انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ
دنیا ترقی کر رہی ہے‘ یہ مقولہ عام اور بزت سا ہو گیا ہے۔ ہر کوئ ترقی اور دودھ کی نہریں بہانے کی باتیں تو کرتا ہے لیکن آج تک کسی کو یہ بتانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئ کہ ترقی کس چڑیا کا نام ہے۔ وہ رنگ روپ میں کیسی ہوتی ہے۔ اس کا ساءز کتنا ہوتا ہے۔ گولی ماریے ان باتوں کو‘ کوئ بس اتنا ہی بتا دے کہ وہ کس گلی کس محلے کس کوچے میں بانفس نفیس اقامت رکھتی ہے۔ دودھ کی نہر یا نہریں بہانے کے معاملہ کو چھوڑیے کیونکہ اس کا تعلق قیس المعروف مجنوں سے ہے۔ اب کون اس کی عشق گذیدہ ہڈیوں کو خراب کرے۔ امیدوار حضرات نے اسے بطور محارہ استعمال کیا تھا۔ محاورہ میں حقیقی معنی نہیں ہوتے اگر حقیقی معنی کود پڑیں تو محاورہ اسے قبولنے سے انکار کر دیتا ہے۔۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ محاورہ مہارت سے علاقہ رکھتا ہے۔ دودھ کی نہریں بہانے کا کبھی رواج نہیں رہا۔ ہاں پانی کی نہریں کبھی دانستہ کبھی نادانستہ اور کبھی باوجوہ غفلت چھوڑ کر لوگوں کو ڈبو کر ثواب اور آبادی کم کرنے کا رجحان ضرور رہا ہے۔
یہاں بجلی جاتی اور جاتی ہی ہے تاہم کبھی کبھار اپنے ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے اور یہ کوئ معولی بات نہیں۔ اگر وہ متوتر رہے تو اس کا قد اور مرتبہ صفر ہو کر رہ جاءے گا۔ ہمیں بجلی سے کوئ گلہ نہیں اور ناہی اس کے عالی مرتبے سے انکار۔ ہاں بجلی والوں سے ایک ناحق اور ناجاءز سا گلہ ضرور ہے۔ ہمارے محلے کے ایک مرکزی مقام پر بجلی کے تاروں کی چول ذرا ڈھیلی ہے جو ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور اکھڑتی ہے جس کے سبب بجلی مہاراج کے ہوتے اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔ ہر بار ہر گھر سے سو سو روپے جمع کیے جاتے ہیں۔ بجلی والے آتے ہیں تھوڑا سا اڑا کر چلے جاتے ہیں۔ یہ ان کی مستقل آمدنی ہے۔ آج لوگ منتخب ممبر صاحب کے ہاں گیے۔ ممبر صاحب کے کاموں نے کافی بیزت کرکے الٹے قدموں واپسی کی راہ دکھائ۔ شکر ہے وہ خود نہیں ملے ورنہ دو چار پھٹر ضرور ہو جاتے۔
لوگوں کا گلہ یہ تھا کہ ممبر صاحب نے تو دودھ کی نہریں بہا دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہاں تو پینے کے لیے پانی تک میسر نہیں۔ ایک صاحب نے بڑی پتے کی کہی‘ ممبر صاحب پاور میں ہیں محلے کے چھوٹے بڑوں کو بی آر بی پر لے جا کر ڈبکیاں دلاءیں گے۔ اس کے بعد لوگ پانی کا نام تک بھول جاءیں گے۔ میری راءے میں ہر چھوٹے بڑے کو بطور عبرت بجلی کے دو چار جھٹکے دے دیے جاءیں۔ بجلی کی خطرناکی کے زیر اثر اٹھتے بیٹھتے ان کے حلق سے آوازے اٹھیں گے نو نو بجلی گو گو۔ ایک صاحب نے کہا متعلقہ لاءین سے مک مکا کر لو اس طرح کچھ تو بچت ہو سکے گی۔ میں نے کہا یار ان کی ملیں تو نہیں چلتیں انہوں نے بھی تو یہیں سے کھانا ہے۔ تنخواہ میں بھنی مچھلی یا مرغے کی ٹانگیں تو نہیں کھائ جا سکتیں۔
سنتے آءے ہیں زندہ لاکھ کا مردہ سوا لاکھ کا۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ہی یہ مقولہ بھی بدل گیا ہے۔ اب صورت کچھ یوں ہے کہ مردہ لاکھ کا زندہ سوا لاکھ کا۔ یہ مقولہ اہل واپڈا تک محدود نہیں اس میں ساری دفتر خدائ آ جاتی ہے۔ زندہ جس طرح اندھیر مچاتا ہے مردہ تو اس نعمت عظمی سے دور رہتا ہے۔ پنشن یا دیگر وصولیاں زندہ کی چند ماہ کی مار نہیں ہوتیں۔ کچھ زیادتیاں زندہ لوگوں کے ساتھ بھی ہوتی ہیں۔ مثلا ملازم کی تنخواہ سے انشورنس کی جبری کٹوتی ہوتی ہے اور یہ معقول کٹوتی تا سروس ہوتی رہتی ہے۔ جب وہ ریٹاءر ہوتا ہے اسے اس کی تنخواہ سے کی گئ کٹوتی میں سے ایک پائ تک نہیں دی جاتی۔ مجوزہ رقم کی اداءگی اس کی موت سے مشروط ہوتی ہے یعنی وہ مرے گا تو ہی انشورنس کی رقم اسے نہیں‘ اس کے گھر والوں کو ملے گی۔ گھر والے اس کی ریٹاءرمنٹ تک تو اس کی موت نہیں چاہیں گے۔ وہ لاکھ کے لیے سوا لاکھ کی قربانی کیسے اور کیونکر گوارہ کریں گے۔ ہاں ریٹاءرمنٹ کے بعد اس کی زندگی انہیں خوش نہیں آءے گی۔ گویا ریٹاءرمنٹ تک پیدائ ملازم سوا لاکھ کا رہتا ہے لیکن اس کے بعد لاکھ کا رہ جاتا ہے جبکہ اس کا مرنا سوا لاکھ کا ٹھہرتا ہے۔
جیتے جی مرنے والا محروم گھر والوں کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ مرنے کے بعد انشورنس والوں کو یاد دلانے اور مک مکا کرنے والے بیوہ اور یتیم بچے یاد آ جاتے ہیں۔ وہ گھر والے جو زندگی میں اسے ضرورتوں کی صلیب پر لٹکاءے رکھتے ہیں۔ مرنے کے بعد انہیں کبھی اس کی قبر پر دعا فاتحہ تک کہنا نصیب نہیں ہوتا۔ وہ صرف کاغذوں میں بطور خاوند یا باپ بادل نخواستہ تکلفا یاد رکھا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ بیٹی کے جہیز کی عدم دستیابی کے غم میں موت کے حوالے ہوا ہو۔ حق اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ انشورنس والے جس کی تنخواہ سے جگا وصول کرتے ہیں‘ ریٹاءرمنٹ پر اس کی اپنی رقم جو اس سے وصول کی گئ ہوتی ہے اسے ادا کریں تاکہ بڑھاپے میں اس کے جیتے جی کسی کام آ سکے۔ کٹوتیاں کرنے والا کوئ بھی محکمہ ہو‘ لینے میں نر شیر ببر ہوتا ہے لیکن اس کی اپنی رقم دینے کے معاملہ میں اسے مرگی پڑ جاتی ہے۔ یہ معاملہ غور منٹ تک محدود نہیں حکومت خانہ بھی اس کی پیرو ہے۔ وصول تو پائ پائ کر لیتی ہے ضرورت پر کچھ طلب کر لو تو سماعت کے دروازے بند اور زبان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
اصل حیرت اس بات پر ہے کہ آءیس کریم اور سوہن حلوا کھانے اور سو طرح کے مہنگے مشروب پینے والی زبان حنطل سے بڑھ کر کڑوی کیوں ہو جاتی ہے۔ زبان بھی نءے دور کی ہو گئ ہے اگلے زمانے میں زبان کہے پر اٹل رہتی تھی۔ ٹانگر اور مسی روٹی کی تاثیر اٹھ گئ ہے۔ آج گورمے کا چرچا ہے۔ نئ نئ اشیا کو چھوڑ کر ٹانگر اور مرونذے کو کون پوچھتا ہے تب ہی تو زبان بھی سو طرح کی کرواٹیں لینے کی عادی ہو گئ ہے۔اگلے زمانے میں بکرے میں میں کیا کرتے تھے لیکن آج دفتروں میں ساءل اور گھر پر شوہر نامدار میں میں کرتے نظر آتے ہیں۔.
ویسے تحقیق کر دیکھیں زندگی میں‘ میں میں کا غلبہ رہا ہے۔ گنتی کے چند لوگ تو تو کے مرتبے پر فاءز ہو کر آج بھی احترام کے مستحق ٹھہرے ہیں۔ میں شریف کے حامل لوگ انہیں تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی تو میں والوں سے علاقہ نہیں رکھتی۔ اگر تو سے مراد میں والے ہوتے تو آج بھی خان خاناں ہوتے۔ ان کی تو سے مراد الله کی ذات گرامی ہے۔ آج تو تو کا نعرہ بلند کرکے بڑے لوگ خود میں کے درجے پر فاءز ہو گیے ہیں۔ زہے افسوس شاہی تو تو ہر کسی کا نصیبا نہیں ٹھہرتی۔
Comment