اردو میں رومن رسم الخط کا مسلہ
کل ایک صاحب سے اردو کے رسم الخط کے حوالہ سے بات ہو رہی تھی۔ وہ اس معاملہ میں بڑے ہی دکھی ہو رہے
تھے۔ ان کے خیال میں رومن خط کا رواج پانا اردو کے خلاف کھلی سازش ہے۔ عرصہ پہلے ڈاکٹر ریاض مجید سے بھی اس ذیل میں میرا ٹیلی فون پر مکالمہ ہوا تھا۔ کچھ عرض کرنے سے پہلے دو باتیں واضع کر دوں
اول۔ برصغیر والوں کا آپسی اتحاد توڑنے کے لیے انگریز بہادر نےجہاں اور بہت سے اقدام کیے وہاں فورٹ ولیم کالج کے ذریعے ہندوی کے دو رسم الخط قرار دیے۔ مسلمانوں کے لیے اردو اور ہندووں کے لیے ہندی کو رواج دیا۔ ہمارے بڑے بڑے عالم فاضل یہ جان نہ پاءے کہ یہ انگریز بہادر کی سازش ہے۔
١۔ زبان کا کوئ مذہب علاقہ اور نظریہ نہیں ہوتا یہ اسی کی ہوتی ہے جو اسے استعمال میں لاتا ہے۔
٢۔ ہر وہ جو حضرت ہند بن حضرت حام بن حضرت نوح کی سنتان ہے‘ وہ ہندو ہے۔ اب الگ الگ نظریہ ہونا بالکل الگ سی بات ہے۔
٣۔ یہ زبان ہزاروں سال سے ہندسنتان (ہندوستان) میں استعمال میں آ رہی ہے۔ الله جانے وقت اور حالات کے ساتھ اس کے کتنے رسم الخط بدلے ہوں گے۔
دوم۔ فوج میں رومن خط راءج تھا انگریز اردو اور دیو نگری خط نہیں جانتا تھا۔ ترقی کے لیے رومن اردو اور میپ ریذنگ کے امتحان پاس کرنا ضروری تھے۔ صوبے دار تک فسٹ رومن اورفسٹ میپ ریڈنگ کے امتحان پاس کرنا ضروری تھے۔ یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد تک بھی جاری تھا۔ ١٩٦٩ تک موجود تھا اس کے بعد کا مجھے معلوم نہیں۔
گویا رومن خط کوئ نیا نہیں۔ رومن خط انگریز کی ضرورت تھی۔ بھارت والے ہی کیا‘ آج پوری دنیا میں ہندوی سے متعلق لوگ موجود ہیں لیکن وہ اردو اور دیوناگری سے نابلد ہیں تاہم رومن خط کے ذریعے ان سے رابطہ ممکن ہے۔ آج یہ سازش ہے تو اس وقت کیا تھی؟
اردو رسم الخط جو عربی فارسی جیسا ہے کیا یہ عربوں کی حکمرانی سے پہلے تھا؟
کیا یہ لازم ہے کہ آتا کل بھی مغرب والوں کا ہو گا؟
اس وقت اس عہد کی اپنی ضرورتیں اور اپنی ترجیحات ہوں گی۔ اردو ہندی اور رومن خط پر کسی اور خط کا سکہ ہو گا۔ رومن خط آوازوں کے حوالہ سے کتنا ہی ناقص سہی کا راءج رہنا آج کے حوالہ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
رومن خط کے مخالفین کا استدلال یہ ہے کہ اس خط کے حوالہ سے اردو مر جاءے گی۔
١۔ کوئ زبان اس وقت تک نہیں مر سکتی جب تک اس کے دو استعمال کرنے والے باقی رہتے ہیں۔ ہر زبان کا آغاز بھی دو سے ہوا ہے۔
٢۔ آلات نطق میں تبدیلی نہیں آ جاتی۔
٣۔ لسانی عصبیت کا عنصر ختم نہیں ہو جاتا۔
میں ان تینوں باتوں کے پیش نظر کہتا ہوں کہ ہندوی(اردو+ہندی) کھی بھی نہیں مرے گی۔ یہ سب صدیوں سے ہوتا آرہا ہے۔ ہاں یہ افسوس بات ہے کہ الله جانے ان لوگوں کو عقل کب آءے گی اور یہ اتحاد کی برکت کو کب سمجھں گے۔
یہاں ترکوں کو مثال میں نہ رکھیں ان کا ہم سے قطعی الگ مسلہ ہے۔ اردو سینتیس بنیادی آوازوں پر استوار ہے۔ آ اور
نون غنہ۔‘ جن کا بکثرت زبانی اور مکتوبی استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بارہ بھاری آوازیں استعمال میں آتی ہیں۔ علامتی آوازیں (زبر زیر وغیرہ)‘ ١٦٣ سے زیادہ مرکب آوازیں اور سابقے لاحقے استعمال میں آتے ہیں۔ ایک عام آدمی بول چال میں ان سے فطری حوالہ سے کیونکر دستکش ہو جاءے گا۔اس کی اس ذیل میں کوئ مجبوری نہیں۔ انگریز کی پیروی میں ایک شخص بھی نہیں مل سکے گا جو تم کو ٹم اور مانگتا کو مانگٹا بولتا ہو گا۔
گلی مکتوبی زبان کے زیر اثر نہیں ہوتی ہاں مکتوبی زبان کا مواد گلی سے حاصل کیا گیا ہوتا ہے۔گلی کی زبان کا اپنا مزاج اپنا انداز اور پنا رویہ ہوتا ہے۔ وہ مکتوبی زبان کے نحوی اصولوں کی پابند نہیں ہوتی۔ اسی طرح بہت سے پڑھے لکھے لوگ مکتوبی زبان سے کوئ رشتہ نہیں رکھتے اس کے باوجود بڑی نستعلیق زبان بولتے ہیں۔
گلی میں مختلف زبانوں سے متعلق لوگ ہوتے ہیں اور اپنے انداز سے بات کرتے ہیں۔ زبان سے متعلق شخص کو اس کی زبان سمجھنے میں رائ بھر دقت پیش نہیں آتی۔ وہ اس کے کہے کو زبان کے اصل نحوی طور سے مراد لیتے ہیں۔ مثلا ایک پٹھان کہتا ہے۔ ہم کل پشاور جاءے گی۔ اردو سے متعلق شخص اسے یوں لے گا۔ میں کل پشاور جاؤں گا۔
ایک انگریز کسی لڑکی سے کہتا ہے او لڑکی ٹم کیڈر کو جانا مانگٹی ہے۔ اردو والا اسے یوں لے گا۔ ارے لڑکی تم کدھر جانا چاہتی ہو۔ اردو والا انگریز کے کہے کو لکھے گا بھی اسی طرح۔ گویا گلی اور تحریر کی زبانیں ایک سی نہیں ہوتیں اور نہ ہی ہو سکتی ہیں۔ رومن میں لکھا یہ tum ossay baat baat par kayoun dantay hoجملہ
یوں پڑھا جاءے گا تم اسے بات بات پر
کیوں ڈانٹتے ہو۔ اردو والا اسے کبھی یوں نہیں پڑھے گا۔ ٹم اسے باٹ باٹ پر کیوں ڈانٹٹے ہو۔ اردو والا رومن میں اسی طرح لکھے گا۔ یہ اس کے تلفظ کا مسلہ نہیں بلکہ رومن میں ٹ آواز نہ ہونے کا مسلہ ہے۔ جب تک گلی میں دو ہندوی والے موجود ہیں ہندوی نہیں مرے گی۔
ہمارے عرب اور فارس سے رشتے ابھی کمزور نہیں پڑے۔ بھارت کے خلاف نفرت پھیلانے کے باوجود لوگ اتنا دور نہیں ہوءے جتنا کہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ کینسر کیڑوں کو خوب خوب جان گءے ہیں۔ ہماری نسل رومن کے حوالہ سے انگریزی آوازوں کو خوب خوب سمجھ گئ ہے اس کے باوجود امتحانوں میں انگریزی ہی میں بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ لہذا اس ذیل میں پریشان ہونے کی کوئ ضرورت نہیں۔ رومن خط نے ہمیں کوئ
نقصان نہیں پہنچایا بلکہ اردو خط سے ناواقفوں سے قریب کر دیا ہے۔ بول چال کے حوالہ سے بھی کوئ نقصان دیکھنے میں نہیں آیا۔