مشتری ہوشیآر باش
کسی کجی خرابی غلطی سچائ یا ہونی کو تسلیم نہ کرنا زمین کے ہر خطہ کے انسان کی سب سے بڑی اور مستمل خوبی ہے۔ جب یہ رواج پا گئ ہے تو اس کی کسی سطع پر مذمت کرنا کسی طرح درست نہیں۔ جب کوئ تسلیم نہیں کرتا تو وہ اول الذکر طبقے کی صف میں ا کھڑا ہوتا ہے۔ کسی گنجے کو اگر آپ ہیلو گنجا صاحب یا کسی کانے کو محترم کانا صاصب کہہ کر پکاریں گے تو وہ آپ کا سر پھوڑ دے گا۔ کتنی زیادتی کی بات ہے۔ کیا مخاطب گنجا یا کانا نہیں ہوتا۔ ادب آداب ملحوظ خاطر رکھا گیا ہوتا ہے۔ پھر غصہ اور تاؤ میں آنے کا‘ کیا جواز بنتا ہے۔غالبا اس طور سے پکارنے کا رویہ پروان نہیں چڑھ سکا جو بہرطور رواج پانا چاہیے۔
میری بات سن کر استاد ہوریں کھکھلا کر ہنسے اور میں شرمندہ سا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد فرمانے لگے۔ فعل وجہء پہچان نہیں ہوا کرتا۔ حثیت مرتبہ عہدہ گروہ جماعت شخص کی وجہءپہچان بنتی ہے۔ دفتر میں بیٹھا بابو یا افسر رشوت کے بغیر کام ہی نہیں کرتے بلکہ کر ہی نہیں سکتے انہیں محترم رشوتی صاحب کہہ کر پکارنا موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ ہوتا کام بھی نہیں ہو گا۔ یہی نہیں کسی نئ پھسنی میں پھس جاؤ گے حالانکہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر محترم رشوتی صاحب ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہر ایرے غیرے سے بھی بعید نہیں ہوتی۔
کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں یہ سچائ میں آپ پر اپلائ کرتا ہوں۔ بہت ہی پیارے اور محترم ڈھیٹ بےشرم صاحب اس موضوع کو چھوزیں اور کسی دوسرے موضوع پر بات کریں۔ استاد کا یہ طرز تکلم مجھے زہر میں بجھے تیر سے زیادہ تیزدھار محسوس ہوا اور میرے منہ سے بےساختہ نکل گیا: یہ آپ کیا بکواس کر رہے ہیں۔ میری بوکھلاہٹ اور سیخ پائ پہ سیخ پا ہونے کی بجاءے انھوں نے پہلے سے زیادہ جاندار قہقہ داغا۔ پھر فرمایا جس چیز پر آپ عمل نہیں کر سکتے دوسروں سے اس کی برداشت کی توقع کرنا کھلی حماقت نہیں؟!
پہلے آپ یہ فرماءیے کہ آپ نے مجھے ڈھیٹ اور بے شرم کس بنیاد پر کہا ہے؟
آپ بیسویں صدی سے سیکرٹری ہاءر ایجوکیشن پنجاب کی خدمت میں اپنے ایم فل الاؤنس کے لیے مسلسل اور متواتر درخواستیں گزار رہے ہیں اکیسویں صدی کے تیرہ سال گزر چکے ہیں کسی ایک کا بھی جواب موصول ہوا ہے‘ نہیں نا۔ آپ پھر درخواست گزارنے کی سوچ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ڈھیٹ ہوءے نا۔
آپ نےمجھے بےشرم کیوں کہا ہے؟
اس کا بھی جواب دیتا ہوں پہلے پہلی بات تسلیم کرو یا دلیل سے انکار کرو۔
استاد کی بات میں دم اور خم پورے پہار کے ساتھ توازن رکھتے تھے۔ دل اور دماغ استاد کی بات کو تسلیم کر رہے تھے لیکن زبان پر رعشہ طاری تھا۔
آپ نے مجھے بےشرم کیوں کہا ہے۔ یہ زیادتی ہے۔ سراسر زیادتی ہے۔
میں نے اپنی ہاں کو جعلی غصہ دکھا کر گول کرنے کی کوشش کی۔
میری چترائ پر انھوں نے پتھرپاڑ قہقہ داغا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں من ہی من میں بڑا کچا ہوا۔
حضرت ٹالیے مت۔ دو ٹوک ہاں یا ناں میں جواب دیں۔
چلو ایک منٹ کے لیے درست مان لیتا ہوں لیکن آپ نے بےشرم ایسا ثقیل لفظ میری ذات کے ساتھ نتھی کیوں کیا ہے؟
منگنیں ڈال کر سہی‘ آپ نے میری بات کو آؤں گاؤں کرکے تسلیم تو کیا۔ کان اوپر سے پکڑو یا سیدھے‘ بات ایک ہی ہے تاہم آپ حد درجہ لسےاور پھوسٹر ثابت ہوءے ہیں۔ اہل جفا کے پاس ایک سے ایک بڑھ کر دلیل ہوتی ہے لیکن آپ کے پلے تو ککھ نہیں۔ آپ کا تو الله ہی حافظ ہے۔ غلطی کرتے ہیں تو ہاتھ میں کوئ دلیل بھی رکھیے ورنہ سکے میں مارے جاؤ گے۔ آپ نے چھے ماہ پہلے پنجاب گورنمنٹ سروسز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن والوں کو اپنی رقم کے لیے درخواست گزاری اور آس لگا کر بیٹھ گیے۔ بھولے بادشاہ وہ بھی اسی عدم تسلیمی نظام کا حصہ ہیں۔ وہاں جاؤ‘ گرہ کا منہ کھولو اور زبان والے منہ سے تسلیم کرو کہ ان کا کام صاف شفاف اور اک نمبری ہوتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ کچھ لیے بغیر ساءل کی داد رسی فرمائ ہے۔ تصوف جدید کے درازوں کی کلید ان کے پاس ہے۔ کیا یہ بےشرمی اور ہٹ دھرمی نہیں بن دیے لینے کی اچھا رکھتے ہو اوپر سے ان کے متعلق ٹکے ٹکے کی بےفضول اور معنی خیز باتیں کرتے ہو۔
استاد نے اور بھی بہت ساری باتیں کیں جن پر بخوشی ناسہی جبری قہقہ لگایا جا سکتا تھا لیکن میں نے اپنے منہ کو اور اس سے متعلقہ اعضاء کو زحمت ہی نہ دی۔ پلہ نہ جھڑنا اور سکے تے مل ماہیا بےشک اور بلاشبہ دفتری امور کی خلاف ورزی اور اس مستعمل رویے کے خلاف سازش نہیں‘ بغاوت ہے۔ اگر یہ لوگ اس سسٹم کا حصہ ہیں اور خرابی کو خرابی تسلیم نہیں کرتے تو میں اپنی ذات سے متعلق خرابی کو خرابی کیوں تسلیم کروں۔ تسلیم کر لینے کی صورت میں بھی غلط ٹھہرتا ہوں۔ غالب کا دور اور تھا تسلیم کی خو ڈالنا سرکاری مجبوری تھی۔ تسلیم کی خو نہ ڈالنا آج کی سرکاری مجبوری ہے۔ گو ادھر گرہ میں مال آتا ہے اور ادھر جاتا ہے۔
اب جو بات کرنے جا رہا یہ درج بالا معاملے کا حصہ نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ میں لکھ ہی نہیں رہا ناہی ایسی باتیں لکھی جا سکتی ہہں کہ گرہ میں کرایہ تک نہیں‘ ان منہ اور کھیسہ پاڑ حضرات کے تقدس مآب دامن میں قاءداعظم کے سفارشی رقعے کہاں سے رکھوں۔ وہ بےچارے بھی تو قانون کے پابند ہہں۔ میں اپنی حتمی مجبوری سے مجبور ہوں تبھی تو گرہ کا کڑوا سچ لکھا ہی نہیں۔
مشتری!
ہوشیار باش
میں عصری سچائ کے تحت خود میں تسلیم کی خو ڈال کر عصری ضابطے کے توڑنے کا جرم اپنے سر پر نہیں لے سکتا۔
یہی پڑھا سمجھا اور سوچا جاءے۔
کسی کجی خرابی غلطی سچائ یا ہونی کو تسلیم نہ کرنا زمین کے ہر خطہ کے انسان کی سب سے بڑی اور مستمل خوبی ہے۔ جب یہ رواج پا گئ ہے تو اس کی کسی سطع پر مذمت کرنا کسی طرح درست نہیں۔ جب کوئ تسلیم نہیں کرتا تو وہ اول الذکر طبقے کی صف میں ا کھڑا ہوتا ہے۔ کسی گنجے کو اگر آپ ہیلو گنجا صاحب یا کسی کانے کو محترم کانا صاصب کہہ کر پکاریں گے تو وہ آپ کا سر پھوڑ دے گا۔ کتنی زیادتی کی بات ہے۔ کیا مخاطب گنجا یا کانا نہیں ہوتا۔ ادب آداب ملحوظ خاطر رکھا گیا ہوتا ہے۔ پھر غصہ اور تاؤ میں آنے کا‘ کیا جواز بنتا ہے۔غالبا اس طور سے پکارنے کا رویہ پروان نہیں چڑھ سکا جو بہرطور رواج پانا چاہیے۔
میری بات سن کر استاد ہوریں کھکھلا کر ہنسے اور میں شرمندہ سا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد فرمانے لگے۔ فعل وجہء پہچان نہیں ہوا کرتا۔ حثیت مرتبہ عہدہ گروہ جماعت شخص کی وجہءپہچان بنتی ہے۔ دفتر میں بیٹھا بابو یا افسر رشوت کے بغیر کام ہی نہیں کرتے بلکہ کر ہی نہیں سکتے انہیں محترم رشوتی صاحب کہہ کر پکارنا موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ ہوتا کام بھی نہیں ہو گا۔ یہی نہیں کسی نئ پھسنی میں پھس جاؤ گے حالانکہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر محترم رشوتی صاحب ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہر ایرے غیرے سے بھی بعید نہیں ہوتی۔
کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں یہ سچائ میں آپ پر اپلائ کرتا ہوں۔ بہت ہی پیارے اور محترم ڈھیٹ بےشرم صاحب اس موضوع کو چھوزیں اور کسی دوسرے موضوع پر بات کریں۔ استاد کا یہ طرز تکلم مجھے زہر میں بجھے تیر سے زیادہ تیزدھار محسوس ہوا اور میرے منہ سے بےساختہ نکل گیا: یہ آپ کیا بکواس کر رہے ہیں۔ میری بوکھلاہٹ اور سیخ پائ پہ سیخ پا ہونے کی بجاءے انھوں نے پہلے سے زیادہ جاندار قہقہ داغا۔ پھر فرمایا جس چیز پر آپ عمل نہیں کر سکتے دوسروں سے اس کی برداشت کی توقع کرنا کھلی حماقت نہیں؟!
پہلے آپ یہ فرماءیے کہ آپ نے مجھے ڈھیٹ اور بے شرم کس بنیاد پر کہا ہے؟
آپ بیسویں صدی سے سیکرٹری ہاءر ایجوکیشن پنجاب کی خدمت میں اپنے ایم فل الاؤنس کے لیے مسلسل اور متواتر درخواستیں گزار رہے ہیں اکیسویں صدی کے تیرہ سال گزر چکے ہیں کسی ایک کا بھی جواب موصول ہوا ہے‘ نہیں نا۔ آپ پھر درخواست گزارنے کی سوچ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ڈھیٹ ہوءے نا۔
آپ نےمجھے بےشرم کیوں کہا ہے؟
اس کا بھی جواب دیتا ہوں پہلے پہلی بات تسلیم کرو یا دلیل سے انکار کرو۔
استاد کی بات میں دم اور خم پورے پہار کے ساتھ توازن رکھتے تھے۔ دل اور دماغ استاد کی بات کو تسلیم کر رہے تھے لیکن زبان پر رعشہ طاری تھا۔
آپ نے مجھے بےشرم کیوں کہا ہے۔ یہ زیادتی ہے۔ سراسر زیادتی ہے۔
میں نے اپنی ہاں کو جعلی غصہ دکھا کر گول کرنے کی کوشش کی۔
میری چترائ پر انھوں نے پتھرپاڑ قہقہ داغا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں من ہی من میں بڑا کچا ہوا۔
حضرت ٹالیے مت۔ دو ٹوک ہاں یا ناں میں جواب دیں۔
چلو ایک منٹ کے لیے درست مان لیتا ہوں لیکن آپ نے بےشرم ایسا ثقیل لفظ میری ذات کے ساتھ نتھی کیوں کیا ہے؟
منگنیں ڈال کر سہی‘ آپ نے میری بات کو آؤں گاؤں کرکے تسلیم تو کیا۔ کان اوپر سے پکڑو یا سیدھے‘ بات ایک ہی ہے تاہم آپ حد درجہ لسےاور پھوسٹر ثابت ہوءے ہیں۔ اہل جفا کے پاس ایک سے ایک بڑھ کر دلیل ہوتی ہے لیکن آپ کے پلے تو ککھ نہیں۔ آپ کا تو الله ہی حافظ ہے۔ غلطی کرتے ہیں تو ہاتھ میں کوئ دلیل بھی رکھیے ورنہ سکے میں مارے جاؤ گے۔ آپ نے چھے ماہ پہلے پنجاب گورنمنٹ سروسز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن والوں کو اپنی رقم کے لیے درخواست گزاری اور آس لگا کر بیٹھ گیے۔ بھولے بادشاہ وہ بھی اسی عدم تسلیمی نظام کا حصہ ہیں۔ وہاں جاؤ‘ گرہ کا منہ کھولو اور زبان والے منہ سے تسلیم کرو کہ ان کا کام صاف شفاف اور اک نمبری ہوتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ کچھ لیے بغیر ساءل کی داد رسی فرمائ ہے۔ تصوف جدید کے درازوں کی کلید ان کے پاس ہے۔ کیا یہ بےشرمی اور ہٹ دھرمی نہیں بن دیے لینے کی اچھا رکھتے ہو اوپر سے ان کے متعلق ٹکے ٹکے کی بےفضول اور معنی خیز باتیں کرتے ہو۔
استاد نے اور بھی بہت ساری باتیں کیں جن پر بخوشی ناسہی جبری قہقہ لگایا جا سکتا تھا لیکن میں نے اپنے منہ کو اور اس سے متعلقہ اعضاء کو زحمت ہی نہ دی۔ پلہ نہ جھڑنا اور سکے تے مل ماہیا بےشک اور بلاشبہ دفتری امور کی خلاف ورزی اور اس مستعمل رویے کے خلاف سازش نہیں‘ بغاوت ہے۔ اگر یہ لوگ اس سسٹم کا حصہ ہیں اور خرابی کو خرابی تسلیم نہیں کرتے تو میں اپنی ذات سے متعلق خرابی کو خرابی کیوں تسلیم کروں۔ تسلیم کر لینے کی صورت میں بھی غلط ٹھہرتا ہوں۔ غالب کا دور اور تھا تسلیم کی خو ڈالنا سرکاری مجبوری تھی۔ تسلیم کی خو نہ ڈالنا آج کی سرکاری مجبوری ہے۔ گو ادھر گرہ میں مال آتا ہے اور ادھر جاتا ہے۔
اب جو بات کرنے جا رہا یہ درج بالا معاملے کا حصہ نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ میں لکھ ہی نہیں رہا ناہی ایسی باتیں لکھی جا سکتی ہہں کہ گرہ میں کرایہ تک نہیں‘ ان منہ اور کھیسہ پاڑ حضرات کے تقدس مآب دامن میں قاءداعظم کے سفارشی رقعے کہاں سے رکھوں۔ وہ بےچارے بھی تو قانون کے پابند ہہں۔ میں اپنی حتمی مجبوری سے مجبور ہوں تبھی تو گرہ کا کڑوا سچ لکھا ہی نہیں۔
مشتری!
ہوشیار باش
میں عصری سچائ کے تحت خود میں تسلیم کی خو ڈال کر عصری ضابطے کے توڑنے کا جرم اپنے سر پر نہیں لے سکتا۔
یہی پڑھا سمجھا اور سوچا جاءے۔
Comment