زندگی‘ حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت
زندگی بظاہر بڑی حسین دلفریب اور جازب نظر ہے اور ہے بھی لیکن اپنی اصل میں اس بڑی سے بڑھ کر پچیدہ اور مشکل گزار ہے۔ اسے کرنا تو بعد کی بات ہے پہلے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب سمجھنے کے لیے دو چار زندگیاں کہاں سے آءیں۔ ہزاروں سال سے انسان زمین پر رہ رہا ہے۔ تمیز و امتیاز کی دولت سے مالا مال ہوتے ہوءے بھی کنگال اور تہی دامن نظر آتا ہے۔ بعض اوقات کسی غلط فہمی کے زیر اثر غلط کو صحیح کہتا ہے لیکن زیادہ تر جانتے ہوءے کسی لالچ یا خوف کے تحت غلط کوعین سچ اور حق قرار دیتا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی غلط کو درست سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر وہ نمبردار قسم کا بندہ ہے تو ایک وسیع حلقہ حق کا ساتھ چھوڑ کر ناحق کے چرنوں میں جا بیٹھتا ہے حالانکہ اس ذیل میں ہر کسی کو خود سے غور کرنا چاہیے۔۔ دماغ اور ضمیر کی دولت ہر کسی کے پاس موجود ہوتی ہے۔ پیٹ شریف کے ہوتے اور اس سے سوچنے کے باعث دماغ اور ضمیر بےچارے دو نمبر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پیٹ کے سبب اتنا وقت ہی نہیں بچتا جو دماغ اور ضمیر کی حال پکار سنی جاءے یا ان کی جانب نادانستہ سہی‘ کان پھر جاءیں۔ برے نتاءج کو ہونی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ نمرود ساری عمر چھیتر کھاتا رہا لیکن مچھر کو قہر خداوندی کی بجاءے ہونی قرار دیتا رہا۔
پہلے میں بھی دفترشاہی کے بگڑے مزاج تیور اور اطوار کو ہونی سمجھ کر چپ کی بکل اوڑھنے کی سوچ رہا تھا۔ یہ کوئ آج کی بات ہے یہ تو سیکڑوں سال پرانا رویہ ہے۔ لوگ مٹھی گرم کرکے میرٹ کی سمت درست کر لیتے ہیں۔ جو گنڈ کے پکے ہوتے ہیں اول تا آخر میرٹ کے درجے پر فاءز نہیں ہو پاتے۔ جو لوگ کاغذ قلم متحرک رکھتے ہیں متاثرین بھی انھیں درخواست باز ایسے ثقیل لقب سے ملقوب کرتے ہیں۔ وہ اس قسم کے بیان دفتر شاہی کی خوشنودی کے لیے داغتے ہیں۔ دوسرا ان کے پیسے پھسے ہوءے ہوتے ہیں اور دفترشاہی ان پر غصہ نکالتی ہے۔ وہ اپنا مال بچانے اور جس کام کے لیے مال دیا گیا ہوتا ہے اسے کسسی ناکسی طرح نکلوانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ دل میں وہ بھی درخواست باز کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔
دل کو کون دیکھتا ہے لوگ حق اسے ہی سمجھتے ہیں جو زبان پر ہوتا ہے۔ ہم سب اہل کوفہ کو آج بھی برا بھلا کہتے کہ انہوں نے حسین کا ساتھ نہ دیا۔ یہ کوئ نہیں بتاتا گورنر کوفہ نے کس طرح خون سے گلیاں رنگ دیں۔ گورنر مورکھ کا سگا ماسڑ تھا۔ اسی طرح مولوی وچارے کا بھی ذکر آتا ہے۔ بڑے بڑے پھنے خان باٹی ٹیک گیے ان کا پیٹ کس طرح حسین کو کیوں حق پر مانتا۔ پیٹ اور سچائ دو الگ چیزیں ہیں۔
میں اتنا بڑا جاہل ہوتے ہوءے جمہوریت اور امریکا بہادر کے خلاف لکھتا رہا۔ مجھے اپنے لکھے پر ندامت ہوتی ہے۔ میں اتنی معمولی بات نہ سمجھ سکا کہ بادشاہ کا مستقل ہوتے ہوءے بھی پیٹ نہیں بھرتا۔ مرنے کے بعد بھی اس کا مقبرہ کئ کنال زمین گھرتا ہے۔ بادشاہ تو بادشاہ ہے اس کی بیگم کا مقبرہ بےحساب رقم ڈکار جاتا ہے۔ زندگی میں کیا کچھ ہضم کر جاتی ہو گی‘ مجھ سے جاہل کی سوچ میں بھی نہیں آ سکتا۔ بادشاہوں اور اس کے متعلقین کے گلچھرے اگر عموم کے سوچ میں آجاءں تو قیامت سے پہلے قیامت ہو جاءے گی۔ عارضی اور مستقل کا معاملہ الگ سے ہے۔ مستتل کا مرتے دم تک پیٹ نہیں بھرتا اور آنکھیں تشنہ رہتی ہیں۔ یہی نہیں لوٹنے اور سمیٹنے کی اسے جلدی پڑی رہتی ہے۔ عارضی کے پاس تو مخصوص اور محدود مدت ہوتی ہے اس لیے تن مچانا غیر فطری نہیں۔ جمہوریت والے تو چند سالوں کے لیے آتے ہیں اس لیے ان کا انھی پانا غیر فطری نہیں۔ وہ عوام کو کیا کریں‘ انہیں اپنی لوٹ مار سے فراغت ملے گی تو ہی عوام کے سیاپے پیٹیں گے۔
حاکم کبھی غلط نہیں ہوتا گویا ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ ہاں مات کھا کر سیٹ سے مرحوم ہونے والا کبھی درست ہو ہی نہیں سکتا۔ تمام ادارے بشمول عساکر‘ فاتح کے ساتھ ہوتے ہیں۔ طاقت کے ساتھ سب چلتے ہیں۔ یہی اصول رہا ہے اور رہے گا۔ اس کے خلاف اٹھنے والے سر قلم ہوتے رہیں گے۔ نقطے کی بات یہ کہ ادارے شاہ کے بل پر کھاتے ہیں اور شاہ ان اداروں کے بل پر اندھیر مچاتا ہے۔ ناءب قاصد سے شاہ تک ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہوتی ہیں۔ لہذا کسی چھوٹے کی اس سے بڑے کی شکایت کا فاءدہ ہی کیا۔
تاہم یہ طے ہے کاءنات میں ضدین بھی کام کرتی ہیں۔ ہر کوئ کسی ناکسی چیز سے ضرور ڈرتا ہے۔ اپنے اپنے کام نکلوانے کے لیے تحقیقی عمل کا تیز ہونا ضروری ہے۔ ہر بااختیار اور شکار کی چیر پھاڑ کا ماہر میل‘ اپنی اور پرائ منہ متھے والی فیمیل سے ڈرتا ہے فیمیل چوہے سے ڈرتی ہے لہذا چوہے چھوڑنے سے کام نکل سکتے ہیں۔ برمحل حسب ضرورت اور ایکٹیو چوہا نہ چھوڑا گیا تو کام پہلے سے بھی بگڑ سکتا ہے۔ حسین کی طرح قبلہ درست کرنے کی ضرورت نہیں۔ حسین ایک ہی تھا اور ہم حسین نہیں ہیں۔ ہر وقت معاملے کے حوالہ سے اپنے ساتھ دوچار چوہے ضرور رکھو اور یہ متعلقہ کی سرکاری فیمیل کے دامن میں چھوڑو پھر دیکھو غاءب سے کیا کیا نمودار ہوتا ہے۔ غیر سرکاری متعلقہ فیمیل کے دامن بے حیا میں بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔
گریڈ ١٩ کے ایم فل الاؤنس سے متعلقہ کلرک بادشاہ کو معافی کے کھاتا میں رکھیں وہ بڑے معصوم شریف دیانت دار اور راہ راست کے راہی ہیں۔ دونوں بیبیوں سے ان کا کوئ واسطہ نہیں۔ وہ خود ہی سر چڑھتی ہیں اور چوتھائ سے زیادہ بالائ چٹ کر جاتی ہیں۔ ان سے قسم لے لو جو آج تک انہوں نے کبھی دعوت خورد و نوش کی دعوت دی ہو مگر حسین مہمان کی مہمانی کو بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کفران نعمت کے مترادف ہے۔
ان پر فضول خرچی کا الزام قطعی غلط بےبنیاد اور معنویت سے تہی ہے۔ وہ پلے سے ایک اکنی تک خرچ نہیں کرتے۔ سگریٹ کے پنے میں بڑی احتیاط سے محفوظ کی گئ جاز کی سم میں بالائ سے بیلنس ڈلوا کر پییکج کرکے اپنی معزز غیر سرکاری خواتین سے چھپ چھپا کر کچھ ہی وقت کے لیے تو خوش طبعی اور گوارا خوش طبعی فرماتے ہیں۔ وہ کوئ اکیلے ہیں جو ان کی پیٹھ پیچھے ساتھ والے غلط سلط باتیں کرتے ہیں۔ چغلی بہت بری بیماری ہے۔ اسلام اس کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ ساتھ والے کون سا ہل پر نہاءے ہوءے ہیں۔ ٹھرک اور جنسی عشق بازی تو روٹین کا معاملہ ٹھہرا ہے۔ اس حمام میں حسب توفیق تقریبا سارے بےلباس ہیں ۔ ان کی بےلباسی میں بھی حسن سلیقہ اور کمال کا رکھ رکھاؤ پایا جاتا ہے۔ اس کی باذوق حضرات کو کھل کر داد دینی چاہیے۔
میں نے یہ محض چوہا چھوڑا ہے اسے سچ نہ سمجھا جاءے ورنہ وہ تو دیانت اور شرافت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوں نے آج تک میلی اور سچی آنکھ سے کبھی کسی غیر سرکاری عورت کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے آج تک کسی سے ایک دمڑی تک نہیں لی۔ اگر لی ہو تو رشوت دینے والے کے ہاتھوں میں قبری کیڑے پڑیں۔ اس کا نہ اس جگ بھلا ہو اور ناہی قیامت کے دن چھٹکارہ ہو۔ رشوت دینے والے سیدھے دوزخ میں جاءیں گیے۔ جاءز کام نہ کراءیں گے تو مر نہیں جاءیں گے۔ انھیں یہ صاحب نائ بھیج کرنہیں بلواتے خود اپنے قدموں پر چل کر جاتے ہیں۔ رہ گئ خواتین کی بات اسے چوہا سمجھ کرنظرانداز کر دیں۔ ایسی کوئ بات ہی نہیں۔ یقین نہیں آتا تو ان سے یا ان خواتین سے قسم لے لیں۔ قسم کے معاملہ میں مجھے نہ لاءیں۔ میں کسی کے ذاتی معاملہ میں دخل اندازی کا قاءل نہیں۔
میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ زندگی بڑی پچیدہ اور الجھی ہوئ گھتی ہے۔ اسے سمجھنا آسان نہیں۔ ہم جو دیکھ یا سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ اصلی اور حقیقی نہیں ہوتا۔ موصوف کی سرکاری محترمہ کو محض شک تھا۔ شک کوئ اچھی اور صحت مند چیز نہیں۔ اپنے جیون ساتھی پر شک کرنے سے پاپ لگتا ہے۔ شک درمیان کی چیز ہے گویا نہ مونٹ نہ مذکر۔ انھیں شک سے دور رہنا چاہیے یا ہونی سمجھ کر صبر و شکر سے کام لینا چاہیے عالی ظرف لوگوں کا یہی طور اور وتیرا رہا ہے۔ غلط سمجھنے یا تذبذب کی حالت میں زندگی کرنے والے اعتماد کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ شک سے جان چھڑا کر اور ہونی کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ایک شخص سارا دن کھپتا کھپاتا ہے اسے ٹیسٹ بدلنے کا حق ملنا چاہیے۔ پرانی اشیاء سے منہ تو نہیں موڑ رہا ہوتا تو پھر رولا کس بات کا ہےِ؟!
زندگی بظاہر بڑی حسین دلفریب اور جازب نظر ہے اور ہے بھی لیکن اپنی اصل میں اس بڑی سے بڑھ کر پچیدہ اور مشکل گزار ہے۔ اسے کرنا تو بعد کی بات ہے پہلے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب سمجھنے کے لیے دو چار زندگیاں کہاں سے آءیں۔ ہزاروں سال سے انسان زمین پر رہ رہا ہے۔ تمیز و امتیاز کی دولت سے مالا مال ہوتے ہوءے بھی کنگال اور تہی دامن نظر آتا ہے۔ بعض اوقات کسی غلط فہمی کے زیر اثر غلط کو صحیح کہتا ہے لیکن زیادہ تر جانتے ہوءے کسی لالچ یا خوف کے تحت غلط کوعین سچ اور حق قرار دیتا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی غلط کو درست سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر وہ نمبردار قسم کا بندہ ہے تو ایک وسیع حلقہ حق کا ساتھ چھوڑ کر ناحق کے چرنوں میں جا بیٹھتا ہے حالانکہ اس ذیل میں ہر کسی کو خود سے غور کرنا چاہیے۔۔ دماغ اور ضمیر کی دولت ہر کسی کے پاس موجود ہوتی ہے۔ پیٹ شریف کے ہوتے اور اس سے سوچنے کے باعث دماغ اور ضمیر بےچارے دو نمبر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پیٹ کے سبب اتنا وقت ہی نہیں بچتا جو دماغ اور ضمیر کی حال پکار سنی جاءے یا ان کی جانب نادانستہ سہی‘ کان پھر جاءیں۔ برے نتاءج کو ہونی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ نمرود ساری عمر چھیتر کھاتا رہا لیکن مچھر کو قہر خداوندی کی بجاءے ہونی قرار دیتا رہا۔
پہلے میں بھی دفترشاہی کے بگڑے مزاج تیور اور اطوار کو ہونی سمجھ کر چپ کی بکل اوڑھنے کی سوچ رہا تھا۔ یہ کوئ آج کی بات ہے یہ تو سیکڑوں سال پرانا رویہ ہے۔ لوگ مٹھی گرم کرکے میرٹ کی سمت درست کر لیتے ہیں۔ جو گنڈ کے پکے ہوتے ہیں اول تا آخر میرٹ کے درجے پر فاءز نہیں ہو پاتے۔ جو لوگ کاغذ قلم متحرک رکھتے ہیں متاثرین بھی انھیں درخواست باز ایسے ثقیل لقب سے ملقوب کرتے ہیں۔ وہ اس قسم کے بیان دفتر شاہی کی خوشنودی کے لیے داغتے ہیں۔ دوسرا ان کے پیسے پھسے ہوءے ہوتے ہیں اور دفترشاہی ان پر غصہ نکالتی ہے۔ وہ اپنا مال بچانے اور جس کام کے لیے مال دیا گیا ہوتا ہے اسے کسسی ناکسی طرح نکلوانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ دل میں وہ بھی درخواست باز کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔
دل کو کون دیکھتا ہے لوگ حق اسے ہی سمجھتے ہیں جو زبان پر ہوتا ہے۔ ہم سب اہل کوفہ کو آج بھی برا بھلا کہتے کہ انہوں نے حسین کا ساتھ نہ دیا۔ یہ کوئ نہیں بتاتا گورنر کوفہ نے کس طرح خون سے گلیاں رنگ دیں۔ گورنر مورکھ کا سگا ماسڑ تھا۔ اسی طرح مولوی وچارے کا بھی ذکر آتا ہے۔ بڑے بڑے پھنے خان باٹی ٹیک گیے ان کا پیٹ کس طرح حسین کو کیوں حق پر مانتا۔ پیٹ اور سچائ دو الگ چیزیں ہیں۔
میں اتنا بڑا جاہل ہوتے ہوءے جمہوریت اور امریکا بہادر کے خلاف لکھتا رہا۔ مجھے اپنے لکھے پر ندامت ہوتی ہے۔ میں اتنی معمولی بات نہ سمجھ سکا کہ بادشاہ کا مستقل ہوتے ہوءے بھی پیٹ نہیں بھرتا۔ مرنے کے بعد بھی اس کا مقبرہ کئ کنال زمین گھرتا ہے۔ بادشاہ تو بادشاہ ہے اس کی بیگم کا مقبرہ بےحساب رقم ڈکار جاتا ہے۔ زندگی میں کیا کچھ ہضم کر جاتی ہو گی‘ مجھ سے جاہل کی سوچ میں بھی نہیں آ سکتا۔ بادشاہوں اور اس کے متعلقین کے گلچھرے اگر عموم کے سوچ میں آجاءں تو قیامت سے پہلے قیامت ہو جاءے گی۔ عارضی اور مستقل کا معاملہ الگ سے ہے۔ مستتل کا مرتے دم تک پیٹ نہیں بھرتا اور آنکھیں تشنہ رہتی ہیں۔ یہی نہیں لوٹنے اور سمیٹنے کی اسے جلدی پڑی رہتی ہے۔ عارضی کے پاس تو مخصوص اور محدود مدت ہوتی ہے اس لیے تن مچانا غیر فطری نہیں۔ جمہوریت والے تو چند سالوں کے لیے آتے ہیں اس لیے ان کا انھی پانا غیر فطری نہیں۔ وہ عوام کو کیا کریں‘ انہیں اپنی لوٹ مار سے فراغت ملے گی تو ہی عوام کے سیاپے پیٹیں گے۔
حاکم کبھی غلط نہیں ہوتا گویا ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ ہاں مات کھا کر سیٹ سے مرحوم ہونے والا کبھی درست ہو ہی نہیں سکتا۔ تمام ادارے بشمول عساکر‘ فاتح کے ساتھ ہوتے ہیں۔ طاقت کے ساتھ سب چلتے ہیں۔ یہی اصول رہا ہے اور رہے گا۔ اس کے خلاف اٹھنے والے سر قلم ہوتے رہیں گے۔ نقطے کی بات یہ کہ ادارے شاہ کے بل پر کھاتے ہیں اور شاہ ان اداروں کے بل پر اندھیر مچاتا ہے۔ ناءب قاصد سے شاہ تک ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہوتی ہیں۔ لہذا کسی چھوٹے کی اس سے بڑے کی شکایت کا فاءدہ ہی کیا۔
تاہم یہ طے ہے کاءنات میں ضدین بھی کام کرتی ہیں۔ ہر کوئ کسی ناکسی چیز سے ضرور ڈرتا ہے۔ اپنے اپنے کام نکلوانے کے لیے تحقیقی عمل کا تیز ہونا ضروری ہے۔ ہر بااختیار اور شکار کی چیر پھاڑ کا ماہر میل‘ اپنی اور پرائ منہ متھے والی فیمیل سے ڈرتا ہے فیمیل چوہے سے ڈرتی ہے لہذا چوہے چھوڑنے سے کام نکل سکتے ہیں۔ برمحل حسب ضرورت اور ایکٹیو چوہا نہ چھوڑا گیا تو کام پہلے سے بھی بگڑ سکتا ہے۔ حسین کی طرح قبلہ درست کرنے کی ضرورت نہیں۔ حسین ایک ہی تھا اور ہم حسین نہیں ہیں۔ ہر وقت معاملے کے حوالہ سے اپنے ساتھ دوچار چوہے ضرور رکھو اور یہ متعلقہ کی سرکاری فیمیل کے دامن میں چھوڑو پھر دیکھو غاءب سے کیا کیا نمودار ہوتا ہے۔ غیر سرکاری متعلقہ فیمیل کے دامن بے حیا میں بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔
گریڈ ١٩ کے ایم فل الاؤنس سے متعلقہ کلرک بادشاہ کو معافی کے کھاتا میں رکھیں وہ بڑے معصوم شریف دیانت دار اور راہ راست کے راہی ہیں۔ دونوں بیبیوں سے ان کا کوئ واسطہ نہیں۔ وہ خود ہی سر چڑھتی ہیں اور چوتھائ سے زیادہ بالائ چٹ کر جاتی ہیں۔ ان سے قسم لے لو جو آج تک انہوں نے کبھی دعوت خورد و نوش کی دعوت دی ہو مگر حسین مہمان کی مہمانی کو بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کفران نعمت کے مترادف ہے۔
ان پر فضول خرچی کا الزام قطعی غلط بےبنیاد اور معنویت سے تہی ہے۔ وہ پلے سے ایک اکنی تک خرچ نہیں کرتے۔ سگریٹ کے پنے میں بڑی احتیاط سے محفوظ کی گئ جاز کی سم میں بالائ سے بیلنس ڈلوا کر پییکج کرکے اپنی معزز غیر سرکاری خواتین سے چھپ چھپا کر کچھ ہی وقت کے لیے تو خوش طبعی اور گوارا خوش طبعی فرماتے ہیں۔ وہ کوئ اکیلے ہیں جو ان کی پیٹھ پیچھے ساتھ والے غلط سلط باتیں کرتے ہیں۔ چغلی بہت بری بیماری ہے۔ اسلام اس کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ ساتھ والے کون سا ہل پر نہاءے ہوءے ہیں۔ ٹھرک اور جنسی عشق بازی تو روٹین کا معاملہ ٹھہرا ہے۔ اس حمام میں حسب توفیق تقریبا سارے بےلباس ہیں ۔ ان کی بےلباسی میں بھی حسن سلیقہ اور کمال کا رکھ رکھاؤ پایا جاتا ہے۔ اس کی باذوق حضرات کو کھل کر داد دینی چاہیے۔
میں نے یہ محض چوہا چھوڑا ہے اسے سچ نہ سمجھا جاءے ورنہ وہ تو دیانت اور شرافت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوں نے آج تک میلی اور سچی آنکھ سے کبھی کسی غیر سرکاری عورت کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے آج تک کسی سے ایک دمڑی تک نہیں لی۔ اگر لی ہو تو رشوت دینے والے کے ہاتھوں میں قبری کیڑے پڑیں۔ اس کا نہ اس جگ بھلا ہو اور ناہی قیامت کے دن چھٹکارہ ہو۔ رشوت دینے والے سیدھے دوزخ میں جاءیں گیے۔ جاءز کام نہ کراءیں گے تو مر نہیں جاءیں گے۔ انھیں یہ صاحب نائ بھیج کرنہیں بلواتے خود اپنے قدموں پر چل کر جاتے ہیں۔ رہ گئ خواتین کی بات اسے چوہا سمجھ کرنظرانداز کر دیں۔ ایسی کوئ بات ہی نہیں۔ یقین نہیں آتا تو ان سے یا ان خواتین سے قسم لے لیں۔ قسم کے معاملہ میں مجھے نہ لاءیں۔ میں کسی کے ذاتی معاملہ میں دخل اندازی کا قاءل نہیں۔
میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ زندگی بڑی پچیدہ اور الجھی ہوئ گھتی ہے۔ اسے سمجھنا آسان نہیں۔ ہم جو دیکھ یا سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ اصلی اور حقیقی نہیں ہوتا۔ موصوف کی سرکاری محترمہ کو محض شک تھا۔ شک کوئ اچھی اور صحت مند چیز نہیں۔ اپنے جیون ساتھی پر شک کرنے سے پاپ لگتا ہے۔ شک درمیان کی چیز ہے گویا نہ مونٹ نہ مذکر۔ انھیں شک سے دور رہنا چاہیے یا ہونی سمجھ کر صبر و شکر سے کام لینا چاہیے عالی ظرف لوگوں کا یہی طور اور وتیرا رہا ہے۔ غلط سمجھنے یا تذبذب کی حالت میں زندگی کرنے والے اعتماد کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ شک سے جان چھڑا کر اور ہونی کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ایک شخص سارا دن کھپتا کھپاتا ہے اسے ٹیسٹ بدلنے کا حق ملنا چاہیے۔ پرانی اشیاء سے منہ تو نہیں موڑ رہا ہوتا تو پھر رولا کس بات کا ہےِ؟!
Comment