم لکھتے ہیں۔ لاٹ ہاؤس میں اج بھی بےشمار جونءیر ساتھی ہوں گے۔ لاٹی قلم نے میڈیا میں ان کے ہم کی دھاک بٹھا دی ہے۔ عام لوگوں کی کیا بات کرنا ہے وہ وچارے تھے اور وچارے ہیں لاٹی اور اقتداری بھی ان کےقلم کی مار سے خوف زدہ ہیں۔
میں اہل علم میں نہ اہل دانش میں ہوں اس لیے روٹی کو زندگی کے لیے ضروری خیال کرتا ہوں تاہم زندگی کو روٹی کے لیے نہیں سمجھتا۔ مجھے ایک مولوی صاحب یاد آگءے۔ حج پر جانے سے پہلے ایک درویش کے پاس گیے۔ سلام کیا اور فخر سے بتایا حج پر جا رہا ہوں۔ درویش نے پوچھا حضرت دین کے بناء کتنے ہیں۔ انہوں نے بتایا کلمہ نماز روز حج زکوات۔ درویش نے کہا روٹی کو چھوڑ رہے ہیں۔ مولوی صاحب نے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کہا اور اٹھ گیے۔ اتفاق سے حج سے واپسی پر بحری جہاز تباہ ہو گیا اور یہ ایک لکڑی کے تختے پر بیٹھ کر ایک جزیرے میں جا پھنسے۔ وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ بھوک نے سخت پریشان کیا۔ اچانک ایک بابا روٹی خرید لو کا آوازہ لگاتا گزرا۔ مولوی صاحب نے انھیں بلایا اور روٹی دینے کی استدعا کی۔ بابے نے قیمت طلب کی۔ انھوں نے کہا میرے پاس دام نہیں ہیں۔ بابے نے کہا کچھ تو ہو گا۔ انھوں نے کہا میرے پاس کلمہ نماز روز حج زکوات ہے۔ بابے نے نماز لکھوا لی اور روٹی دے دی۔ اگلی بار روزہ پھر حج اسی طرح زکوات بھی لکھوا لی۔ دریں اثنا ایک جہاز ادھر سے گزرا وہ کسی ناکسی طرح اس پر سوار ہو کر وطن آ گے۔
ملنے ملانے اور پرتکلف دعوتوں سے فراغت کے بعد اس درویش کے پاس گیے۔ دعا سلام اور احوال پوچھنے کے بعد درویش نے دین کے بناء پوچھے۔ مولوی صاحب نے روٹی کو پھر گول کر دیا۔ درویش نے روٹی کا ذکر کیا تو مولوی صاحب حسب سابق توبہ توبہ پر اتر آءے۔ درویش نے دستخط شدہ کاغذ ان کے سامنے رکھ دیا۔ اگر دیکھا جاءے روٹی زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اہل تقوی کا جینا بھی اس سے منسلک ہے۔ روٹی نہ ملنے کی صورت میں منفی سوچ کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
اگر ہم کے تناظر میں دیکھا جاءے تو یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہے گی کہ ناصر زیدی موجودہ اور سابقہ کے حوالہ سے بڑے بااختیار ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لاٹ ہاؤس والا قلم ان کے عزت مآب ہاتھ میں ہے۔ میں عرصہ دراز سے سیکڑیری ہاءر ایجوکیشن کی خدمت میں اپنے ایم فل الاؤنس کے لیے درخواستیں گزار رہا ہوں۔ اب تو مجھے درخواستوں کی تعداد بھی یاد نہیں رہی۔ رقم ملنا تو دور کی بات ان کی جانب سے واپسی جواب تک موصول نہیں ہوا۔ یہی حال پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن لاہور والوں کا ہے۔
انھوں نے تحریری طور پر کہا ہے کہ وہ میری کتاب کی اعزازی پروف ریڈنگ کے لیے تیار ہیں۔ اس خدمت کو سردست چھوڑیں۔ مجھے اپنا اثر رسوخ اور ہم کا جاءز استعمال کرتے ہوءے ہر دو محکموں سے میری ہی رقم دلوا دیں تاکہ میں ان سے کتاب کی اعزازی پروف ریڈنگ کروا کر دوبارہ سے کتاب شاءع کرنے کی سعادت حاصل کر سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا حق دلانے میں صیغہ ہم مثبت کردار ادا کرکے ناصرف گریب پروری کر سکتا ہے بلکہ غالب نوازی کا اعزاز بھی حاصل کر سکتا ہے۔